Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Pehchan

Pehchan

پہچان

سنا ہے کوئی خدا بھی ہے اور اُسکی اِس دنیا میں ایک پرچھائی ماں نامی کوئی رشتہ ہے۔ سنا ہے وہ خدا اپنے بندے سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ سوچتا ہوں جیسی محبت میری ماں مجھ سے کرتی ہے۔ کیا اس کا خدا بھی اُس جیسی ہی محبت میرے ساتھ کرتا ہے؟ میں اُس ماں کی اولاد ہوں جسے وہ حقیقت معلوم ہونے پر ہر روز اس دنیا میں نہ لانے کا سوچتی تھی۔ وہ میرے باپ کے ساتھ مشورہ کرکے مجھے اپنی کوکھ سے ہی ختم کر دینا چاہتی تھی اور میری دادی بھی ایسا چاہتی تھی۔ میں سب کی سن رہا تھا۔

اور پھر مجھے ختم کرنے کے لیے اس نے ایسی زہر کھائی جو اسے تو محفوظ رکھے اور مجھے ختم کر دے اور میرا وجود اس زہر نے چھلنی کیا۔ میں سانس لیتا دھڑکتے دل والا ایک زندہ گوشت کا ٹکڑا تھا۔ جو انسان کی شکل و صورت میں ڈھل رہا تھا۔ میں شاید اس سے پہلے اتنا بدصورت نہیں تھا جتنا آدھا پونا ضائع ہوکر بن گیا۔ جو بچا وہ دیکھنے کے قابل نہیں رہا۔ میرا چہرہ ہی تو بدصورت تھا۔ باقی جسم تو ٹھیک تھا۔ ہاں میں بہت چھوٹا تھا۔ جیسے بلی کا بلونگا۔ سب سے پہلی کراہت اور ابکائی کی کیفیت مجھے دیکھ کر محسوس کی گئی وہ میری ماں نے کی تھی۔

پھر باقی رشتے آئے، رشتہ دار آئے اور جس نے مجھے دیکھا توبہ استغفار کی۔ کانوں کو ہاتھ لگایا اور چھوٹے بچے مجھے دیکھنے سے ڈرتے تھے۔ انکی مائیں انکی آنکھوں پر کپڑا ڈال لیتی تھیں کہ وہ رات کو شاید سو نہ سکیں۔ اگر انہوں نے میری شکل دیکھ لی۔ میں ایک ڈرکولا تھا ایک ویمپائر تھا ایک بھوت تھا ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ ہر روز میرے مر جانے کی دعا کی گئی۔ خواہش کیا دعا نہیں ہوتی؟ آزمائش کہا گیا مجھے اور کبھی کسی کے جرم کی سزا۔ جرم کوئی کرے گناہ کوئی کرے اور وجود میرا ایسا بنا دے، بنانے والا۔ یہ کیسا انصاف ہے؟

برہمن سماج میں دلت اور اچھوت کی بھلا کوئی جگہ ہو سکتی ہے؟ ہم پلید ہیں ناپاک اور Untouchable.

لوگ ہماری بدصورتی، غلاظت اورحقارت آمیز سلوک کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اونچی مسندوں پر بیٹھے وہ لوگ جو ہمارے خیر خواہ بنتے ہیں۔ انہوں نے تو ہمیں دیکھا ہے۔ ہم نے تو نظروں اور رویوں کو جھیلتے ہوئے لمحے بھی سالوں کی مانند گزارے ہیں۔ ایک جسم فروش عورت کے ذلیل ہونے کو بیان کرنا اور اپنا جسم بازار میں کھڑے ہوکر خود بیچنا یکسر مختلف تجربے ہیں۔ جو درد سہتا ہے اسکے سوا کوئی دوسرا اس درد کا بیان کر ہی نہیں سکتا۔

میں کڑوی کسیلی دوا پر چینی چڑھانے کو نامردی اور منافقت سمجھتا ہوں۔ مکروہ اور گندی حقیقت کو گندا ہی کرکے پیش کیا جائے کہ اس سے کراہت آنے لگے۔ یا تو اسے مٹانے کاخیال آئے یا اپنا لینے کا۔ درمیانی راہ کوئی نہ ہو۔ وہ منافقت کی راہ ہے اور یہ ڈفرینٹلی ایبلڈ، سپیشلی ایبلڈ، پیپل آف ڈٹرمینیشن، یہ سب کس کے کہنے پر ہمیں کہتے ہو؟ یہ تو وہی بات ہوئی اچھوت کو ہریجن کہا جائے گا، جولاہے کو انصاری، کمہار کو سیٹھ اور مصلی کو مسلم شیخ۔ پیچھے کیا ہے کون ہے؟ کبھی اسے بھی ان الفاظ کے مطابق عزت دی ہے؟ دل سے محترم اور باعزت قبول کیا ہے؟ جاؤ دفعہ ہو جاؤ اپنے ان منافقت بھرے الفاظ کو لے کر۔ ہم جو ہیں ہمیں وہی کہو۔ جوسمجھتے ہو وہ کہتے کیوں نہیں؟

اور یہ سلوک جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ پہلے ہماری ماں کرتی ہے۔ ماں جائے کرتے ہیں اور وہ خدا سب دیکھتے ہوئے ایسا ہونے دیتا ہے۔ یہ کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسکی ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ایک لاکھ سال پہلے ہمارے آباؤ اجداد افریقین تھے۔ نہ تب کے کالے اور بدصورت اور نہ آج کے افریقن اپنی رنگت پر شرمسار تھے نہ ہیں۔

اور نہ ہی ہم اپنی ذلت، رسوائی، ملنے والی تفرق اور نفرت، بے بسی اور پسماندگی پر شرمسار ہیں۔ ہم اپنے حالات اور ملنے والے مشکلات کے جواز ڈھونڈ کرخود کو نہیں کوستے نہ کسی معجزے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے اپنی شکل پر اپنی پہچان پر اپنے وجود پر اور اپنی سوچ پر۔ ہم جدوجہد اور لڑنے کے قائل ہیں اور آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ آخری سانس تک لڑیں گے۔ اپنی پہچان کو چھپا کر نہیں، اپنا کر اور اسے کھلے عام ظاہر کرکے۔

اچھوت ادب سے جے- وی - پوار ایک نظم سناتا ہوں۔ جو میرے دل کی آواز ہے۔

" میں طوفان کی اٹھتی ہوئی لہر بن گیا ہوں"

جس طرح ساحل کی ریت پانی کو جذب کر لیتی ہے

اسی طرح میرا گہرا دکھ

یہ کب تک ریت کی طرح بنا رہے گا

کب تک یہ چلاتا رہے گا اس لئے کہ جینے کی خواہش اسے نہیں چھوڑتی

اصل تو اسے تو سمندر کی اٹھتی ہوئی موج کی طرح ہونا چاہیے تھا

اُس پاس کے بونوں کو تھپیڑے لگانے سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے

سمندر کا بھی کنارہ ہوتا ہے میرے دکھوں کی کوئی حد کیوں نہیں

وہ جو ریت سے تیل نکالتے ہیں

انہیں میرے دکھ کا اندازہ کیوں نہیں

ہوا جو روز چلتی ہے

اس روز میرے کان میں چلائی

" عورتوں کو ننگا کر دیا گیا"

"گاؤں میں ہڑتال ہے"

"مرد مارے گئے"

یوں چلتے ہوئے ہوا نے مجھے ایک منتر بتایا

ایک اور "مہد" بناؤ

اب میرے ہاتھ دیوار پر لٹکے ہوئے ہتھیاروں کی طرف بڑھنے لگے ہیں

میں سمندر ہوں، میں چڑھتا ہوں، میں بپھرتا ہوں

میں بڑھتا ہوں تو مقبرے بنتے ہیں

ہوائیں، طوفان، آسمان، زمین

اب سب میرے ہیں

بڑھتی ہوئی کشمکش میں انچ انچ

میں جَم کر کھڑا ہوں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan