Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Kabhi Wapis Na Loten

Kabhi Wapis Na Loten

کبھی واپس نہ لوٹیں

بیس سال قبل ایک فیملی اپنے بچے کے ساتھ سعودیہ شفٹ ہوئی اور کبھی واپس پاکستان نہ گئی۔ فیملی میں باپ اور بیٹا تھے۔ ماں کو ماموں نے قتل کر دیا تھا کہ اس نے اپنی پسند سے شادی کی تھی۔ بچے کو اس ڈر سے پاکستان کبھی بھیجا ہی نہیں کہ اسے بھی نہ مار دے کوئی۔ وہاں ہی ایک بنگالی لڑکی سے شادی ہوگئی۔ جب شادی ہوئی تو بچے کی عمر تین سال تھی۔ اسے ہمیشہ یہی بتایا گیا کہ یہی تمہاری ماں ہے۔ حتی کہ ماں کے خانے میں پاکستان سے کسی کو کہہ کہلا کر اسی بنگالی لڑکی کا نام ڈال دیا۔ اس وقت ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں تھا۔

وہ بچہ بہت خوش تھا اپنی ماں سے بہت محبت کرتا تھا اور ظاہر ہے بنگلہ دیش کو اپنا ننھیال سمجھتا تھا۔ جہاں وہ کبھی جا نہیں سکا تھا۔ اسکی ماں بولی بھی لگ بھگ بنگالی تھی کہ ماں نے اسے بنگالی سکھائی اور باپ نے اردو۔ اسکی امی کے بھائی اسے سگا بھانجا سمجھتے تھے۔ اسکے تین ماما وہیں سعودیہ ہی کام کرتے تھے اور سگے بھانجے سے بھی بڑھ کر اسے محبت دی کہ انکی بہن کبھی ماں نہیں بن سکی۔ اسکے ہاں اولاد ہی نہیں ہوئی بس یہی بچہ اسکی اولاد بن گیا اور عمر گزرتی رہی۔ اب اسکی منگنی بھی ماں کی طرف سے ایک رشتہ دار لڑکی سے کرنے کی بات چل رہی تھی۔

عمرہ کرنے کی غرض سے اس بچے کے ددھیال سے کچھ لوگ سعودیہ جاتے ہیں اور باپ ان کو اپنے گھر بلا لیتا ہے کہ بیٹا اپنے رشتہ داروں سے بھی زندگی میں ایک بار تو مل سکے۔ اس سے پہلے وہ جس سے ملا باہر ہی خود ملا۔ وہ بھی سالوں بعد کبھی کبھار کہ اسکی اپنی جان کو سابقہ سسرال سے خطرہ تھا اور ابکی بار ان رشتہ داروں کو منع کرتا ہے کہ ماضی میں جو ہوا اس کا ذکر نہیں کرنا۔ اب صفیہ ہی اسکی ماں ہے۔ اپنی ماں کے قتل کو سوچے گا تو پریشان ہوگا اور بدلے کی آگ میں جلنا شروع کر دے گا۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ دعوت کے بعد ان لوگوں میں سے ایک خاتون یا شاید کسی مرد نے اس لڑکے کو کسی نہ کسی طرح بتا ہی دیا کہ یہ تمہاری ماں نہیں ہے۔ تمہاری ماں کو تمہارے بڑے ماموں نے مار دیا تھا اور آج چند ماہ بعد وہ لڑکا پاگل خانے میں تقریباً داخل ہو چکا ہے۔ وہ اس دکھ اور درد کو قبول ہی نہیں کر پا رہا کہ میری ماں کو کیسے بے رحمی سے مار دیا گیا۔ اسے کرنٹ لگایا گیا تھا۔ یہ بھی اس لڑکے کو بتایا گیا۔ اپنی سوتیلی ماں اور باپ سے بدگمان ہوگیا کہ مجھ سے اتنے سال یہ چیز چھپائی کیوں۔ وہ اپنی اصلی ماں کی قبر پر جانے کی ہر وقت بات کرتا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ ایسی چیزیں کبھی نہ کبھی ظاہر ہونی ہوتی ہیں۔ لے پالک بچے کو یا بچپن میں وفات پا جانے والے باپ یا ماں، یا طلاق کی صورت میں بچوں کو والد یا والدہ ہر صورت سچ بتائیں۔ کہ تمہارا اصل باپ یا ماں کون ہے۔ وہ مر چکا/چکی یا طلاق ہوچکی اور اب وہ کہاں ہے۔ کوشش کریں اچھے لفظوں میں بتائیں۔ آپ کے ساتھ کوئی جیسا بھی تھا اولاد کے دل میں نفرت نہ بوئیں اور چھپائیں نہیں اس بات کو۔

دوسرا جب چھپا ہی رہے ہیں اور آپ کو ایسا ٹھیک لگتا ہے۔ تو کبھی واپس نہ لوٹیں اور نہ ہی کسی ایسے بندے سے بھول کر بھی ملیں جو سچ جانتا ہے۔ وہ چھپی ہوئی بات کو ظاہر کرنا اپنے اوپر فرض سمجھے گا۔ پاکستانی معاشرے میں ایسی چھپی ہوئی چیزوں باتوں کو اچھالنے میں لوگوں کو جو آرگیزم حاصل ہوتا ہے۔ وہ شاید دنیا کی کوئی اور دوسری چیز نہ دے سکے۔ انہیں لگتا ہے اس بات کو ظاہر نہ کیا تو ہماری وفات ہوجانی ہے۔ کوئی اگر اپنا کوئی پہلو چھپا رہا تو چھپا رہنے دو یار۔ کیا تکلیف ہوتی ہے آپ کو ان چیزوں میں پڑنے کی جو کوئی نہیں ظاہر کرنا چاہتا؟

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan