Joint Family System
جائنٹ فیملی سسٹم

میں نہیں جانتا اب لوگ جائنٹ فیملی سسٹم میں کیسے رہتے ہیں۔ ہم اپنے دادا کے پانچ پوتے ہیں۔ میرے ایک ہی تایا جی تھے وہ جوانی میں وفات پا گئے۔ ان کے ماشا اللہ تین بیٹے ہیں۔ ہم لوگ دو بھائی دو بہنیں ہیں۔ تایا جی کا ایک اٹلی ہے ایک رومانیہ اور تیسرا گاؤں ہی ہوتا ہے۔ خیر ہم لوگ ایک گھر میں اٹھارہ سال تک رہے۔ وہ دادا جی کا بنایا ہوا ایک کنال کا بہت بڑے صحن اور درختوں والا گھر تھا۔ گھر میں مال مویشی، بکریاں، مرغیاں، بطخیں، خرگوش اور چکوریں بھی ہوا کرتی تھیں۔ جسے گرا کر دو ہزار چار میں دو الگ گھر بنا دیے گئے۔ جب سائیکل چلانی سیکھی تو میں اور ہمایوں شہزاد میرا تایا زاد بڑا بھائی کبھی میرے ننھیال اور کبھی اسکے ننھیال چلے جاتے۔ کوئی فرق نہیں تھا کہ یہ کس کا ننھیال ہے۔ ہمایوں کی نانی اماں مجھے ہمایوں سے بڑھ کر محنت دیتیں اور نانا جی بھی بہت پیار کرتے۔ ہمایوں کی ایک ماں تھی اور دو خالہ۔ جبکہ میرے پانچ ماموں اور امی انکی اکلوتی آپا تھیں۔
ہمایوں کی خالہ میری خالہ بن گئیں۔ میں خالہ کہتا تو مجھے سچ میں وہ دونوں لڑکیاں اپنی خالہ محسوس ہوتیں اور آج کے دن تک بلکل ویسا ہی ہے۔ ہمایوں کے ماموں نے بھی کبھی ایک رتی بھر فرق نہیں کیا کہ خطیب ہمارا سگا بھانجا نہیں ہے اور ہمایوں خاور لقمان یعنی تینوں تایا زاد بھائیوں کو میرے ننھیال نے پرائے دھوتے سمجھا۔ میری نانی اب بھی ماشا اللہ زندہ ہیں۔ جب بھی آئیں تایا گھر، بلکہ ہم تایا جی کی وفات کے بعد اس گھر کو تائی کا گھر کہتے ہیں۔ ضرور جاتی ہیں کہ ماں والا احساس میری تائی امی محسوس کر سکیں اور تائی امی بھی ماں والی ہی آؤ بھگت کرتی ہیں۔ نہیں جانتا یہ کیسے ہوا مگر الحمدللہ آج ابو اور تایا جی کی چالیس سال پہلے شادی ہوئی اور ہم چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کے گھر آجا سکتے ہیں۔ ہم تو ایک ساتھ پلے بڑھے۔ اب اگلی پیڑھی یعنی میرے بچے اور میرے دو تایا زاد بھائیوں کے بچے ایک ساتھ سارا دن، کبھی وہ ہمارے گھر آجاتے تو کبھی میرے بچے ادھر چلے جاتے اور کھیلتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہم لوگ اپنی دونوں پھپھو جنہیں آنٹی کہتے ہیں کے پاس بہت زیادہ رہے ہیں۔ ہم بھی سبھی بہن بھائی اور ہمایوں لوگ بھی۔ صرف ملنے نہیں گئے بلکہ ہفتوں کے حساب کے سکول کی چھٹیوں کے مہینوں میں وہاں رہتے رہے ہیں۔ اوائل بچپن میں تو آج چھٹیاں ہوئی اور کل نانی پاس چلے جانا ہوتا تھا۔ جب تھوڑے بڑے ہوئے تو چھٹیوں کا ایک آدھ مہنیہ دونوں پھپھو کے پاس گزرنے لگا۔ ماؤں سے بڑھ کر ہمیں ہماری پھوپھیوں نے نہ صرف بچپن میں محبت دی۔ جب وہ کنواری تھیں۔ بلکہ آج کے دن تک ماں کا دوسرا روپ ہماری دونوں پھوپھیاں ہیں۔ اس کا اعتراف ہم سب بہن بھائی اور میرے تینوں تایا زاد بھائی بھی کرتے ہیں۔
ہمارا دونوں پھوپھا جی جنہیں ہم چاچو کہتے ہیں۔ وہ بھی ہم سب کے بہت قریب ہیں۔ مسلسل ان سے رابطہ رہتا ہے۔ ایک بات بتانا بھول گیا کہ ہماری شادیاں کزن میرج نہیں ہوئیں۔ یعنی پھوپھو اور چچا تایا کی طرف کوئی رشتہ نہیں ہوا۔ ہاں ہمایوں کی اسکے ننھیال میں خالہ کی طرف شادی ہوئی۔ یعنی بغیر کسی نئے رشتے کے بھی ہم سب سگے بہن بھائیوں سے بھی بڑھ کر جڑے ہوئے ہیں اور ساری لڑکیاں یعنی میری ماں، تائی، دونوں پھوپھیاں اور ہمایوں کی دونوں خالائیں بھی کسی طرح سے ایک دوسرے سے ناراض نہیں ہیں۔
پنجاب کے دیہاتوں میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں اور یہ خاندان والی فیلنگ ایک ایسی چیز ہے۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ فیلنگ اعتماد دیتی ہے اور مجموعی طور پر پرسنیلٹی گرومنگ میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ میں عمر کے اس حصے میں اپنے بچپن اور ان سب رشتوں سے ملی محبت کی مٹھاس کو نہ صرف محسوس کرتا ہوں۔ بلکہ اپنی اولاد کو بھی اسی خاندان سے جڑے رہنے کی تلقین کروں گا۔
آج میرے بیوی بچے میری چھوٹی پھپھو کے پاس رہنے کے لیے جا رہے ہیں۔ شاید کسی کو یہ عجیب لگے کہ میری پھپھو کے گھر میں جیسے اپنے بچپن میں رہتا تھا۔ میری خواہش ہے کہ میرے بچے بھی اسی آنگن میں کھیل کود کر آئیں۔ اس گاؤں کی گلیاں بازار دیکھیں اور میرے بچے بھی میری پھپھو کو ایسے ہی پیارے ہیں جیسے میں تھا اور ہوں۔ وہ انکے صدقے واری جاتی ہیں اور میرے پھوپھا جی بھی بہت کئیرنگ اور لونگ انسان ہیں۔ جب تک چاہیں گے بچے اور انکی ماں آج سے وہاں رہیں گے۔
خیر یہ سب آپ کو کیوں بتا رہا ہوں؟ کم کہے کو زیادہ سمجھیں۔ نومولود بچوں کو زندگی کے پہلے آٹھ دس سال پورے خاندان کی محبت سمیٹنے کا موقع دیں۔ زندگی کے ابتدائی سال ان کو زیادہ لوگوں میں گزارنے دیں۔ کوشش کریں دیہاتی زندگی میسر ہو۔ ہمارے نبی پاک ﷺ کو گاؤں کیوں بھیجا گیا تھا؟ کبھی تحقیق کرئیے گا کہ یہ رسم وہاں کیوں رائج تھی شہر کے بچے اپنے پہلے چند سال گاؤں گزار کر واپس آتے تھے اور آج پاکستان ہے یا باہر کے ممالک۔ بچے دادا دادی سے دور چچا تایا کے بچوں سے دور پھپھو کے بچوں سے دور، گلی محلے کے بچوں سے دور جیل نما بند گھروں میں قید ہیں اور ان نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جو کبھی سنی تھیں نا دیکھی تھیں اور والدین پھر ان جگر گوشوں کی وجہ سے ڈپریشن میں جا رہے ہیں۔
کہ جی ہمارا بچہ بولتا نہیں ہے، اسکے فلاں فلاں مائل سٹون Delay ہیں۔ جب اسے وہ سب سیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا جو اس نے فطرت اور بچوں سے سیکھنا تھا۔ تو اس میں آنے والے مسائل سے انکار کیسا۔ یہ شادی ہوتے ہی الگ ہوجانے والا مسئلہ بچوں کی گروتھ اور Development کو بہت بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اسے کوئی جذباتی مضمون سمجھنے کی بجائے اس پر خود تحقیق کیجیے گا۔

