Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Mera Phone Number Kya Hai?

Mera Phone Number Kya Hai?

میرا فون نمبر کیا ہے؟

ہر پوسٹ کے کمنٹس میں اکثریت دوست میرا فون نمبر پوچھتے ہیں اور اکثر میں دیکھ کر بھی یہ کمنٹ اگنور کر دیتا ہوں۔ آنے والے کئی وٹس ایپ میسجز اور فیس بک ان باکس کے رپلائی نہیں دے پاتا۔ سب کمنٹس کے رپلائی تو دور سب کو ری ایکشن بھی دینا اب ممکن نہیں رہا۔ سینکڑوں تو کمنٹس ہوتے ہیں۔

میرے دوستو میں ایک تنہائی پسند سا بندہ ہوں۔ ایسا پہلے نہیں تھا۔ بہت زیادہ سوشل تھا۔ اب ذیادہ رابطوں میں نہیں رہتا۔ اکیلا رہتا ہوں اور کتابیں پڑھتا رہتا ہوں۔ مختلف موضوعات پر کئی کئی دن ریسرچ کرتا رہتا ہوں۔ ہر روز سپیشل بچوں اور ان کے والدین سے مل کر ان سے بات کر کے میری ذہنی صحت بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ کئی کئی دن موڈ انتہائی ڈسٹرب رہتا ہے۔

جن بچوں کو سکول میں کلاس میں پڑھاتا ہوں، پھر ان کو بھی نہیں پڑھا پاتا۔ وہ اپنی معذوریوں سے ہر روز جنگ کرتے کئی کئی کلومیٹر سے سائیکلیں چلا کر میرے پاس تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ مجھ پر میرے کوالٹی ٹائم پر پہلا حق ان کا ہے۔ ان کی وجہ سے ہی میرا کچن چلتا ہے۔ یقین مانیں ساری رات نیند ہی نہیں آتی۔ والدین اور شدید معذوریوں کے حامل سپیشل بچے اور خصوصاً جوان بچیاں کس کرب میں زندگی گزار رہی ہیں۔

ان کے حالات اور والدین کا رونا دھونا دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی دل ایسا دکھی ہوتا ہے کہ کئی دن تک کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔ والدین بس ان بچوں کو کسی طرح ٹھیک کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں اور ان کو حضرت مسیحؑ کے سوا کوئی ٹھیک نہیں کر سکتا۔ وہ دنیا میں آ جائیں تو شاید اپنے معجزے سے ان کو بلکل ٹھیک کر سکیں۔ جیسے وہ اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے۔ دائمی معذوریاں کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتیں۔

بچے کی محبت میں مارے والدین کسی معجزے کے انتظار میں ہوتے جو کبھی نہیں ہونا ہوتا۔ میں جھوٹی امیدیں اور خوش گمانیاں کسی کو نہیں دیتا۔ مگر والدین کا دل یہ بات نہیں مانتا۔ جہاں کسی کا سنتے ہیں ایک امید جاگ جاتی ہے، اور وہاں بھی جاکر وہی ہوتا ہے جو شروع سے ہورہا ہوتا ہے۔ یعنی، اس بچے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ایسا سب معذوریوں میں نہیں ہے۔ مگر جن میں ہے ان کا واقعی دنیا بھر میں کوئی علاج نہیں ہے۔

حکیم و ڈاکٹر کیا کرتے وٹامنز اور طاقت کے شربت وغیرہ دیتے رہتے ہیں۔ والدین سمجھتے بچہ ٹھیک ہورہا ہے۔ ایک آس سی بندھی رہتی ہے۔ بندھی بھی رہنی چاہیے یعنی اکثریت ابھی علاج سے ہی آگے نہیں بڑھی۔ اس بچے کو مختلف قبول کرنا ہی ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ میں ان لوگوں سے ہی رابطے میں آتا ہوں جو معذوری کو قبول کر چکے ہیں اور بچے کی بحالی پر کام کر رہے ہیں۔

مجھے جب کچھ لکھنا ہو تو کئی دن خود کو ٹائم دینا پڑتا ہے۔ بہت زیادہ رابطوں میں رہوں تو کچھ بھی نہیں لکھ سکتا۔ ایک ادیب کے لیے لکھنا عطائے خداوندی ہے جو تنہائی اور یکسوئی مانگتی ہے۔ اسی کی وجہ سے فون نمبر پبلک نہیں کرتا اور آنے والی کالز بھی مختصر ہی سن پاتا ہوں۔

امید کرتا ہوں آپ برا نہیں منائیں گے۔ ایک دن میں اب بھی ایک نئے بندے سے بات کرتا ہوں۔ سکول سے یکم جون کو شاید چھٹیاں ہو جائیں۔ تو ان شاءاللہ ایک دن میں دو یا تین نئے افراد سے بات کر سکوں گا۔ بس چند دن گزار لیجئے۔ سکول میں بچوں کے پیپر ہو رہے ہیں سکول سے آکر وہ بھی چیک کرنے ہوتے تو ٹائم ہی نہیں بچتا۔

اللہ تعالیٰ آپ کے سپیشل بچوں کو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے، اور آپ کی ہمت کو کبھی بھی کم نہ ہونے دے۔

Check Also

Kahani Kari

By Arslan Amjad