Larkiyon Ki Shadi Mein Takheer Ki Wajoohat
لڑکوں کی شادیوں میں تاخیر کی وجوہات
میری عمر بیس سال تھی میں بی اے کا طالب علم تھا۔ اور میرے ایک قریبی دوست و محسن کی عمر 50 سال تھی۔ ہم دونوں ملکر مویشیوں کا بیوپار اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔ ہم بزنس پارٹنر ہونے کے ساتھ ہم راز بھی تھے۔ انہوں نے ہی مجھے بائیک و ٹریکٹر وغیرہ چلانا سکھایا۔ ان کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔
پہلے بیٹے کا رشتہ دیکھنے اپنی اہلیہ کے ہمراہ پہلے دن ہی کہیں گئے۔ تو لڑکی کو آنکھ اٹھا کر دیکھے بنا پانچ سو روپے دے آئے اور کہہ آئے کہ ہمیں رشتہ پسند ہے۔ آنٹی کو لڑکی پسند نہ تھی انکے مطابق انکا گھر بھی اتنا اچھا نہ تھا۔ عمر بھی لڑکے سے زیادہ تھی۔ بہت احتجاج ہوا۔ مگر میرے دوست نے انکی اور اپنی سب بیٹیوں کی ایک نہ سنی اور بیٹے کی شادی وہیں کر دی۔ اللہ نے دو چاند سے پوتے دیے۔ بیٹے پر بھی آفرین ہے باپ کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا۔
دوسرے بیٹے کی باری بھی ایسا ہی ہوا۔ انکی اہلیہ نے کہا کہ آپ یہاں شادی کریں گے تو میں خود کشی کرکے جان دے دونگی۔ انہوں نے کہا دیر نہ کرو اس کام میں۔ میں کسی کی دھی کو رد نہیں کر سکتا۔ تم پہلے معلوم کرتی اب جو ہے قبول ہے۔ کسی کے گھر جا کر دھی رانی میں نقص نکالنا مجھ سے نہ ہوگا۔ میری گھر چار بیٹیاں ہیں ان کو بھی رد کیا جائے گا۔
احتجاج حد سے بڑھ گیا۔ کہ اس بار بھی لڑکے اور لڑکی کی عمر میں فرق تھا۔ اور لڑکا لڑکی سے کافی خوبصورت تھا۔ خواتین کی باتوں کو نظر انداز کرکے شادی کر دی گئی۔ اللہ نے دو بیٹے ایک بیٹی عطا کی۔ ہر کسی (گاؤں محلے کی خواتین) نے بہوؤں نے نام رکھے اور ان دونوں شادیوں کو مِس میچ قرار دیا۔ مگر دونوں لڑکے اپنے باپ کے فیصلے پر خوش ہیں اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
بیٹیوں کی شادی کی باری آئی۔ میں ان کے گھر ایسے ہی جاتا تھا جیسے اپنے گھر آتا ہوں۔ آپ میری بات پر اگر یقین کر سکیں تو کریں۔ بڑی آپی کا جس دن رشتہ ہوا میں کہیں گیا ہوا تھا۔ زندگی میں پہلی بار جو فیملی دیکھنے آئی۔ پسند کر گئی۔ باقی تو میری تینوں بہنوں کو دیکھنے جب مہمان آنے ہوتے تھے۔ میں وہیں انکے گھر ہوتا تھا۔ پانچ منٹ میں ہی مہمان کہہ دیتے تھے ہمیں بیٹی پسند ہے۔۔ اور چاروں کو ہی جو دیکھنے آئے بیاہ کر لے گئے۔ ان کی طرف سے بھی بہت نکتہ چینیاں نہ کی گئیں۔
الحمدللہ میری چاروں بہنیں اپنے گھروں میں بے حد خوش ہیں۔ سب کے پاس بیٹے بھی ہیں بیٹیاں بھی ہیں۔ میں سب نے سسرال کئی بار گیا ہوں۔ کہ انکی شادیوں میں سارا انتظام میں ہی تو سنبھال رہا ہوتا تھا۔ تو انکے سارے سسرال والے جانتے ہیں۔
میرے دوست نے اپنے دونوں بیٹوں اور چار بیٹوں کی شادی بیس سال کے اوپر نیچے عمر میں کی تھی۔ اس ایک گھر کی مثال میں سیکھنے والوں کے لیے بے شمار سبق ہیں۔ میرے دوست نے مجھے چند سبق پڑھائے تھے۔ وہ آپ سے شئیر کرتا ہوں۔
میرے بیٹے کبھی بھی اپنے یار کی بہن کو گندی نگاہ سے نہ دیکھنا۔ یہ چیز تمہیں تمہاری اپنی نظر میں نِکا کر دے گی۔ اسے وہی عزت و احترام دینا جو اپنی بہن کو دیتے ہو۔ غیرت مندوں میں شمار کئیے جاؤ گے۔ پرے پنچائت کے بندے بنو گے۔
تم استاد بننا چاہتے ہو۔ تو اپنی شاگردوں سے عاشقی نہ لڑانا۔ نہ اپنی کسی شاگرد سے شادی کرنا۔ بڑا نام کماؤ گے۔
اپنی ماں اور باپ سے کہنا کسی کی بیٹی کو رد کرکے نہ آئیں۔ رد کرو گے تمہارے بہنیں رد کی جائیں گی۔ اچھی طرح ہوم ورک کرکے رشتہ لیکر جائیں۔ نہ کہ رشتہ دیکھنے۔ اور تمہارا رشتہ طے کرنے کا اختیار اپنے دادا والد یا چھوٹے بھائی کو دینا۔ رشتے ناطے مرد ہی جوڑا کرتے تھے۔ اور یہ کام تو تھرڈ پارٹی (نائی، میراثی) ہی اپنی صوابدید پر طے کر دیا کرتی تھی۔ وہ لوگ بڑے زمانہ شناس ہوتے تھے۔ یہ کام جب سے خواتین نے آل اِن آل سنبھالا ہے تو ہر تیسرے چوتھے گھر میں بیٹی شادی کے انتظار میں شادی کی عمر سے گزر چکی ہوئی ہے۔
یہ رشتہ دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ وہ بھی بیٹیوں کو دیکھنے کون جاتا ہے؟ رشتہ تو بیٹی والے دیکھنے آتے ہیں۔ میرے دوست کا دور یہ تھا۔ وہ اس سے نہ نکل سکے۔ وہ کہتے تھے کہ بیٹی کا تو رشتہ لیکر جایا جاتا ہے۔ انکی نظر میں بیٹے کے لیے رشتہ دیکھنے جانے والے لوگ اور پھر بیٹیوں کے "نام" رکھ کر رد کر دینے والے لوگ اللہ کی بارگاہ میں گناہ گار ٹھہرتے ہیں۔
انکے مطابق بیس سے لیکر حد پچیس سال کی عمر میں بیٹے کی شادی کر دو۔ وہ ایڈجسٹ ہوجائے گا۔ اس کے بعد یاریاں لگائے گا۔ پرفیکشن میں جائے گا۔ جو ملے گی نہیں تو اول شادی میں تاخیر ہوگی۔ اور ہوگی بھی تو بیوی سے گھل مل نہیں سکے گا۔ کہ پہلے ہی درجن بھر سہیلیوں کا نشہ کر چکا ہوگا۔ پوسٹ میرٹل افیئرز میں بھی جائے گا کہ تیس تک جاکر لڑکا بوہتا سیانا ہوچکا ہوتا۔ اور دو شادیوں یا ایک بیوی ایک معشوق والی نفسیات بننے لگتی۔ ٹائم سے شادی ہوئی تو ایسی نفسیات کم بنتی ہے۔
اور ہم لڑکے ہیں ناں، قسم سے اکثریت میں ہمیں سسرال کے کچے پکے گلی یا ٹاؤن والے گھر کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ نہ ہمیں انکے گھر میں موجود لڑکی کی زیادہ بہنوں کی ٹینشن ہوتی ہے۔ ناں ہی ہم جہیز لینے کی نفسیات رکھتے ہیں۔ ہم تو شادی پر کھانا بھی خود دینا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ایک کمرے کا سامان خود بنانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ لڑکی کو سادگی سے لانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اپنا اور مخالف پارٹی کا خرچ کم سے کم کروانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ یعنی یہ دولہے کی نفسیات ہوتی۔
مگر ایسا کچھ بھی ہم کر نہیں پاتے۔ کیوں؟ ہماری ہی مائیں بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، مامیاں ان سب باتوں میں ٹانگ اڑا لیتی ہیں۔ اور ایسی بہو لانے کی لاحاصل میراتھن دوڑ میں شامل ہوجاتی کہ جسے سارا خاندان دیکھے اور دیکھتا رہ جائے۔ سائیں موئے جوڑ ہی نہیں بن پاتے۔ قد رنگ فیملی سائز تعلیم مکان کی بناوٹ اور نجانے کتنے انتہائی بیوقوفانہ و جاہلانہ اعتراض لگا کر ہماری خواتین لڑکیوں کو رد کر آتی۔
ایک عورت بڑے فخر سے بتا رہی تھی کہ ماسٹر صاحب سب کچھ ٹھیک تھا۔ انکے گھر کے آگے خالی پلاٹ میں روڑھی لگی ہوئی تھی۔ میرا پتر اوتھے بو واں سُنگھن جائے دا؟ میں نے کہا چاچی اسی ٹریکٹر لاکے اوتھوں روڑھی چک دیاں گے۔ اوہ پلاٹ ای اسی آپے خرید لواں گے۔ فیر کیہ خیال اے؟ اپنا سا منہ لیکر رہ گئی۔ اس بیبی نے پنجاب کا کوئی ضلع ہی شاید چھوڑا ہو۔ کہنا تو نہیں چاہیے مگر اپنا بیٹا کِسے نا چج دا تھا۔ مروجہ پنجابی مردانہ بیوٹی سٹینڈرڈز کو دس نمبر دیں تو اس لڑکے کو دو نمبر مل سکتے ہیں۔ اور بات کرنے اٹھنے بیٹھنے کی بھی کوئی تمیز نہیں۔ بس پیسہ تھا۔ اور اکلوتا تھا۔ ابھی تک بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی انکو اب پسند نہیں کر رہا۔ ترلے کر رہے کوئی بس انکا رشتہ کروا دے۔ مگر نہیں ہو پا رہا۔
خواتین کو میری باتیں یقیناً ناگوار گزریں گی۔ اور خصوصاً وہ آنٹیاں جو کئی سال سے بیٹے کا رشتہ تلاش کرنے کا تماشا لگائے ہوئے ہیں۔ اپنے چن مکھن کی بوتھی ویکھ کر کسی کی دھی بہن کا نام رکھا کریں۔ اور اپنی گھر بیٹھی شاہ زادیوں کی عقلیں اور شکلیں بھی دیکھ لیا کریں۔ وہ کوئی حلیمہ سلطان نہیں ہیں۔ جو آپ کرتی پھر رہی ہیں۔ وہی کل کو بھگتیں گی بھی۔
لڑکوں سے بس ایک بات کہوں گا۔ میرے ویرو زندگی لڑکی کی جاب اسکے گورے رنگ تیکھے نین نقشوں اور خوبصورتی کے ساتھ اچھی نہیں گزرتی۔ اس کی تعلیم و تربیت اسکا خاندانی ہونا اسکا باشعور ہونا، اسکا گھر داری اور نئے گھر میں آکر اپنا انٹرسٹ پیدا کرنا ہی اسکے گُن ہیں۔ چھوڑو یہ جانو مانو شونا بیبی کو۔ اور بندے دے پتر بن کے ویاہ کراؤ۔
ایک آخری بات۔ بہو سے کل کو لگانا تو بیر ہی ہے ناں؟ اس کے کھانے پینے نہانے کپڑے پہننے ہسنے رونے سونے جاگنے بات کرنے آٹے گوندتے ہوئے ہلنے میں بھی نکالنے تو نقص ہی ہیں۔ پھر اتنا سیاپا کیوں اپنی جان کو ڈالا ہوا ہے؟