Musbat Badlao Araha Hai
مثبت بدلاؤ آرہا ہے

چند دن قبل ایک قریبی دوست کے گھر جانا ہوا۔ انکی پہلی اولاد بیٹا جو ابھی ایک سال کا ہونے والا ہے۔ کسی جینیاتی مرض کا شکار ہے۔ اس کے جسم میں ہڈیاں نہ ہونے کے برابر یعنی نرم و نازک سی ہیں۔ جسم روئی کی مانند ہے تو بچہ حرکت نہیں کر پاتا۔ جن جن ڈاکٹروں سے ملے یا اب تک جو ٹیسٹ ہوئے انکے مطابق، osteomalacia، osteogenesis imperfecta، Fibrous Dysplasia، Osteopetrosis کے امکانات موجود ہیں۔ مگر حتمی کچھ بھی ابھی تک تشخیص نہیں ہو سکا۔ میرا دوست تو اس صدمے سے شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہے اور بہت پریشان رہتا ہے۔ جبکہ اسکی اہلیہ ایک مضبوط اعصاب کی مالک خوش مزاج لڑکی ہے۔ اس کو یہ طعنے بھی سننے کو ملتے ہیں کہ معذور بچہ پیدا کیا اور اسے کوئی افسوس ہی نہیں کیسی نئے کپڑے پہن کر بنی سنوری رہتی ہے۔
وہ لڑکی جینڈر سٹڈیز کی فیلڈ سے گریجویٹ ہے اور جینیاتی امراض کو نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ شاید دل میں اپنے لخت جگر کے فیوچر کو قبول بھی کر چکی ہے۔ ورنہ سینکڑوں ماؤں سے ملا ہوں باپ تسلی دے رہے ہوتے انہوں نے سوچ سوچ اور رو رو کے اپنے آپ کو بیماریاں لگا لی ہوتی ہیں۔ اپنی امی جیسا حلیہ بنایا ہوتا ہے۔ ان کو بتایا کہ کراچی جا کر آپ دونوں اور بچہ بھی یا یہاں ہی آغا خان ہسپتال کی کسی لیب سے جنیٹک ٹیسٹنگ کروائیں کہ خدا نخواستہ دوسرا بچہ اس مرض سے متاثرہ نہ پیدا ہو۔
اس سب کے ساتھ مجھے آپ کو کچھ اور بتانا ہے۔ جب میرے دوست کی شادی ہوئی تو خاندانی زمین اور بازار کی دکانوں کا بٹوارا ہوگیا۔ بازار میں دو دکانیں میرے دوست کے حصے میں آئیں جنکی مالیت کوئی پچاس لاکھ کے قریب تھی۔ بچہ پیدا ہونے پر گھر میں ماتم کی صف بچھ گئی۔ رونا پیٹنا اور بھاگ دوڑ کہ بیٹا تو ہے مگر ہے معذور۔ دم درود، علاج، ٹیسٹ اور جو کچھ ہوتا ہے۔ میرے دوست نے جاب چھوڑ دی اور گھر بیٹھ گیا۔ دوکانوں کا ماہانہ دس ہزار کرایہ آتا تھا۔ زمیندار گھرانہ ہے تو چاول، گندم دودھ وغیرہ کا مسئلہ نہیں۔ جائنٹ فیملی تھی۔ تو سب کچھ چل رہا تھا۔ جب دوکانیں اس کے نام پر ٹرانسفر ہوئیں تو میاں بیوی نے مشورہ کرکے بغیر کسی سے پوچھے اور بتائے وہ دکانیں انہیں دکانداروں کو باون لاکھ کی فروخت کر دیں۔ گھر میں کسی کو کچھ پتا نہیں اور جن کو بیچی ان کو بھی کہا کہ بات باہر نکلی تو جو ہوا وہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کیوں بات باہر نکالنی تھی۔
وہ آپی شادی سے قبل جہاں کسی این جی او میں جاب کرتی تھیں۔ وہاں انکے ہوتے ہی فیلڈ ورک کے لیے ایک سیون سیٹر گاڑی درکار تھی۔ جس کا بجٹ نہیں تھا۔ تب ہی مشورہ ہوگیا تھا رینٹ پر گاڑی لے لی جائے اور اب ان لوگوں نے چونتیس لاکھ روپے کی کوئی چائنہ کی گاڑی لے کر ستر ہزار ماہوار رینٹ پر وہاں لگا دی۔ باقی پیسوں سے گھر آٹھ کلو واٹ کا ہائبرڈ سولر سسٹم اور گرین میٹر وغیرہ لگوا لیا۔ جس نے پورے گھر کا بل زیرو کر دیا۔ باقی دو بھائی اپنی دو دو دکانوں کا دس دس ہزار کرایہ وصول کر رہے تھے کہ سڑکیں بازار کھلے کرنے کے حکومتی احکامات آگئے اور بیس فٹ میں سے نو فٹ تجاوزات میں چلے گئے۔ پیچھے دکان بچی دس بائے گیارہ فٹ کی۔ یہ تو بیچ چکے تھے جو تھا اب ان کی قسمت جو ابھی مالک تھے اور ان کو ایک سال سے ستر ہزار ماہوار بھی باقاعدگی سے مل رہا تھا۔ جس سے روز مرہ کے اخراجات پورے ہوجاتے تھے۔
دکانیں بیچنے کا مشورہ سو فیصد میرے دوست کی بیوی کا تھا۔ وہ اسکے لیے اپنی بیوی کا شکر گزار بھی تھا کہ وہ فیصلہ بہت اچھا ثابت ہوا اور یہ ایک مثال بھی بنا روایتی خاندانوں میں بہو کے لیے کہ جو بھی کرتے ہیں وہ گھر کے مرد یا ابا جی (سسر) ہی کرتے ہیں۔ شادی شدہ بال بچوں والے بیٹے بھی ابا جی کے سامنے چوں چراں نہیں کر سکتے اور تھوڑی بہت زمین یا ایسی کوئی پراپرٹی جسے رکھنا اب اس دور میں نرا نقصان ہے۔ اسے سنبھال سنبھال کر لوگ اپنا پیٹ کاٹ رہے ہوتے اور جہاں کہاں بیچ بھی دی جاتی تو ان پیسوں کو اکثر اڑا بھی دیا جاتا ہے۔ یہ بھی تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ جس سے انکار نہیں۔ بہرحال مجھے اس فیملی سے ملکر بہت کچھ سیکھنے کو ملا کہ اب روایتی گھرانوں میں بھی مثبت بدلاؤ آرہے ہیں۔ پڑھی لکھی لڑکیاں اگر ملازمت نہ بھی کر سکیں تو وہ اپنی فہم و فراست اور اپنے سوشل لنکس سے اپنے خاوند یا بچوں کے لیے کوئی آسانی پیدا کر سکتی ہیں۔ جیسا اس کہانی میں ہوا۔ کوئی ایسا فیصلہ لے سکتی ہیں جو ایک سادہ لوح لڑکی شاید آسانی سے نہ لے سکے۔

