Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khateeb Ahmad/
  4. Khud Ko Muaf Kaise Karoon?

Khud Ko Muaf Kaise Karoon?

خود کو معاف کیسے کروں؟

1۔ میرا خاوند ایک انتہائی اچھا شخص تھا۔ میں نے اپنے ایک دوست کے کہنے پر اس پر انتہائی گندہ کیچڑ اچھال کر طلاق لے لی ہے۔ دوست اب ناجائز تعلقات رکھنا چاہتا ہے نکاح کی بات پر دو سال سے آئیں بائیں شائیں کر رہا ہے۔ اپنے خاوند کو سوچتی ہوں تو خود کشی کا خیال آتا ہے کہ اسکے ساتھ بہت برا کیا میں نے۔ کم از کم اسکی کردار کشی تو نہ کرتی۔ اپنے معاشقے کے پیچھے اسے اسکے خاندان اور دوست احباب میں کہیں کا نہ چھوڑا۔ اب نماز میں دعا میں کوئی حلاوت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ یہ بات سونے ہی نہیں دیتی۔ نہ مار رہی ہے نہ جینے دیتی ہے۔

2۔ کرپٹو کرنسی اور فاریکس ٹریڈنگ میں لالچ میں آکر زندگی بھر کی جمع پونجی جھونک دی۔ پہلے تو لاکھوں آئے اور ایک ہی رات میں سب کچھ جاتا رہا۔ اپنا تو سب کچھ کیا تین کریڈٹ کارڈز سے نکال کر جو 8 لاکھ ڈالا تھا ان پر ماہانہ اپنی ساری سیلری سود دے رہا ہوں۔ وہ لمحہ جس میں یہ لالچ میرے اندر آیا مجھے ایک پل بھی چین سے سونے نہیں دیتا۔ شاید چند سالوں تک اس مالی بحران سے نکل جاؤں۔ مگر خود کو معاف نہیں کر سکوں گا کبھی بھی۔۔

3۔ میں موبائل پر ڈرامہ دیکھنے کے دھیان لگی ہوئی تھی۔ پاس میری چھ ماہ کی بیٹی لیٹی تھی۔ کروٹ لی اور بیڈ سے نیچے گر گئی۔ برین ڈیمج ہوا اور عمر بھر کی معذوری ہوگئی ہے۔ اسکے بعد کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ اب وہ پانچ سال کی ہے۔ ان پانچ سالوں میں ایک دن ایسا نہیں جب میں نے خود کو نہ کوسا ہو۔ کسی طور بھی خود کو معاف نہیں کر پا رہی۔

4۔ میری عمر 25 سال تھی اور میری محبت اس وقت 30 سال کی تھی۔ مجھے واضح معلوم تھا کہ میری شادی وہاں نہیں ہو سکے گی۔ بیغرت بن کر شادی کے جھوٹے وعدے پر اس معصوم کو پانچ سال لٹکائے رکھا۔ اور ہماری محبت جذبوں سے جسموں تک آگئی۔ اور کوئی بھی پردہ حائل نہ رہا۔ وہ ہر بار کہتی تھی کہ مجھے اب اپنا لینا میں کسی کے پاس جانے جوگی اب نہیں رہی۔ اور مجھے ہر بار پتا ہوتا تھا کہ کبھی بھی نہیں اپنا سکوں گا۔

برادری سے باہر کسی صورت میرے گھر والے نہیں مانیں گے۔ آج وہ 35 کی ہے اور میں 30 کا۔ وہ آج بھی اسی انتظار میں ہے کہ میں اسے اپناؤں گا۔ اور میری شادی کی تاریخ بھی طے ہوچکی ہے۔ مگر میں اسے بتا نہیں پا رہا۔ خود پر ہر روز لعنت بھیجتا ہوں۔ کہ میں نے سب جانتے ہوئے پانچ سال کیوں اس معصوم کے ضائع کیے۔ کبھی بھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا۔ اور اسکا اب کیا بنے گا؟ یہ سوچ کر خود سے گھن آنے لگتی ہے۔

5۔ میں یونیورسٹی پڑھنے گئی تھی۔ شکل صورت اچھی تھی۔ بوائے فرینڈ بنا۔ بریک اپ ہوا۔ پھر کئیوں نے کئیوں کو ری پلیس کیا۔ ایک وقت میں کئی ساتھ رہے۔ دن کسی کے ساتھ اور رات کسی کے ساتھ۔ ٹوور لیجانے والی کمپنیوں کے ساتھ پورے ملک کی سر اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ کی۔ اور وہاں ہم ایک ہی بیڈ پر سوتے تھے۔ مجھے عیاشیوں کی لت سی لگ گئی۔ میرے سب جوتے کپڑے میک اپ ہر شے وہی لیکر دیتے تھے۔ مگر ان سب عیاشیوں کی قیمت بھی وصول کی جاتی ہے۔ جو میں دیتی رہی۔ دو ابارشن ہوئے۔۔

میری شادی میرے ایک انتہائی شریف النفس نمازی و مذہبی سے کزن سے طے پائی ہے۔۔ اپنا ماضی یاد کرکے دل دہل سا جاتا ہے۔ اس نئے رشتے میں کوئی چاشنی کوئی خوشی محسوس نہیں ہوتی۔ اپنے سب جذبے میں وہاں ضائع کر آئی ہوں جہاں میں پڑھنے اور کچھ بننے گئی تھی۔ اور میں۔ چار سالوں میں کیا بن کر لوٹی ہوں؟ خود کو معاف کیسے کروں؟ اور سب کچھ کر سکتی ہوں۔ خود کو معاف نہیں کر پا رہی۔

6۔ ایک ایسی بیوی جو مجھ سے پیار نہیں عشق کرتی ہے۔ اس کو چھوڑ کر اپنی عنایات غیروں میں بانٹتا رہا۔ اور وہ تو میری بس توجہ کی ہی سوالی ہوتی تھی۔ بات جذبوں کی خیانت سے جسموں کی خیانت تک گئی۔ اور میرے سب راز اس پر میرے موبائل سے ایک دن عیاں ہوگئے۔ ایسی باتیں آخر کب تک چھپ سکتی ہیں۔

اس نے مجھے کچھ بھی کہے بغیر روتے ہوئے معاف کر دیا ہے۔ کہ آپ کے متعلق ایسی کوئی بھی بات کوئی سنے گا تو کیا کہے گا۔ آپکے ساتھ میری بھی عزت پر حرف آئے گا۔ آپ پلیز یہ سب چھوڑ دیں۔ ہمارے بچوں تک یہ بات آگئی تو وہ آپکو کیا عزت دیں گے؟ اب خود کو کیسے معاف کروں؟ اور میرے گناہ اتنے عام نہ تھے جتنا بڑا دل کرے کرماں والی نے معاف کر دیا۔ اسکا تو سامنا ہی نہیں ہوتا مجھ سے۔ نہ اپنا سامنا کر پا رہا ہوں۔

یہ سب ہو چکا ہے۔ اب واپس نہیں پلٹ سکتا۔

خدا توشاید معاف کر دے۔ خود کو ہی معاف کر پانا ہر کوشش کے بعد ممکن نہیں لگ رہا۔ اور آنے والا ہر دن اضطراب و بے سکونی میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

ان سوالوں کے جواب کوئی دے سکے تو ہزاروں لوگ شاید خود کو معاف کر سکیں۔

Check Also

America, Europe Aur Israel (1)

By Muhammad Saeed Arshad