Hijrat Mein Barkat
ہجرت میں برکت

آج ایک پورا سال گزر گیا عمان میں مستقل رہتے ہوئے۔ اس ایک سال میں دو ماہ پاکستان بھی رہا ہوں۔ مگر ہجرت کو ایک سال آج پورا ہوا۔ اٹھارہ اکتوبر کی رات اور انیس اکتوبر کی صبح میں مسقط آیا تھا۔ محتصر کہوں تو یہ ہے کہ بہت پہلے یہ قدم اٹھا لینا چاہئیے تھا۔ آپ بھی اب پاکستان کو ایک شہر سمجھیں۔ میں بھی ایسا ہی سوچتا ہوں۔ دنیا اب سمٹ کر ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اپنی اسکلز اور ہنر کو دنیا میں وہاں بیچیں جہاں اسکی قدر ہو اسکی وہ قیمت ملے جو آپ کو بنیادی ضروریات زندگی کی فکروں سے آزاد کردے۔ اگر آپ مزدور نہیں ہیں تو جہاں اپنے لیے مواقع نظر آئیں وہاں وزٹ ویزہ پر چند دن نہیں بلکہ ایک دو ماہ مستقل قیام کریں اور پھر پائیدار فیصلہ کریں۔ انشا اللہ خیر ہوگی۔
میں کیونکہ پانچ سال پرائیویٹ سکول ٹیچر اور پھر دس سال سرکاری سکول ٹیچر رہا ہوں۔ تو اس طبقے کی اکثریت کو اپنی چادر کا توازن بنانے میں ہی پریشان دیکھا ہے۔ سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے اور پاؤں چھپ جائیں تو سر ننگا۔ میں اپنے شعبے کی بات کروں تو جتنی وہاں سالانہ تنخواہ ہے دنیا کے کسی بھی اچھے ملک بلکہ یہاں گلف میں ہی ایک ماہ کی تنخواہ یا آمدن پاکستانی گزٹیڈ اسکیل کی سالانہ تنخواہ کے برابر ہے اور پھر یہاں کی سیفٹی سیکیورٹی، ٹریفک قوانین کی پابندی، عزت جان مال کی حفاظت، خالص اور ملاوٹ کے بغیر غذا، بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے نجات، آج چینی نہیں مل رہی تو آج پٹرول نہیں پمپ مالکان دے رہے، آج فلاں مذہبی جلوس ہے تو آج ڈھمکاں گروپ سڑکوں پر ہے۔
وہ جیسا بھی ہے اپنا ملک ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ وہ اپنے لوگ ہے اپنی مٹی ہے۔ مگر خدا کی کائنات بہت بڑی ہے۔ یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ جہاں پیدا ہوئے وہ جگہ نہیں چھوڑنی، اس گاؤں شہر صوبے ملک سے دور کہیں نہیں جانا۔ سفر کیجیے، اکیلے یا بمع اہل و عیال۔ فیملی ساتھ رکھنا کوئی بڑا ایشو نہیں ہے۔ پہلے خود کو یعنی اپنی اسکل کو اس قابل بنائیے کہ آپ اتنا کما سکیں اور فیملی رکھیے ساتھ کیوں بیوی بچوں سے دور رہنا ہے؟ یہ ملک آپ کو ایسا کرنے کا نہیں کہتے کہ اہل عیال وہیں اپنے ملک ہی رکھو۔ آپ کی مہارت اور آمدن ایسی پابندیاں آپ پر لگاتی ہے۔ وقتی طور پر ایسا کرنا بھی پڑے تو بعد میں ساتھ رکھ لیں بچوں کو۔
کیونکہ ملک سے باہر اکثریت مزدوری کرتی ہے۔ تو ان کی ہی مثال دی جاتی ہے اور ملک سے باہر رہنے کو صرف مالی ترقی اور بڑی کوٹھیوں سے جوڑا جاتا ہے۔ پیسہ کمانے اور دکھانے کی دوڑ لگ جاتی ہے۔ زندگی کا بیلنس خراب ہوجاتا ہے۔ سالہا سال ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں، دوستوں سے دور رہا جاتا ہے۔ یہ اپنی چائسز ہوتی ہیں جانی۔ ذاتی اور انفرادی۔ اس سب کو پردیس کی زندگی سے جوڑا اور سب کے ساتھ منسلک کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہاں اچھے پروفیشنز میں اور تھوڑے بہتر لوگ بہت کم ہیں۔ وہ ڈسکشن کا حصہ نہیں بنتے۔ جو ایک بیلنسڈ لائف گزار رہے ہیں۔ انکے لیے دمام ریاض مسقط دوبئی لاہور اسلام آباد کراچی جیسا ہی ہے۔ ہر تہوار پر گھر جاتے ہیں۔ اپنی فیملی ساتھ رکھتے ہیں یا جب چاہیں اسے بلا لیتے ہیں جب چاہے خود گھر جاتے ہیں۔ وہ بہت بڑے محل اور کوٹھیاں نہیں بناتے، پیچھے رہنے والوں کو عیاشیاں نہیں کراتے، اپنی لائف کو ایک بہترین نظم کے ساتھ چلاتے ہیں اور ایسا کرنا ہی مناسب عمل ہے۔ دکھاوا پردیسی زندگی کا ایک ناسور ہے۔ جس نے یہ ختم کر لیا اس نے بہت بڑی آسانی پا لی۔
سفر باعث رحمت ہوا کرتے ہیں۔ ہجرت خیر لے کر آتی ہے۔ نام نہاد وطن کی محبت کے بخار میں تپتا ہوا اور بارڈرز کی قید میں جکڑا انسان یہ کبھی نہیں سیکھ پاتا کہ بارڈر کے پار اس شعبے کی قدر کیا ہے۔ یہی سکھایا گیا ہے وہاں ہم غلام ہونگے، وہ لوگ اپنے شہریوں کو فوقیت دیتے ہیں ہماری وہاں کوئی عزت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ ایک لمحے کو رک کر یہ سوچییے یہ سب آپ کو کس نے بتایا؟ آپ نے وہاں سکون سے جینا ہے اپنے وقت کی قیمت وصول کرنی ہے یا خود کو بہت بڑا چوہدری ثابت کرنا ہے؟ آپ جو ہیں جتنی عزت ملک میں ہے اتنی ہی باہر ملے گی۔ اچھی اور عالمی لیول کی جدید اسکلز کے ساتھ جہاں مرضی پوری دنیا آپ کی ہے۔

