Rent A Car
رینٹ اے کار

یہ دو سال پرانی بات ہے۔ مجھے میرے ایک فیس بک فرینڈ نے ملائشیا سے کال کی۔ ان کا تعلق حافظ آباد سے تھا۔ وہ کالج میں میرے سینئیر رہ چکے تھے۔ انہوں نے ایک ماہ پاکستان رہنا تھا۔ مجھے کہا کہ بغیر ڈرائیور کے ایک گاڑی انکے لیے ارینج کر دوں۔ وہ اس کا رینٹ ادا کر دیں گے۔ حافظ آباد، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، لاہور سے ریٹس لیے۔ وہ بہت زیادہ تھے۔ انکی ڈیمانڈ ایک چھوٹی گاڑی تھی۔ بہرحال ریٹس پر کمپرومائز کیا اور گاڑی دیکھنے گیا۔ تو بہت بری حالت۔ میں نے ان سے کہا آپ نے جب بھی کہیں جانا ہو میری گاڑی لے جا سکتے ہیں۔
خیر ابھی چند ماہ قبل میں خود جب عمان سے پاکستان گیا۔ تو مجھے بھی ایک ماہ کے لیے گاڑی چاہئیے تھی۔ چند دوستوں سے پوچھا تو وہی بات ریٹس اتنے زیادہ کہ بات سمجھ سے باہر۔ ایک سات آٹھ سال پرانی ویگنار یا چار پانچ سال پرانی آلٹو کا ریٹ ماہانہ 120 ہزار اور اگر ہنڈا سٹی یا کرولا کی بات کریں تو 150 ہزار سے اوپر۔
اس کام کا سکوپ پاکستان میں نظر آتا ہے۔
گاڑی کی سیفٹی سکیورٹی پر ورکنگ آپ نے کرنی ہے۔ کوئی گاڑی لے کر غائب ہوجائے تو پولیس آپ کا کوئی ساتھ نہیں دے گی۔ ایکسیڈنٹ کے بعد گاڑی بنوانے کے معاملات الگ سر درد ہیں۔ رینٹ پر ملی گاڑی کو جیسے پاکستانی استعمال کرتے ہیں وہ الگ مائنڈ سیٹ ہے۔ آئل چینج جنرل سروس وغیرہ کے ایس او پیز بنائے جا سکتے ہیں۔ ٹریکر کی اچھی سروس لی جا سکتی۔ گارنٹی سسٹم کو بہتر بنایا جا سکتا۔ مطلب ورکنگ کرنے والا کوئی ہو تو یہ کام کرنے کا ہے۔
ہر بزنس کی کچھ خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ لالچ میں آکر کسی کو اپنی رقم بطور انویسٹمنٹ دے کر واضح نظر آتا ہوا فراڈ کرانے سے تو بہتر ہے خود کچھ کرکے تجربہ حاصل کیا جائے۔
آپ کے پاس دو سے دس ملین ہوں۔ تو آپ یہ کام شروع کر سکتے ہیں۔ دو ملین میں آپ کو ویگنار، آلٹو نئی شیپ مل جاتی ہے چند سال استعمال شدہ۔ اس ایک گاڑی سے کام شروع کر سکتے ہیں۔
اڑھائی سے تین ملین تک ہنڈا سٹی یا کرولا 1.3.
ایک ویگنار، ایک آلٹو، ایک سٹی، ایک کرولا۔ چار گاڑیاں ایورج بجٹ میں دس ملین یعنی ایک کروڑ کی انویسٹمنٹ ہے۔
تھوڑا وقت گزرنے کے بعد ماہانہ دو سے تین لاکھ آپ انشا اللہ کما لیں گے۔
ٹارگٹ کریں وہ لوگ جو باہر کے ممالک رہتے ہیں اور جب پاکستان جاتے تو بائیکس پر خوار ہوتے ہیں۔ ایکسیڈنٹ کرواتے ہیں موسم کی سختی برداشت کرتے ہیں۔ جبکہ یہاں اچھی بھلی گاڑیاں چلا رہے ہوتے۔ لیبر ورک سے تھوڑی اوپر کی کلاس ایک دو ماہ پاکستان رہتی یا چند دن۔ وہ آپ کے پوٹینشل کسٹمر ہو سکتے ہیں۔ افورڈ بھی کر سکتے اور طبقہ بھی سلجھا ہوا ہوتا ہے۔
مارکیٹنگ کریں۔ لنکس بنائیں۔ متوقع کسٹمرز کو ٹارگٹ کریں۔ ریٹس کو کم کریں۔ بیس لاکھ کی گاڑی کا ساٹھ ستر ہزار تک ماہانہ رینٹ بہت مناسب ہے۔ موازنہ کریں پاکستان میں بیس لاکھ کی دکان یا مکان آپ کو ماہانہ کیا دیتا ہے؟
وہیں تیس لاکھ والی سیڈان گاڑی کو ماہانہ نوے ہزار سے ایک لاکھ روپے رینٹ تک دیں۔
ایک دن، دو چار دن، ہفتہ دس پندرہ دن کا پیکج بنائیں۔ وہ اکنامیکل ہو۔ ڈرائیور کے ساتھ یہاں ریٹ کم ملتا اور ڈرائیور کے بغیر زیادہ۔ یہ کیا سائنس کے بھائی؟
تمام عرب ممالک میں یہ بہت اچھا بزنس ہے۔ عمان میں یہ بزنس صرف عمانیوں کے لیے مختص ہے۔ غیر قانونی طور پر یہاں بہت سی گاڑیاں رینٹ پر استعمال ہو رہی ہیں۔ مگر وہ ایک سر درد ہے۔ کچھ گڑ بڑ ہو جائے تو آپ کو کہیں سے کوئی قانونی مدد نہیں ملے گی کہ آپ نے کام ہی غیر قانونی کیا۔ یہاں جو کمپنیاں اس کام کو قانونی طریقے سے کر رہی ہیں۔ ان سے بزنس ماڈل سمجھا جا سکتا ہے۔ اسے اپنے ملک کے مطابق ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
شروع میں قابل اعتماد اور اپنے شہر کے افراد تک یہ سروس محدود رکھی جا سکتی ہے۔ جب کام سمجھ آجائے تو دیگر شہروں میں بھی گاڑی دینا سمجھ آئے تو بھیج دی جائے۔
وہ عدم تحفظ اپنی جگہ ہمیشہ موجود رہے گا۔ کہ ٹیکسی ڈرائیور سے بھی گاڑی چھین کر ڈاکو فرار ہوجاتے ہیں اور گاڑیاں کبھی واپس نہیں ملتیں۔ سو میں چند ایک گاڑیاں ہی ہمارا سسٹم ریکور کر سکتا ہے۔ وہ بھی انکی جنکے پاس ڈنڈا ہو۔ شاید یہی وہ وجہ ہے یہ بزنس پچیس کروڑ انسانوں کی مارکیٹ میں کوئی خاص جگہ نہیں بنا سکا۔

