Mohsin Ki Kahani Aur 3 December
محسن کی کہانی اور 3 دسمبر

میری ماہانہ تنخواہ ساٹھ ہزار تھی جس میں سے بیس ہزار گرل فرینڈ کو پاکٹ منی دیتا تھا۔ اسکے روم کا رینٹ الگ سے پے کرتا، سمسٹر فیس الگ، نوٹس کاپی الگ اور سردی گرمی کی شاپنگ الگ۔ اپنے پاس سگریٹ اور دال روٹی کے پیسے ہی بچتے تھے۔ رہائش سرکاری تھی پانی بجلی فری تھا تو بس اس آس پر زندہ تھا شادی ہوگی بچے ہونگے گھر بس جائے گا۔ شادی بھی ایک ایسی لڑکی سے جو دیکھ سکتی ہے۔ Sighted ہے۔ ہماری کمیونٹی میں یہ بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی ہے کہ نابینا کی بیوی دیکھ سکتی ہے وہ نابینا نہیں۔
میرا نام محسن ہے۔ میں ماں کی کوکھ سے نابینا پیدا ہوا۔ خیر اوپر شروع ہوئی بات پہلے مکمل کرتے ہیں۔ تین دسمبر ہماری سپیشل افراد کی برادری میں ہمارے حقوق کی آگہی کے متعلق منایا جاتا ہے۔ مگر میری بندی نے مجھے بتایا کہ دفعہ کرو تم ورلڈ ڈس ایبیلٹی ڈے کو یہ ورلڈ سویٹر ڈے ہے۔ اس دن لوگ اپنے پیاروں کو ایک سویٹر گفٹ کرتے ہیں۔ چلو مجھے ایک پیارا سا سویٹر لے کر دو۔ چھوڑو یہ فضول سیمنار اور واک شاک کو جو ہر سال ہوتی ہے۔ نہ نفع نہ نقصان بس شغل میلہ لگا کر سب سال بھر کے لیے سو جاتے ہیں۔
تین سال ہم ریلیشن شپ میں رہے۔ اب اسکے بی ایس کا لاسٹ سمسٹر تھا۔ ایک دن مجھے کال آئی۔ کوئی مجھے ملنا چاہتا تھا۔ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا جہاں اپنی شادی کی سیٹنگ کرکے بیٹھا ہوں۔ وہ بھائی صاحب بھی وہ سارے خرچ ریگولر ادا کر رہے تھے جو میں کر رہا تھا اور انہوں نے اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ نکلوا رکھی تھی ہمارے علاوہ ایک تیسرا بھائی بھی ہر کیٹگری میں حسین دلربا اس بیوفا کے اخراجات اٹھا رہا تھا۔
میں تو چلو نابینا تھا۔ دھوکہ کھا گیا۔ میرا سمجھ آتا ہے مت ماری گئی۔ اس بھائی کا دکھ بہت گہرا تھا کہ تین سال تین لڑکوں سے سارے خرچے لینے والی حسینہ آخر بیوی کس کی بنے گی۔ وہ مجھے کہنے آیا تھا کہ وہ اس سے سچا پیار کرتا ہے۔ میں پلیز پیچھے ہٹ جاؤں اور یہ بھی کہ وہ ایک نابینا سے بھلا کیوں شادی کرے گی اور مجھے یہ سوچ کر مروڑ پڑ رہے تھے کہ سالی نے گیم کیسی ڈالی ہے اور سالہا سال کانوں کان خبر نہ ہوئی اور ہم سب لٹتے رہے۔ جس کے نصیب میں جو تھا وہ خیر ملتا بھی رہا سب کو۔ خیر تھوڑا سا دکھ منا کر اسی وقت بلاک کر دیا۔ دوسرے اور تیسرے عاشق بھائی کا نہیں پتا انکے ساتھ کیا بنا۔
یہ پہلی بار نہیں تھی میرے ساتھ دھوکا ہوا۔ سکول کالج یونیورسٹی گیا بیس سال تک مسلسل دھوکا ملتا رہا۔ مسجد جاتا رہا وہاں سے ملا ہوا دھوکا الگ ہی لیول کا تھا۔ سوچتا ہوں سب سے زیادہ ظلم ہماری نسلوں پر اس استاد اور مولوی صاحب نے کیا ہے جو ان دو شعبوں کو ذریعہ روزگار سمجھ کر جائن کرتے ہیں۔ نہ بھوکے مرتے ہیں نہ رج کے کھانا کھا پاتے ہیں اور نئی نسل کو انسپائر کرنا موٹی ویٹ کرنا، اسلامی تعلیمات اور دنیاوی جدید علوم سے بہرہ ور کرنا تو دور اپنے جیسا ناکام ترین انسان بنا دیتے ہیں۔
سکول کا کام زندگی میں نظم و ضبط لانا ہے۔ ایک روٹین اور قوانین کی پابندی کا احساس پیدا کرنا ہے، مل جل کر رہنا سکھانا ہے، آگے بڑھنے کا راستہ دکھانا ہے اور کالج کا کام تو جوانی کے جوش کو درست سمت دکھانا ہوتا ہے، ایسے مضامین اور فیلڈز میں انٹرسٹ پیدا کرنا ہوتا ہے جو ہمارا پوٹینشل ان لاک کرنے میں ہماری مدد کریں۔ یہ ذمہ داری ہوتی ہے اساتذہ اکرام کی۔ وہ بیچارے صبح شام اکیڈمیوں میں خوار ہو کر اپنے بچوں کے رزق کا انتظام کریں۔ یا آؤٹ آف دا باکس سوچنے کے لیے ایک کلاس کے سو سو بچے پر انفرادی محنت کریں؟ ان کو سمجھیں اور آنے والی زندگی کے لیے تیار کریں؟ جو اکیڈمی نہیں جاتے وہ بھی کہیں نہ کہیں سیلری کے علاوہ کچھ کمانے کی تگ و دو میں نظر آیے۔ صرف ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن والے سر ایسے تھے جو واقعی استاد تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی سے نہ کہ کتابی باتوں اور قصے کہانیوں سے ہماری سوچ بدلی۔ یہ تو پچھلی صدی کی بات ہے استاد کتابیں پڑھاتا تھا۔ اب تو سارا علم آن لائن پڑھا ہے۔ آج کے استاد کو کیا کرنا ہے شاید اسے خود ہی معلوم نہیں۔ وہ اپنے زمانے میں ہی جی رہا ہے اور زمانہ کہیں اور جا چکا۔ میں نے اپنے سکول اور کالج کے چالیس اساتذہ سے ایک سوال کیا۔ کہ آپ نے غیر نصابی کتب میں سے کون کون سی کتاب پڑھی ہے۔ صرف آٹھ لوگوں نے چند ایک کتابوں کے نام بتائے۔ ان میں بھی زیادہ تر قصے کہانیاں ناول اور سیرت نبوی کی کتب تھیں۔
یونیورسٹی اساتذہ ریسرچ آرٹیکلز کے پیچھے پاگل دیکھے۔ لیکچرر اے پی بننے کی دوڑ میں تھا اور اے پی ایسوسی ایٹ بننے کے لیے لائن میں لگا تھا۔ انہوں نے ہمیں تحقیق سکھانی تھی نیا علم پیدا کرنا سکھانا تھا۔ ہماری ڈگری کے شعبے میں ہمیں ماہر کرنا تھا۔ ہمیں ایسی مارکیٹ ایبل پراڈکٹ بنانا تھا جو تیار ہو کر ہاتھوں ہاتھ بکے اور اچھا مول ملے۔ ملا کیا ہمیں وہاں دو سال کی خاک چھان کے؟ ٹھینگا۔
سکول کے استاد، کالج کے استاد اور تو اور یونیورسٹی کے اساتذہ بھی سرکاری نوکری کے ایسے ایسے فضائل بیان کرتے سنے جیسے تبلیغی جماعت والے چار ماہ اللہ کی راہ میں لگانے کے کرتے ہیں۔ سوچا سب کہتے ہیں اور کہنے والے ہیں بھی استاد تو کر لیتے ہیں سرکاری نوکری بھی۔
کوٹہ تھا اپنا تو۔ ہوگئی سلیکشن سکیل پندرہ میں۔ ایک گرل فرینڈ کا خرچہ نہ اٹھا پائی سالی وہ نام نہاد سرکاری نوکری اور اس نے کیا دینا تھا۔ کام ایسا تھا رشوت مل نہیں سکتی تھی ورنہ ضرور لیتا۔ اپنے سے دس بیس سال سینئرز کو بھی پائی پائی کا حساب کرتے دیکھا تو لعنت بھیجی نوکری پر اور کچھ اور کرنے کا سوچا۔ نابینا بندہ ہوں کب تک رکشوں بسوں پر ذلیل ہوتا رہوں گا۔ ایک گاڑی اور ڈرائیور رکھ سکوں اس قابل بننا تھا۔ کہ جہاں جانا چاہوں جا سکوں۔ ظاہر ہے ڈرائیور والی گاڑی رکھ پاتا تو باقی معاملات بھی اسی لیول کے ہونے تھے۔
سابقہ معشوق کے ساتھ ایک فلم دیکھی تھی۔ اس نے دیکھی تھی میں نے تو بس سنی تھی۔ وہ فلم لائف میں بہت کام آئی یار۔ بیٹ مین سیریز کی فلم تھی ڈارک نائیٹ رائزز۔ بیٹ مین یعنی Christian Charles Philip Bale کو ولن ایک گہرے کنویں میں بند کر دیتا ہے اور باہر نکلنے کا مطلب موت ہوتا ہے۔ بیٹ مین کمر پر رسی باندھ کر باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے مگر ریڑھ کی ہڈی تڑوا بیٹھتا ہے۔ وہیں ایک ادھ مرا بزرگ اسے بتاتا ہے کہ بہت سال پہلے ایک لڑکی اس موت کے کنویں سے باہر نکلی تھی۔ اس نے آر یا پار کو چنا تھا۔ رسی کھول کر چھلانگ لگاؤ۔ کنویں کی منڈیر ہاتھ آگئی تو سمجھو آزادی مل گئی۔ ہاتھ چھوٹ گیا تو نیچے گر کے مر جاؤ گے۔ ایک ایسی چھلانگ ہی تمہیں آزادی دے سکتی ہے جس میں ناکامی کا مطلب یقینی موت ہو اور بیٹ مین ایسی ہی فیصلہ کن چھلانگ لگا کر باہر نکل جاتا ہے۔
اپنی زندگی بھی وہی تاریک کنواں محسوس ہوئی۔ گھر سے والدین نے، سکول سے استاد نے، مسجد سے مولوی صاحب نے ایک ہی سبق پڑھایا کہ اس قابل بن جانا کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ یعنی انکے نزدیک زندگی کاحاصل دو وقت کی روٹی کھا کر سوجانا تھا۔ میں کیونکہ اندھا تھا تو میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا تھا۔ جب کہ وہ سب تو اپنی زندگی بھی ایسی ہی گزار رہے تھے۔ نسل در نسل غربت میں رہ رہ کر اپنے آپ میں ولی اللہ اور نجانے کیا بن گئے ہوئے تھے کہ غریب جلدی جنت میں جائے گا، صحابہ کئی دن بھوکے رہتے تھے نبیوں کی غربت کے قصے بھی جلتی پر تیل چھڑک دیتے اور چند ٹکوں کے عوض اپنی ساری جوانی اور پھر نیم بڑھاپا بھی سرکار کی غلامی میں دے دینے کو وہ سب نجانے کونسا اعزاز سمجھتے تھے اور میں نے تو سرکس کا شیر بن کے دیکھ بھی لیا تھا۔ وہاں میرے پاس چڑیا گھر کے سبھی جانور تھے۔ جن کو زندہ رکھنے کے لیے چارے کے پیسے ہر ماہ مل جاتے تھے۔
یہ پورا بوسیدہ اور نیم مردہ معاشرہ، نام نہاد اسلامی روایات کا حامل سماج، مذہبی اسباق اور سرکل، سب کچھ ایک تاریک کنواں لگنے لگا۔ جس میں مجھے کسی ولن نے نہیں ڈالا ہوا میں تو اپنی مرضی سے اس میں بیٹھا ہوں۔ اس سے نکلنا ضروری تھی۔ ورنہ یہاں آس پاس سبھی شاہ دولے ایک نابینا کو کیسی سوچ دے سکتے ہیں؟ اپنی تو ویسے ہی اوپر سے لگی پڑی تھی دکھ ہوتا تھا یار لوگوں کی بجی ہوئی بینڈ دیکھ کر کہ پ یکو تم اندھے تھوڑی ہو۔ یہ کیسی زندگی جی رہے ہو۔ جس میں وہ سب کرتے ہو جو تم کرنا ہی نہیں چاہتے اور پھر ساری عمر کرتے رہتے ہو۔
مال و دولت کو تو سائیڈ پر کرو یار۔ وہ خوشی دینی کی ایک وجہ تو ہے مکمل خوشی یا کامیابی کا نام دولت عہدے شہرت کا حصول نہیں ہے۔ غربت امیری علم و جہالت، رسم ورواج بھی ثانوی چیزیں ہیں۔
ہم یونیک ہیں۔ اپنی مثال آپ۔ بنانے والے نے جب سب آٹھ ارب لوگوں کے فنگر پرنٹ الگ بنائے۔ تو اس لاک کے اندر رکھا بھی تو کچھ الگ ہی ہوگا ناں؟ جب میرا انگوٹھا آپ کے موبائل کا لاک نہیں کھول سکتا تو آپ کی زندگی میرے لیے قابل تقلید و مثال کیوں بنے گی؟ میں آپ کی فوٹو کاپی کیوں بنوں؟ جو آپ سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں وہ اور ویسا ہی کیوں سوچوں؟ یہ نکمے جو آج کل پوڈ کاسٹر بنے ہوئے ہیں۔ ایک اینٹ اٹھاؤ دس پوڈ کاسٹر نکلیں گے۔ یہ سبق پڑھانے نکلے ہیں سوسائٹی کو۔ واہ سبحان اللہ۔
کون کسی کو صرف سن کر اپنی سوچ بدل سکتا ہے؟ کتابیں پڑھنے کی بات کریں تو سمجھ آتی ہے اور کتابیں پڑھنے کا چج کسے ہے؟ کتاب شروع کی اور ختم کر ڈالی۔ بس؟
ہمیں لڑکوں کو کسی نے بتایا گورا رنگ خوبصورتی ہے، پتلا چست جسم، ابھری چھاتیاں، جسمانی خدو خال اور نشیب و فراز گھائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مرد کے پاس پیسہ ہو تو وہ ہی پہلا اور آخری معیار ہے۔ تعلق بنانے کا جائز ہو یا ناجائز۔ جائز و ناجائز کی بحث ابھی بہت لمبی ہے۔
جاب، شادی، پھر بچے، بچوں میں بیٹا، جی بیٹی بھی ہو، پھر بچے معذور نہ ہوں۔ غریب کے ہاں کوئی اندھا، گونگا بچہ ہوگیا تو اللہ کی آزمائش ہے۔ امیر کے ہاں ہوگیا تو حرام کی کمائی کی سزا ہے۔ جو سالے خود کچھ نہیں کر پاتے وہ امیروں کے متعلق یہی باتیں کرتے مر جاتے ہیں کہ اس نے کوئی دو نمبری کی ہے، لوٹ مار کی ہے، حرام کمایا ہے۔ رزق حلال ہوتا تو ہمارے جیسا ہی ہوتا یہ بھی۔ یہ لینڈ کروڑ پجارو حلال کی کمائی سے نہیں آتی نہ بنگلے بنتے ہیں۔
پورے معاشرے کی سوچ معذور ہے۔ یہاں پاکستان میں پانچ چھ فیصد یعنی سوا کروڑ تو معذور افراد ہیں۔ مگر دس بارہ کروڑ عقل و سمجھ و شعور سے معذور ہیں۔
یہ آج تین دسمبر کو ہمارے حقوق کی بات کریں گے؟ جن کے پاس سب وہ ہے جو انہیں 1947 سے آج تک ایک خاص ایجنڈے کے تحت سنایا، پڑھایا اور سمجھایا گیا۔ کہ اس قوم کو غلام ہی رکھنا ہے۔ دو وقت کی روٹی اور زندہ رہنے کو ہی یہاں لوگ غنیمت سمجھیں۔
میں اپنی چالیس سالہ زندگی میں جو سمجھ پایا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ معذوری کوئی شے ہی نہیں ہے۔ کسی کو اسکی بلند سوچ اور خداداد صلاحیت کے استعمال سے روک دینا اسے معذور کرنا ہے۔ وہ آپ ایک نابینا کو کر دیں یا آنکھوں والےکو۔ یہ بتانا کہ تمہاری زندگی کا فیصلہ ہم کریں گے تم یہ بنو اس کام کو کرو اس فیلڈ میں نہ جاؤ یہ سب ظلم اور زیادتی ہے۔ معذوروں کے ساتھ بھی اور دوسری نارمل پارٹی کے ساتھ بھی۔
نو سال لگے مجھے بچپن سے سیکھے ہوئے سارے غلط سبق بھلانے میں اور وہی غلط سبق آج بھی کروڑوں بچے سکول کالج مسجد یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔
میں جو اپنے ضلعے اور تحصیل نہیں جا سکتا تھا، بلکہ گھر سے باہر دکان تک اکیلا نہیں جا سکتا تھا۔ کہ میں اندھا تھا۔ کسی چیز کے نیچے آ سکتا تھا، کسی کھڈے نالی میں گر سکتا تھا۔ کسی کو نہیں بتایا بس سوچا کہ امریکہ جانا ہے۔ آپ کو شاید یقین نہیں آیے۔ میں امریکہ پہنچ کر پندرہ دن بعد گھر بتایا کہ خیریت سے یہاں آگیا ہوں۔ آئی ٹی میری فیلڈ تھی اسی میں مہارت حاصل کی اور سافٹ وئیر و ایپ ڈیویلپمنٹ کمپنی کو جائن کر لیا۔ میرا کام یہاں میری لاجیکل تھنکنگ سب سے بڑی مہارت بنی۔ آنکھیں تو چاہئیں ہی نہیں یہاں۔ میں Xcode اور Voice over کا استعمال کرکے iOS کے لیے کام کرتا ہوں اور کمپیوٹر ماؤس کے بغیر کی بورڈ شارٹ کٹس کے ذریعے سو فیصد استعمال کر سکتا ہوں۔ میں نے کئی ایپس کی کوڈنگ کی ہے، سافٹ وئیر بنائے اور اب اے آئی ٹولز بناتا ہوں۔
میں کوئی اور نہیں "آپ" ہی ہیں۔ آپ آخر کب تک اس معذوری کو بہانا بنا کر اس زندگی سے دور رہیں گے جو آپ کا حق ہے؟ اور آپ؟ جو معذور نہیں ہیں۔ آپ دیکھ سن بول چل پھر سمجھ سکتے ہیں۔ کیا آپ بھی معذوروں کے حقوق بات کرتے ہیں؟ اپنے حقوق تو میری جان پہچان لو، بلکہ اپنے آپ اور اپنی صلاحیت کو پہلے پہچان لو۔ وہ پی کے فلم میں تھا گاڈ کو تمہاری رکشا کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تو ہمیں بھی تمہاری ہمدردی ترس کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس ایک التجا ہے۔ کسی معذور کو کبھی نہ کہنا کہ تم یہ نہیں کر سکتے۔

