Muft Ka Mashwara Hargiz Na Dein
مفت کا مشورہ ہرگز نہ دیں

میں بھی ویسا ہی بن چکا تھا۔ جیسی میرے آس پاس اکثریت تھی۔ ایک ٹرننگ پوائنٹ آیا جس نے سوچنے اور چیزوں کو دیکھنے کی سمت کو بدلا۔ اسکے بعد جو ایک خاص کام ہوا وہ بولنے میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی۔ ورنہ میں کہیں بھی چپ ہی نہیں کیا کرتا تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک دوست کی شادی کو دس سال ہو چکے تھے اور اس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی۔ وہ خود بھی ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ تم کوئی بچہ اڈاپٹ کوئی نہیں کر لیتے؟ اس نے پہلے تو بات بدل دی۔ میں نے پھر اس بات پر زور دیا کہ ضروری نہیں ہمارے بائیولوجیکل بچے ہی ہماری اولاد ہوں۔ اس نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے یار۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو ایک راز بتاتا ہوں کہ میں بھی یہاں لے پالک ہوں اور کیونکہ میری ماں میری خالہ ہے تو اس نے ماں سے بڑھ کر محبت دی۔ ابا جی نے مجھے کبھی اپنی اولاد دل سے تقسیم نہیں کیا۔
میری کوئی خواہش ایسی نہیں جو پوری نہ کی ہو۔ مگر وہ جذباتی حدت جو ایک باپ اپنی اولاد کے لیے رکھتا ہے۔ وہ یہاں نہیں تھی۔ ان کو یہ بھی بے یقینی تھی کہ میں جوان ہوکر اپنے ماں باپ کی طرف نہ لوٹ جاؤں۔ میری خوبیوں کو تو اون کیا گیا مگر خامیوں کو میرے بائیولوجیکل ماں باپ سے منسوب کیا گیا۔ ایک حد رکھی گئی مجھے اپنے قریب کرنے کی جس کی پابندی کرنی میرے لیے ضروری تھی۔ بتائی نہیں گئی وہ حد بس کھینچ دی گئی وہ سرحد۔ جو مجھے اچھی طرح سمجھا دی گئی بغیر بتائے۔
اب میں چاہتا ہوں میری اولاد ہو یا ہم کوئی بچہ گود لے لیں۔ مگر میری بیوی ایسا نہیں چاہتی۔ وہی کہانی رپیٹ ہوگی جو میرے ساتھ ہوئی۔ بس جنس بدلے گی پہلے باپ نے قبول نہیں کیا اور اب ماں پرائی رہے گی۔ تو جس درد کے ساتھ خود بڑا ہوا ایک اور بچے کو اس تکلیف سے کیوں گزاروں؟
اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مجھے اس لیے گود لیا گیا تھا کہ ہماری نسل بڑھے۔ ہمارا کوئی نام لیوا ہو اور اب میرے اوپر آکر پھر نسل رک گئی ہے۔ میں تو پہلے ہی پرایا ہوں۔ ایک اور اجنبی بچہ اس خاندان کا کیسے فرد بن سکے گا جسکے باپ کو ہی وہ مقام نہیں ملا جو والدین سے اولاد کو ملتا ہے۔ تو اسکے لیے دو درد ہونگے۔ ماں باپ بھی پرائے اور دادا دادی بھی پرائے۔ تو یار یہ کام نہیں کر سکتا۔
وہ دن اور آج کا دن۔ کچھ بھی ہوجائے۔ کسی کو کوئی مشورہ نہیں دیا کہ آپ فلاں جگہ سے دوائی لیں بچے کی، آپ کی شادی نہیں ہورہی کیوں دیر کر رہے ہیں، کوئی بچہ گود لے لیں، طلاق کی وجہ کیا تھی، دوسری شادی کیوں نہیں کر رہے آپ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب انتہائی ذاتی قسم کے سوال ہیں اور ہمیں ان باتوں سے مکمل گریز کرنا چاہئیے۔ کہ جس کو ہم فٹ سے مشورہ دے دیتے ہیں۔ اسکی اپنی ایک کہانی ہے۔ اسکی اولاد نہیں ہے تو اسے بھی معلوم ہے کیا کرنا ہے، شادی نہیں ہو رہی تو ہر کوئی کوشش کر رہا ہوتا ہے، دوسری شادی اتنی آسان نہیں ہوتی جتنی آسانی سے مشورہ دے دیا جاتا ہے۔
میں تو اب دوسری باتیں کرتا ہوں۔ بلکہ زیادہ سنتا ہوں۔ ایسی کوئی پرسنل بات نہ کہتا ہوں نہ سنتا ہوں اور نہ ہی ایسا کہنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ ہاں کوئی خود سے بات کرے تو جو علم اور تجربہ ہے اسکے مطابق اخلاص سے جو مشورہ ذہن میں آئے وہ دے دینا چاہئیے اور ہمیں ذاتی زندگی میں دخل دے کر کسی کے درد میں فضول مشورے دے کر ہر گز اضافہ نہیں کرنا چاہئیے۔ کئی لوگ ساری عمر میاں فصیحت بنے رہتے ہیں اور یہ سیکھ ہی نہیں پاتے کہ ہر جگہ ہمارے مشورے اور نصیحتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت سی جگہوں پر منہ بند رکھنا ہوتا ہے اور بات کرنی نہیں بس دوسرے فریق کی سننی ہوتی ہے۔

