Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Hum Kese Insan Hain?

Hum Kese Insan Hain?

ہم کیسے انسان ہیں؟

ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایک شیل یا پنجرے میں قید ہیں۔ وہ "وہ" نہیں ہیں جو وہ دکھائی دیتے ہیں یا جیسا وہ دکھاوا کرتے ہیں۔ وہ نہ تو اتنے اچھے ہیں نہ ہی اتنے برے جتنے وہ اپنی ڈومین یا معاملات میں نظر اور سمجھ آتے ہیں۔ کوئی اپنے گھر میں تو ہے اور اسکے گھر جہنم ہے۔ تو کوئی گھر سے ہزاروں میل دور سالہا سال پردیس میں اپنوں سے دور رہ کر سب اچھا کرنے کا دکھاوا کرتا ہے۔ حال پوچھو تو دونوں کہیں گے۔ سب اچھا ہے۔ مگر اچھا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

کوئی اپنی پہچان چھپا کر بیٹھا ہے۔ تو کسی کی پہچان جو اعلی ہے وہ اس پہچان کے لائق نہیں۔ یہ کوئی اور تو بعد میں جانے گا وہ پہلے سے جانتا ہے اور ساری عمر ناٹک میں گزار دیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے بھائی بازو ہوتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے ہی نفرت کرتا ہے۔ کوئی عورت کہتی ہے بہو بیٹی ہوتی ہے اور اس پر ہی جینا عذاب کرتی ہے۔ ڈپریشن کی مریض اس کو بنا دیتی ہے جسے بظاہر بیٹی کہتی ہے۔

مالی مشکلوں میں گِھرا ہوا خاوند اپنی بیوی اور بچوں کے سامنے حوصلے کا ماؤنٹ ایورسٹ بنے ساری عمر کاٹ دیتا ہے۔ مگر وہ کتنا دکھی ہے، وہ اپنے خاندان کا نظام کیسے چلا رہا ہے، اسے اپنی ورکنگ پلیس کر کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ جیب خالی بھی ہو تو اپنے جگر گوشوں کو قرض لے کر ہر خوشی دینے کا سامان کر لیتا ہے۔

اور وہ ماں، جو اپنی اولاد کا ایسا درد دیکھ رہی ہو، جسے وہ خود کو بیچ کر بھی دور نہ کر پائے۔ اس انسانی عظمت کو کن لفظوں میں لکھا یا بیان کیا جائے کہ وہ اپنا درد چھپا کر سب اچھا ہے کی ایکٹنگ کرتی ہے۔ اس کا ایک نہیں دو تین چار بچے ایسے ہیں جو چل نہیں سکتے، اپنا لباس نہیں بدل سکتے، خود کھانا ٹھیک سے نہیں کھا سکتے۔ وہ 24/7 انکا سایہ بنے ساری عمر بنا کسی چھٹی کے ملازمت کرتی ہے۔ سوچتا ہوں اسکا معاوضہ اس دنیا کی ساری دولت بھی نہیں ادا کر سکتی۔

اور وہ بیٹی، جو ہر روز دعا کرتی ہے۔ میرا رشتہ ہو جائے۔ مجھے کوئی پسند کر لے۔ میرے ابو جی کا فرض ادا ہو۔ وہ میری شادی میں تاخیر کو لے کر پریشان رہتے ہیں۔ میں انکی لاڈلی تھی۔ اب مجھے خود سے جدا کرنے کا وقت آیا ہے کہ یہی دستور ہے تو مجھے کوئی پسند ہی نہیں کرتا کہ میں زیادہ پڑھ نہ سکی، میرا قد پانچ فٹ دو انچ ہے، میرا رنگ گندمی ہے اور ہم لوگ غریب ہیں۔ میں تو اپنے پاپا کی پری تھی۔ میری ہر خواہش ابو جی نے پوری کی۔ اب میرے نصیب میں کیا لکھا ہے۔ کاش وہ بکتا ہوتا تو یہ بھی خرید کر مجھے دے پاتے تو اپنا سب کچھ یا اپنا آپ بیچ دیتے۔

اور جن سے ہم کسی بھی وجہ سے یا بلا وجہ نفرت کرتے ہیں۔ انہیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ انہیں ذلیل و رسوا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا سب کچھ چھن جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہیں جانی مالی جذباتی کوئی بھی نقصان پہنچانے کی پلاننگ میں ہیں۔ ایک دم سے وہ مر جائیں۔ تو کیا ہم ان سے اپنی یہ نفرت جاری رکھیں گے؟ اگر کہیں گے مرنے والا اچھا انسان تھا۔ تو آج جب وہ زندہ ہے، ہمارے آس پاس ہے اور اس نے ہمارا کچھ بھی اگر نہیں بگاڑا۔ تو اسے ہی کیوں نہیں کہہ پاتے کہ تم اچھے انسان ہو؟ یہ حسد نفرت بغض منافقت چھپائے ہوئے ہم کیسے فراڈ اور دھوکے باز انسان ہیں۔ ہمارا یہ چہرہ سب پر عیاں ہو جائے تو کیا تماشا ہو۔ قیامت سے پہلے قیامت ہو۔

کیوں وہ ہی ایک انسان ہی تو نہیں ملتا۔ جو مرہم ہوا کرتا ہے۔ جو سایہ ہوا کرتا ہے۔ جس کا ایک خیال روح کو ٹھار کے رکھ دیتا ہے اور پھر اس کا ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانا، کیسے کوئی دیکھے کہ زندوں کو جیتے جی مار کے رکھ دیتا ہے اور پھر جینا پڑتا ہے، لائف میں آگے بڑھنا پڑتا ہے، آنسو چھپا کر درد بھلا کر نہیں ان کو دبا کر ہسنا بھی پڑتا ہے اور یہ دکھانا ہوتا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ جب کہ کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہوتا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari