Rabte Mein Rahein, Magar Kitna?
رابطے میں رہیں، مگر کتنا؟

کپلز Couples کی بات کر رہا ہوں۔ ہمیں اپنے پارٹنر سے کب اور کتنی بات کرنی چاہئے؟ کیا ہر روز لازمی بات کرنی چاہئیے؟ اس میں چیٹ اور کالز کا دورانیہ اور تعداد کیا ہو۔ کس وقت بات کریں۔ روز کونسی باتیں کریں؟ وائس نوٹس میں بات ہو یوں لکھ کر چیٹ کریں۔ طے شدہ وقت پر صبح دوپہر شام کی دوا ٹائپ کال یا رابطہ ضروری بھی ہے یا بس دیکھا دیکھی ہم نے بھی اسے اپنا لیا؟ اس سے ملتے جلتے اور بھی بے شمار سوال ہونگے۔ آئیے اس موضوع پر تھوڑی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہر روز کال کرنا کیوں ضروری ہے؟ گفتگو کا ایک کنیکشن بحال رہتا ہے۔ ایموشنل اٹیچ منٹ بنی رہتی ہے۔ مخالف فریق کو اسپیشل فیل ہوتا ہے کہ جیسی بھی مصروفیت تھی میرا ٹائم مجھے ملا ہے۔ میں اسکے لیے خاص ہوں۔
کیا پارٹنر کو تھوڑی سپیس دینا اچھا/بہتر فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے؟ ہر روز کی فکس اور لمبی کالز خوشی کی بجائے ایک فریضہ یا ڈیوٹی لگنے لگتی ہیں۔ کہ بس ادا کرنا ہے، دل کر رہا ہو یا نہیں، کوئی خوشی سکون اس سے ملے یا نہیں۔
اور کوئی نئی تازی؟ ہور سناؤ پر کال آگے کتنی دیر تک جاری رکھنے چاہئیے؟ اور یہاں تک جاتے کتنے منٹ کی کال ہوتی ہے؟ یہ باہمی تعلقات کی نوعیت اور ہر تعلق میں مختلف ہوگا۔ مگر مجبوراً کسی کال یا چیٹ کو لمبا کھینچنا درست نہیں۔ آپ مخالف فریق کو بتا دیں کہ آپ اتنی لمبی اور بورنگ کال یا چیٹ سے کمفرٹیبل نہیں ہیں۔ ایسا ہر روز نہیں ہوگا مگر جب رابطے بہت زیادہ بڑھے ہوں تو ممکن ہے ایسا ایک طرف ضرور ہوگا۔
اور اچھے و مضبوط تعلقات کا انحصار ریگولر رابطوں کی بجائے اعتماد، اخلاص اور کئیر پر زیادہ ہے۔ نسبتاً اس کے، کہ ہر روز گھنٹوں بات ہو۔
دونوں فریقین کو اپنی ذات پر بھی فوکس کرنا چاہئیے، اپنے خوابوں کا تعاقب، اپنے ذہنی سکون کی مشق، اپنے دیگر تفریحی مشاغل، نہ کہ ایک انسان جینا مرنا سونا جاگنا ہسنا رونا اور کھانے پینے تک کی وجہ بن جائے۔ یہ ابنارمل ہے۔ بے حد ابنارمل۔
درمیانی راہ جو سوٹ ایبل ہو اور دونوں کے لیے قابل قبول بھی؟ رابطوں کی مقدار سے زیادہ معیار پر توجہ دی جائے۔ معیاری اور خوشگواد گفتگو ہو نا کہ بس ہوں ہاں جی اور سنائیں کیا کھایا، کیا پیا، کب سوئی کب جاگی اور کوئی نئی تازی اور پھر وہی روز کی روٹین۔
کچھ جوڑے ٹیکسٹ میسجز کے چھوٹے چھوٹے چیک انز سے خوش ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شام کو ایک میسج "کیسا تھا آج کا دن" یا دن میں کسی وقت یہ بتانا کہ آپ "مخالف پارٹی" کو یاد کر رہے ہیں اور وہ دل سے ہو۔ لمبی کال کو اکثر ویک اینڈز پر یا ہفتے میں دو یا تین بار کیا جاتا ہے۔ وہ کال ایک بامعنی کوالٹی کال ہوتی ہے یعنی تیس منٹ سے ایک گھنٹے تک کی۔
اب ایک سوال آئے گا کہ کال بھی اور گفتگو بھی معیاری ہونی چاہئیے؟ وہ بھی اپنی بندی کے ساتھ؟ اپنی گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے ساتھ یا اپنی بیوی / خاوند منگیتر وغیرہ کے ساتھ؟ جواب ہے ہاں۔ اس کا جواب آپ پاس نہیں بھی ہو سکتا ہے۔ کہ آج کل بس چوبیس گھنٹے رابطے میں رہنے کی رسم عام ہے۔ بلکہ فرض کا درجہ ہو چکا۔ جو اسکا منکر ہوا یا اس پریکٹس پر جائز سوال اٹھانے لگا "دائرہِ محبت" سے شاید خارج ہوجائے۔
آپ کو اپنے پارٹنر سے کھل کر بات کرنی چاہئیے کہ موجودہ رابطے کے اسٹائل سے وہ خوش ہے؟ اسکے لیے ایڈجسٹ کرنا ایزی ہے؟ ایک زیادہ رابطہ چاہے گا تو ممکن ہے دوسرا زیادہ رابطے میں نہ رہنا پسند کرے۔ مگر سبھی لوگ روز گھنٹوں مختلف Means سے بات کرتے ہیں۔ یہی رواج ہے تو ہم بھی یہی کریں گے۔ کیوں نہ باہمی بات چیت سے ایک ایڈجسٹمنٹ بنا لی جائے؟ جو دونوں کو دل سے قبول ہو؟ تھوڑا تھوڑا ہی ایڈجسٹ کرنا پڑے گا دونوں کو۔
خلاصہ یہ ہے کہ محبت چاہت یا لگاؤ کا ہر گز پیمانہ یہ نہیں کہ آپ کسی سے ہر روز کتنی دیر بات کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ آپ کی بات چیت کتنی پر خلوص، گرمجوشی سے بھری ہوئی اور باہمی احترام اور سپیس پر مبنی ہے۔
ہفتے میں دو تین بار لمبی کال جس میں ہنسی مذاق ہو، فیوچر پلانز ہوں، جذبات ہوں اور کچھ بھی اور جو آپ شامل کرنا چاہیں۔ یہ زیادہ مناسب نہیں کہ روزانہ کی Forced کال کی بجائے ہر روز ٹیکسٹ میسج یا وائس نوٹس پر حال احوال دریافت کر لیں۔
ایسے میسجز کی اوپننگ اور کلوزنگ بھی ہو۔ جیسا کہ اوکے اب کل بات ہوتی ہے۔ یا شام کو میسج کرتا ہوں۔
ایسا نہ ہو کہ اب آگے کیا میسج آئے گا۔ ایک دو میسجز کے رپلائی اور بس فون چھوڑ کر کام کاج کو دیکھو۔
نہ کہ انتظار کی سولی پر ہر وقت لٹکے رہو کب کوئی میسج آئے یا کال آئے۔ نہیں تو انتظار کی گرم بھٹی میں جلتے بھنتے رہو۔
اس موضوع پر اپنے رائے بھی ضرور دیجیے گا۔

