Shadi Ke Baad Mard Ka Kirdar Aur Khawateen Ki Nafsiyat
شادی کے بعد مرد کا کردار اور خواتین کی نفسیات
خواتین کی ایک کامن سی نفسیات ہے کہ ایک سوٹ یا جوتا لینا ہے تو کئی دکانیں اور بعض اوقات کئی مارکیٹس وزٹ کرتی ہیں۔ اور ہم مرد یہ دونوں چیزیں دو سے پانچ منٹ میں خرید لیتے ہیں۔
خواتین اپنی یہی نفسیات بچوں کے رشتے طے کرنے میں اپلائی کرتی ہیں۔ گھر گھر جانا شہر شہر خوار ہونا۔ بہتر سے بہتر کی تلاش میں بیٹی کے لیے نجانے کتنے لڑکوں کو اور بیٹے کے لیے ان گنت لڑکیوں کو رد کرتی ہیں۔ میری ماں کپڑے جوتے وغیرہ رنگ شنگ دیکھ کر لیے جاتے ہیں، انسان نہیں۔ چیزیں خریدنا اور رشتے ناطے جوڑنا دو الگ الگ عوامل ہیں۔ ایک ہی نفسیات دونوں کاموں میں استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ کچھ خدا کا خوف کرو۔
بیٹے بیٹی کا جوڑ ضرور دیکھیں۔ مگر گھر سے مکمل ہوم ورک کرکے مخالف پارٹی کی طرف جائیں۔ شکل، نین نقش، رنگ، قد، موٹو پتلو وغیرہ کے اعتراض لگا کر کسی کو رد کرنا ہماری روایات میں نہیں ہے۔
کسی ایک بیٹے یا بیٹی کا پہلی بار میں رشتہ طے کرنے کا ایک تجربہ کریں تو سہی۔ بہو کو دیکھنے نہیں رشتہ لیکر جائیں۔ اس بہو کی نظروں میں ساری عمر آپ ان شاءاللہ اپنے لیے عزت و احترام دیکھیں گے۔
رشتے ناطے کرنے میں جن بھی گھروں میں آل اِن آل خواتین ہیں۔ بچوں کے رشتے کرنے میں بے شمار مسائل ہیں۔ اور نہ ہی ایسے لوگوں سے کوئی میچور خاندان رشتہ جوڑنا چاہ رہا ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہاں عورت حکمران ہے ہم وہاں رشتہ نہیں کریں گے۔ اور ایسی خواتین آنے والی بہو کی بھی زندگی عذاب کر دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے خاوند کو کچھ نہیں سمجھ رہی ہوتیں تو بیٹے کو کیا سمجھیں گی؟ بہو کو غلام سمجھ کر اس پر بھی اپنی جاہلانہ حکمرانی جگانا شروع کر دیتی ہیں۔ میرا آپکو مشورہ ہے ایسی خواتین کے بچیں۔ جس گھر میں مرد کی بالا دستی ہے وہاں بیٹے بیٹی کا رشتہ کریں۔ خواتین کو ساتھ ضرور لیکر چلیں مگر مرد کریں اپنی مرضی۔
اور شادی کے بعد بیوی کے ساتھ ذیادتی کرنے کی صورت میں اپنی ماں کو روکیں۔ اگر آپکی ماں آپکے بہنوئی کو ذلیل کر رہی اسے بھی روکیں۔ آپکو پتا ہوتی ہے آپکی ماں کیا شے ہے۔ اتنے بھولے اور انجان نہ بنا کریں۔ حق پر ہوتے ہوئے بھی بیوی کو اپنی ماں یا بہنوں سے بلا وجہ ذلیل کروا کر آپ بیغرتی کا پارٹ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر آپ کس منہ سے بیوی کو ماں کی خدمت یا بہنوں کی شادیوں کے بعد ان سے اچھا تعلق رکھنے کی امید رکھ سکتے ہیں؟
مردوں کا کام کولہو کا بیل بن کر بس پیسے کمانا ہی نہیں ہے۔ یارو رشتے کرنے میں اپنا فعال کردار ادا کریں۔ اور بیٹے یا بیٹی کی شادی کے بعد اپنی بیوی پر نظر رکھیں کہ بہو کو داماد کو تنگ تو نہیں کررہی۔ اگر غیر ضروری معاملات میں ٹانگ اڑا رہی ہو تو اسے سختی سے روکیں۔ پہلے رشتے نہیں ہوتے۔ ہو جائیں تو گھریلو زندگی میں ناچاقیاں زندگی عذاب کر دیتی ہیں۔ قصور وار اس گھر کا مجرمانہ نیوٹرل ہونا ہوتا ہے۔
یار یہ خواتین ہماری ماؤں دادیوں کے دور میں اتنی وادھو نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے باپ دادا کا گھر میں ایک رعب و جلال ہوا کرتا تھا۔ ابا جی گھر آتے تھے کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا۔ ہم اپنے دادا کے سامنے شور نہیں کرتے تھے اندروں میں بھاگ جاتے تھے۔ یہ ڈر نہیں تمیز تھی۔
پرانے بزرگ گھریلو خواتین کی زندگی سے لا پرواہ نہیں ہوتے تھے۔ ہر کسی کو اپنی حد میں رکھتے تھے۔ جوائنٹ فیملی شادی کے بعد چچوں تائیوں کے بچوں کی شادیوں تک چلتی تھیں۔ ساس کا بہو پر بلا وجہ رعب ڈالنا حکم چلانا اسکی اپنی عزت ہی کم کرتا ہے۔۔ وہ اپنے آپ میں پتا نہیں کیا بن رہی ہوتی اور عزت دو کوڑی کی نہیں ہوتی اس کی۔ جیسے ہی موقع ملتا بہو الگ ہوجاتی۔ کاش ہم اپنے دن بدن بکھرتے ہوئے خاندانی نظام کو بچا سکیں۔
خواتین کو آزادی ضرور دیں۔ مگر اتنی جتنی قابل برداشت ہو۔ انکے نان و نفقہ کا خاص خیال رکھیں۔ بیوی کو خرچ دینا آپکی ذمہ داری ہے۔ وہ آپکی ماں سے کیوں پیسے لے؟ آپ سے اسکے متعلق سوال کیا جائے گا۔
ہر گھر میں خواتین کا ہر گز یہ رول نہیں ہے۔ اور اکثریت بھی ایسی نہیں ہے۔ مگر یہ پریکٹس اب دیکھا دیکھی عام ہوتی جا رہی ہے۔ آپ سب کے مشاہدے میں تو یہ سب آیا ہی ہوگا جو میں نے کل اور آج لکھا ہے۔ اس سے پہلے بھی آپ اس سے متاثر ہوں۔ اس کا سد باب کیجئے۔
جہاں بہو ذیادتی کر رہی ہو۔ اور کرتی بھی ہیں۔ ہر جگہ مظلوم نہیں ہوتی بہو۔ اسکا خاوند اسے اسکی متعین حد میں رکھے۔ اور جہاں داماد آپکی بیٹی پر ظلم کر رہا ہو۔۔ وہاں سب سے پہلے اس لڑکے کے ماں باپ اس کو سمجھائیں۔ یعنی بہو کے ساتھ آپکا بیٹا انصاف نہیں کر رہا تو اسکی خبر لیں۔
میری باتیں میری ماؤں بہنوں کو خاصی ناگوار گزریں گی۔ مگر ان کو سمجھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں تو انکی اپنی زندگی ہی سکھ میں آجائے۔ بچوں کے رشتے بھی ہوجائیں اور بعد میں بیٹی اپنے گھر اور بہو آپکے پاس ہنسی خوشی رہے۔ آپ داماد کی ساس ہیں یا بہو کی ساس بس اپنی حد میں رہنا ہے۔ اور مردوں نے عورتوں کو انکی حد پار نہیں کرنے دینی۔ ان شاءاللہ ستے ہی خیراں ہو جان دیاں۔