Meter Reader
میٹر ریڈر
میرے ایک دوست واپڈا سے ریٹائر میٹر ریڈر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیس سال پہلے ہم واپڈا ملازمین خود بجلی چوری کرواتے تھے۔ کرپشن اپنے عروج پر تھی۔ ہر ماہ لوگوں کے میٹر کھول کر پیچھے کرتے تھے اور اس چیز کی یونٹس کے حساب سے رشوت لیتے تھے۔ دوکانوں کے میٹر کمرشل کر دیے گئے مگر دیہاتوں میں لوگوں سے ماہانہ رشوت لےکر ان کو گھریلو بجلی ہی دوکان میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی جاتی۔
جو بندہ صرف بلب جلاتا اس سے 50 روپے جو پنکھا بھی چلاتا اس سے 100 اور جو فریج یا فریزر استعمال کرتا اس سے 200 ماہانہ رشوت لی جاتی۔ وہ کہتے ہیں میرا ایک اصول تھا، کہ جس بندے نے فریج دوکان کی بجائے گھر کے اندر رکھی ہوتی میں اس سے فریج میں بوتلیں ٹھنڈی کرنے کے پیسے بالکل نہیں لیتا تھا۔ بے شک دوسرے دوکانوں والے اس کی شکایت کرتے۔
اس سے رشوت نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ واپڈا والوں سے ڈرتا ہے اور سر عام بجلی چوری نہیں کرتا، اور مجھے اچھا لگتا تھا کہ یہ بندہ کھلے عام تو گھریلو میٹر پر فریزز نہیں چلاتا اور واپڈا کا ڈر اس کے دل میں کہیں ناں کہیں تو موجود ہے۔ ہمارے اللہ کا معاملہ بھی کچھ یوں ہی ہے۔ ہم چھپ کر گناہ کرتے رہیں۔ وہ لمبے عرصے تک نہیں پکڑتا، یعنی اس کا ایک قانون ہے وہ فوراً گرفت میں نہیں لیتا۔ جو خدا بن بیٹھے تھے ان کو بھی فوراً نہیں مار ڈالا۔
کیا نہیں مار سکتا تھا؟ مہلت اور ڈھیل دیتا جاتا ہے کہ توبہ کر لو۔ اسی حال میں مر گئے تو ہمیشہ بہت خسارے میں رہو گے اور پھر جب ہم سر عام اس کی قائم کردہ حدوں کو پامال کرنا شروع کریں۔ ظلم کرنے لگیں۔ گناہ کو پرموٹ کریں، تو وہ پکڑ لیتا ہے کہ تم اتنے طاقتور نہیں ہو خدا سے ٹکر لے سکو اور ہے کوئی جو اس کی پکڑ سے نکل سکے؟ خود کو بچا سکے؟ یا اسے کوئی چھڑا سکے؟
یقین مانیں یہ مہلت کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ ابھی یہ پوسٹ پڑھتے ہی ختم ہو سکتی ہے۔ موت یا پکڑ دونوں میں سے کوئی بھی آ سکتی ہے۔ آئیے توبہ کر لیں اور اس کے در پر سر جھکا کر اسے منا لیں۔ وہ ایک لمحے میں مان جائے گا اور ہمارے سب بگڑے کام ان شاءاللہ اپنے ایک کُن سے بنا دے گا۔