Kya Main Alien Hoon?
کیا میں ایلین ہوں؟
قریباً ایک دہائی قبل میں لاہور کی ایک نجی جامعہ میں ایک پیپر چیکنگ پراجیکٹ میں بطور فلور مینجر جاب کرتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے شباب اور چند عشق اپنے جنون پر تھے۔ چلتے ہوئے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے۔ سعودیہ سے ابا جی ہزاروں ریال بھیجتے تھے اور یہاں خود بھی ضرورت سے زیادہ پیسے کما رہا تھا۔ سینموں میں فلمیں دیکھنا کینال روڑ پر بائیک 120 پر بھگانا اور اچھے سے اچھے ہوٹلوں میں کھانے کھانا ہی اپنی لائف تھی۔ ایک دن ہمارے پاس مارکنگ ہال میں دو لڑکیاں پیپر مارکنگ کے لیے رجسٹریشن کروانے آئیں۔ ایک جدید قسم کی لگ بھگ 7 ماہ کی حاملہ لڑکی جسکا حمل واضح ہو چکا تھا۔
عموماً حاملہ خواتین بڑی چادر لیتی ہیں کہ پیٹ چھپا رہے۔ مگر وہ لڑکی نیٹ کے چھوٹے سے دوپٹے میں تھی جو اس نے گلے میں V بنا کر ڈال رکھا تھا۔ دکھنے میں خوش شکل اور بات کرنے میں انتہائی خوش اخلاق تھی۔ اور دوسری سر سے پاؤں تک برقعے اور دستانوں میں چھپی ہوئی۔ آنکھیں بھی نقاب سے نظر نہ آتی تھیں۔
ان دونوں کی رجسٹریشن کی بات مجھ سے جدید لڑکی نے ہی کی۔ چند دن کے کام کے بعد وہ جدید لڑکی مجھ سے فرینک ہوگئی۔ اسنے بتایا کہ یوکے میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی تھی۔ 90 سے 95 فیصد وہ انگلش میں ہی بات کرتی تھی۔ مگر سمجھتی میری پنجابی بھی تھی شادی کے بعد کچھ عرصہ کے لیے خاوند کی فرمائش پر پاکستان آئی ہوئی تھی۔ اور ٹائم پاس کے لیے یہاں جامعہ آتی تھی۔ اس جامعہ میں کنٹین کا ٹھیکہ میرے ساتھ والے گاؤں کے ایک دوست کے پاس تھا۔ وہ مجھ سے پیسے نہ لیتا تھا اور کاونٹر پر اپنے پاس بٹھا کر کھانا کھلاتا تھا۔ وہ جدید لڑکی میرے ساتھ ہی لنچ کرنے کنیٹین پر جانے لگی۔ اور ایک دن ہم نے بریانی کی ایک پلیٹ ہی شئیر کی۔ جس پر میرے کولیگز نے کافی دل پشوری کیا۔
ایک دن میں ان دونوں لڑکیوں کے میز پر گیا۔ اور اپنی تب تک دوست بن چکی ہوئی لڑکی سے کہا کہ تم کیا کھاؤ گی؟ وہ بولی اونلی اسٹابری جوس۔ بٹ بِگ ون پلیز۔ میں نے نقاب والی لڑکی سے اس دن پہلی بار بات کرتے ہوئے پوچھا آپ کیا کھائیں گی؟ وہ پیپر پر دیکھتے ہوئے بولی زہر۔
میری دوست نے اسے کہنی ماری۔ میں وہیں ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا کہ زہر کسی شے میں ملا ہو یا گولی ہی جوس کے ساتھ کھا لیں گی؟ بولی سر جو آپ ایزی لی لا دیں۔ میری دوست نے مجھے گھوری ڈالی اور کہا کہ جاؤ یہاں سے تم۔۔
میں نے اسے کہا کہ تم جاؤ اور دو جوس لے آؤ۔ وہ غصے سے اٹھی اور چلی گئی۔ میں نے پوچھا کہ آپکا نام کیا ہے؟ بولی سر میں ایلین ہوں۔۔ آپ زومبی بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ سمجھا نہیں۔ اسنے ایک کاغذ پر یہ لکھا۔ alopecia universalis۔ میں اپنی تعلیم میں alopecia areata یعنی بالچر کے متعلق تو پڑھ چکا تھا۔ مگر ایلو پیشیا یونیورسلز کے متعلق نہیں جانتا تھا۔ مگر چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ کہ میں جس لڑکی سے مذاق کر رہا ہوں۔ وہ میری باتوں کے جواب مذاق میں نہیں دے رہی۔
اسی اثناء میں وہ لڑکی جوس لیکر آگئی۔ اور میں اپنا گلاس پکڑ کر وہاں سے اٹھ گیا۔ جوس میز پر رکھا اور اس لفظ کو گوگل کیا۔ تو سارا جسم پسینے کی تریلی سے جیسے سرد ہوگیا۔ اس بیماری میں ہماری قوت مدافعت کسی خرابی کی وجہ سے خود پر ہی اٹیک کر دیتی ہے۔ اور جسم کے سارے بال گرنا شروع ہوتے۔ ایک وقت آتا کہ سر بھنویں، پلکیں، ٹانگوں، بازوؤں، چہرے، بغل گیر، زیر ناف اور ناک کے اندر موجود بال بھی گر جاتے ہیں۔ یعنی پورے جسم پر ایک عدد بال بھی باقی نہیں رہتا۔ ایسا لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں ہوتا ہے۔ جسکا دنیا بھر سمیت پاکستان میں کوئی علاج نہیں ہے۔
ایسے لوگوں خصوصاً لڑکیوں کو سماج میں رہنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں اس دن اور وہ ساری رات اسی چیز کو پڑھتا اور ایسے لوگوں کی ویڈیوز یوٹیوب سے دیکھتا رہا۔ معروف شاعر تہذیب حافی جو اس وقت اردو پوائنٹ میں جاب کرتا تھا میرے شاعر دوست عثمان ضیاء سے ملنے ہمارے فلیٹ پر آیا ہوا تھا۔ عثمان صاحب نے مکس سبزی بنائی اور ہم نے کھانا کھایا۔ وہ دونوں شاعروں کو ڈسکس کر رہے تھے اور میرے کانوں سے اس نقاب پوش لڑکی کا بولا ہوا زہر کا لفظ میری رگوں میں اترتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ جب جامعہ وہ دونوں لڑکیاں آئیں تو میں نے اپنی دوست سے کہا کہ اگر تم اپنی دوست کو کنٹین کے اوپر والے پورشن میں لے آؤ تو مجھے کچھ بات کرنی ہے۔ اس نے کہا مگر وہ تم سے بات نہیں کرے گی۔ تم رہنے دو۔
میں نے اس کے منع کرنے کے باوجود خود اس لڑکی سے بات کر لی کہ میڈم آپ آج لنچ ہمارے ساتھ کنٹین پر کریں۔ وہ بولی کیا ایلین وہاں بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں؟ میں نے کہا بلکل کھا سکتے ہیں۔ وہ چپ ہوگئی۔ میری دوست نے اسے کہا کہ ہم اوپر بیٹھیں گے وہاں کوئی بھی نہیں ہوتا۔ ہم اپنا کھانا بھی خود ہی لیکر جائیں گے کوئی ویٹر بھی نہیں آئے۔ خطیب نے تم سے کوئی بات کرنی ہے۔ وہ چپ رہی۔
لنچ کے وقت میں نے کہا چلیں۔ تو وہ بنا کچھ بولے اٹھی اور ہمارے ساتھ چل دی۔ سہمے ہوئے انداز میں اس نے اپنا نقاب کھولا تو اس فوٹو والی آپی جیسا ہی ایک چہرہ نمودار ہوا۔ سر پر اس نے وہ چمکیلی سی پٹی پہنی ہوئی تھی جو لڑکیاں برقعے کے ساتھ ماتھا ڈھانپنے کے لیے پہنتی ہیں۔ ہاتھوں سے دستانے اتارے۔ اور پہلی بار آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا۔ اور بولی بس؟
میں نے کہا۔ نہیں۔ وہ بولی آپ کریں بات میں سن رہی ہوں۔۔ میں نے پوچھا کب ہوا یہ؟ بولی میں تیسری کلاس میں تھی۔ کوئی علاج کروایا؟ والدین نے اپنا آپ بیچنے کے سوا سب کچھ مجھ پر لگا دیا ہے۔ اکلوتی اولاد جو ہوں انکی۔ مگر میرے جسم پر ایک بال نہیں اگ سکا۔ سکول کالج میں میرا نام گنجی، زومبی، ایلین ہوا کرتا تھا۔ ایک لڑکے کو مجھ سے پیار بھی ہوا۔ وہ تنہائی میں اپنے تن کی مراد پوری کرنا چاہتا تھا مگر اپنانے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ کہ میرے بچے بھی ایسے ہی ہونگے۔
یہ بات کرتے ہوئے وہ بریانی کھا رہی تھی۔ میں بھی یہی پری ٹینڈ کر رہا تھا کہ مجھے کوئی حیرانی نہیں ہو رہی۔ نہ میں کوئی اوور ری ایکشن ہمدردی ترس وغیرہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ نہ ہی میں اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے نجانے کیا سوچ کر اپنی پلیٹ والا چکن پیس اس لڑکی کی پلیٹ میں رکھ دی۔ اس نے سمائل کے ساتھ کہا سر آپ بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زومبی زیادہ گوشت کھاتے ہیں؟ میں نے ہس کر کہا آج دیکھ لیتے ہیں۔ وہ بولی کیوں آپ ویجی ٹیرین ہیں؟ میں نے کہا ایسی بات نہیں بس میرا دن نہیں چکن کھانے کو آج۔۔
میرا مقصد بس یہ تھا کہ وہ لڑکی یہاں کنٹین کے اوپری پورشن میں بیٹھ کر لنچ کرنے لگ جائے۔ ورنہ اس سے پہلے صبح سے شام بھوکی پیاسی نقاب میں بیٹھی رہتی تھی۔
ہم نے کھانا کھایا اور نیچے ہال میں آگئے۔ اگلے دن لنچ پر اس نے بتایا کہ سر مجھے کہیں بھی جاب نہیں ملتی۔ سکول والے کہتے کہ بچے تم سے ڈرتے ہیں۔ اور عام لوگ سمجھتے ہیں کہ میری بیماری کہیں ان کو نہ لگ جائے کہ یہ چھوت کی بیماری ہے۔ مجھے ایسے دیکھتے ہیں جیسے میں کوئی ایلین ہوں اور جو مجھے دیکھ لے وہ آنکھیں ہٹاتا ہی نہیں ہے۔ بلکہ دوسروں کو بھی دعوت دیتا ہے کہ مجھے دیکھے۔ اور خواتین کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ استغفار کرنے لگتی ہیں جیسے میں اللہ کا کوئی عذاب ہوں۔ سب میری امی سے کہتے ہیں کہ تمہاری بیٹی کا کیا بنے گا؟ جب تم لوگ نہیں ہو گے تو یہ کہاں جائے گی؟ وہ خدا اسے ٹھیک بھی تو بنا سکتا تھا۔ اور میرے ماں باپ لوگوں کی ایسی ہی اور باتوں کو سوچ سوچ کر موت کے منہ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
یہ لڑکی میری فیس بک فرینڈ تھی۔ اسنے مجھے موٹی ویٹ کیا اور سیالکوٹ سے لاہور یہاں پیپر مارکنگ کے لیے بلا لیا۔ میں اسی کے گھر رکی ہوئی ہوں۔ میں کوئی پیسے کمانے نہیں آئی۔ بس اس جہنم سے چند دن دور نکل آئی ہوں۔ میرے لیے گھر چھوڑنا اور یوں کسی اجنبی پر اعتبار کرنا آسان نہ تھا۔ مگر میں شکر گزار ہوں اپنی اس دوست کی جس نے میری اب تک کی صحرا نما زندگی میں چند بوندیں خوشی کی بھریں ہیں۔ اور مجھے ہسنا سکھایا ہے۔ یہ مجھے یوکے جانے کا کہہ رہی ہے۔ کہتی وہاں ہم دونوں ملکر کوئی جاب کریں گی۔ تم میرے ساتھ ہی میری بہن کر ہمیشہ رہنا۔ مگر میرے والدین کہاں جائیں گے۔ اسی کشمکشں میں ہوں۔
پیپر ختم ہوئے۔ وہ لڑکیاں چلی گئیں۔ میں لبارڈ کالج میں بطور وائس پرنسپل چلا گیا۔ کئی سال گزر گئے۔ میں نہیں جانتا وہ لڑکی اب کہاں ہے۔ اسکی دوست کا نمبر بھی میرے پاس نہیں تھا۔ نجانے کیوں اسکا فون نمبر میں نے نہیں لیا تھا۔ کہ دوبارہ رابط ہی کر سکتا۔ آج لائل پور کے ایک بس سٹاپ پر ایک چھوٹی سی چار پانچ سالہ بچی اسی بیماری کے ساتھ دیکھی تو وہ لڑکی یاد آگئی۔ سب لوگ اسے ہی مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔ اور کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ توبہ استغفار کر رہے تھے۔
مختلف لوگوں کے لیے ہم اپنے جاہلانہ رویے کیا ہمیشہ ایسے ہی رکھیں گے؟ ہم ان کو ہمیشہ ایسے ہی گھورا کریں گے؟ انکے ایسے ہی نام رکھیں گے؟ ان کو جاب نہیں دیں گے؟ کہ وہ ملک چھوڑنے یا مرنے کی خواہش کرنے لگ جائیں۔ کب تک یہ ظلم ہم جاری رکھیں گے؟ اور ہم اپنی طرف سے تو ترس اور ہمدردی ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اگلے بندے کا دل ہم اپنی احمقانہ دیکھنی اور جاہلانہ باتوں سے ایسا گھائل کرتے کہ وہ جینے کی خواہش ہی چھوڑ دیتا ہے۔
آپ کہیں مجھے یعنی اپنے بھائی خطیب کو دیکھ لیں۔ تو آپکے چہرے پر جو خوشی آئے گی۔ آپ مجھ سے جو بھی بات کریں گے۔ میرا حال پوچھیں گے۔ یا کوئی رسمی بات کریں گے۔ وہی بات آپ نے ایسے لوگوں سے بھی کرنی ہے۔۔ وہی ری ایکشن دینا ہے جو آپ مجھے دیں گے۔ حیران ہونا ہے مگر خوشی والا۔ اور ان کو گہرا نوٹس زرا بھی نہیں کرنا۔ نظر نہیں جمانی اور نہ ہی آنکھیں پھاڑ کر بس دیکھتے ہی رہ جانا ہے۔ ایسے ہی ظاہر کرنا ہے جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔