Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Gaon Ki Misali Galiyan

Gaon Ki Misali Galiyan

گاؤں کی مثالی گلیاں

چند دن قبل کسی کام سے رات کو گجر ات کے ایک گاؤں منگلیہ میں جانا ہوا۔ ایک چیز دیکھ کر دل بہت ہی خوش ہوا۔ کہ سارے گاؤں والوں نے گلی بازاروں میں سیڑھیاں نکال کر راستے تنگ کرنے کی بجائے اپنی ہی جگہ میں سیڑھیاں یا اس گھر جیسی ڈھلان بنا رکھی ہے۔ یہ اسی گاؤں سے ایک گھر کے باہر فوٹو بنائی تھی۔ دروازہ گلی سے تقریباً 8 فٹ اندر لگایا گیا تھا۔ اور گاڑی بڑی ہی آسانی سے اندر جا سکتی تھی۔

ایک تو گلیاں بازار بہت ہی پیارے لگ رہے تھے۔ دوسرا اس گاؤں کے تقریباً ہر گھر میں کوئی بھی سپیشل پرسن اپنے واکر وہیل چیئر بیساکھیوں یا مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ بڑی ہی آسانی سے بغیر کسی کی مدد سے آجا سکتا ہے۔ اور سپیشل بچوں کے اپنے گھر ایسے بنے ہوئے کہ وہاں بھی وہ آسانی سے آجا نہیں سکتے۔ سپیشل بچوں کے اپنے گھر کے باہر تو ایک انچ کی ایک سیڑھی بھی نہ بننی چاہیے۔

اور اپنے گاؤں میں دیکھتا ہوں تو چار پانچ فٹ کی گلی میں دو سے تین فٹ کی سیڑھیاں لوگوں نے گلی میں بنا کر ساری گلی کا بیڑہ غرق کر دیا ہوا ہے۔ یہی حال بازاروں کا ہے۔ آدھے سے زیادہ بازار میں لوگوں نے تھڑے یا گھر کی ریڑھ بنا کر گزرنے والوں کے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ میری ہوش میں جن راہوں سے ٹریکٹر ٹرالی اور ٹرک گزر سکتے تھے۔ آج وہاں سے رکشہ مشکل سے گزرتا ہے۔ جو بھی نیا گھر بناتا ہے۔ گھر کے باہر سیڑھیاں یا اونچی ریڑھ بنا کر سارے راستے کو خراب کر دیتا ہے۔

یہ جاہلیت بس میرے گاؤں میں نہیں پنجاب کے اکثریتی علاقوں میں موجود ہے۔ راستوں میں سیڑھیاں نکالنا ایک تو قانوناً ممنوع ہے اور دوسرا اخلاقی طور پر مناسب نہیں۔ تیسرا اپنی بائیک گھر چڑھانے کے لیے جو روز عذاب بنا ہوتا وہ لوگوں کو نجانے کیوں 3 سے 7 فٹ تک اونچی سیڑھیاں بناتے سمجھ نہیں آتا۔ کئی گھروں میں تو دو لوگ آگے پیچھے سے پکڑ کر بائیک گھر چڑھاتے ہیں۔ اور چند ہزار لگا کر وہ اس روز کی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے نکل سکتے ہیں۔ مگر انہیں یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی۔

ہم زندگی میں ایک ہی بار گھر بناتے ہیں۔ نہیں معلوم ہوتا کہ باہری اور اندرونی دو الگ لیول کیا ہوتے ہیں۔ گھر تعمیر کرنے والے مستری تو گائیڈ کیا کریں۔۔ اس چیز میں زیادہ قصور وار وہ لوگ ہیں۔ لوگ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں اسی وجہ سے جا رہے ہیں۔ کہ وہاں اس سیاپے سے جان چھوٹی ہوئی ہے۔ گھر کا بیرونی لیول ایک حد سے اوپر کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ آپ نیا گھر بنا رہے ہیں۔ تو گیراج باہری سڑک یا راستے سے بس تھوڑا سا اونچا رکھیں۔

گھر کے اندر سے سیڑھیاں چڑھائیں۔ اپنی بھی سواری آسانی سے گھر آجائے گی اور راستہ بھی تنگ نہیں ہوگا۔ جب باہر سے راستہ اونچا ہو گیراج اونچا کر لیں۔ اور ایسا عموماً پندرہ بیس سال بعد ہوتا ہے۔ تب تک ہم صبح شام سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر ایویں ہی ہلکان ہوتے رہتے۔ جو لوگ سیڑھیاں بنا چکے ہیں۔ اور خود بھی روز بائیک چڑھانے اتارنے کا سیاپا کرتے ہیں۔۔ وہ چند ہزار کا خرچہ کرکے دروازے کو ڈاؤن کر لیں۔ اور ہمیشہ کے لیے آسانی لیں۔ باہر کا راستہ بھی کھلا کریں۔

نیا گھر بنانے والوں کو اس چیز کا شعور نہ ہو۔ جو اکثریت کو نہیں ہوتا۔ تو انہیں پیار سے سمجھائیں۔۔ سختی سے روک سکتے تو روکیں۔ کہ انکی اس حرکت سے سب سے زیادہ ذلیل ساری عمر وہ خود ہونگے۔ دروازے کا لیول ڈاؤن رکھ کر اپنے گھر کے اندر سے سیڑھیاں چڑھائیں۔ یا دروازے ہی اس تصویر والے گھر کی طرح پیچھے کرکے لگا لیں۔

صحن کا پانی بھی گلی یا بازار میں نہ جانے دیں۔ یہ بھی جاہلیت ہی ہے۔ کہ آپکی وجہ سے راہ گیر پریشان ہوں۔ نکاسی کا انتظام کریں۔ باہر والے دروازے کے پاس ایک ہول بنائیں جہاں سارے گھر یا صحن کا پانی اکٹھا ہو کر نالی میں جائے۔ نہ کہ آزادانہ گلی میں چلا جائے۔ اس گھر میں وہ بھی انتظام اچھے طریقے سے کیا گیا ہے۔

Check Also

Tanhai Ke So Saal

By Syed Mehdi Bukhari