Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Faisla Aap Ka

Faisla Aap Ka

فیصلہ آپ کا

مجھے تین دن شب و روز ایک ایسے قریبی دوست کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ جو بارہ سال جنوبی کوریا رہے۔ وہ جب کوریا گئے تو انکی تنخواہ پچاس ہزار پاکستانی روپے بنتی تھی اور بارہ ہزار روپے کا تولہ سونا تھا۔ یعنی وہ ایک ماہ میں چار تولہ سونا کما رہے تھے۔ میں نے ان سے کنفرم کیا یہ ٹیک ہوم انکم تھی۔ چھ سال وہ لیگل رہے اور پھر اگلے چھ سال غیر قانونی۔ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستانی کرنسی کی قدر گرتی گئی۔ مگر انکی تنخواہ انٹرنیشنل کرنسی اور وہاں کے لیبر ریٹس بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے مسلسل بڑھتی رہی۔ انکے مطابق انکے واپس آنے تک انکی ایک ماہ کی تنخواہ سے چار پانچ تولے سونا خریدا جا سکتا تھا۔

ایک سال کا سونا ہوا بارہ مہینے ضرب چار تولے برابر 48 تولے اور پہلے چھ سال کا 288 تولے۔ اگلے چھ سال کا بھی 288 تولے۔ کل ملا کر 576 تولے۔ مگر انکے مطابق وہ اٹھارہ ماہ پاکستان رہے اور اس وقت کی انکم نہیں تھی۔ اٹھارہ ضرب چار برابر 72 تولے سونا مائنس کر دیں تو باقی سونا بچا 504 تولے۔ یہ انکی ان بارہ سالوں کی کل کمائی تھی۔ آج کے ریٹ سے وہ رقم پاکستانی روپوں میں 18 کروڑ سے اوپر بنتی ہے۔

انکے مطابق انکے گھر کا ماہانہ خرچ ہمیشہ لگ بھگ ایک تولہ سونے کے برابر رہا ہے۔ بارہ سال کو بارہ ماہ سے ضرب دی تو 144 تولے سونا گھر خرچ تھا۔ پانچ سو چار میں سے یہ 144 تولے سونا مائنس ہوا تو باقی بچا 360 تولے سونا۔ تقریباََ تیرہ کروڑ روپے۔

وہ تیرہ کروڑ روپے آج کہاں ہیں؟ وہی کیا جو باہر مزدوری کرنے گیے ہوئے لوگ کرتے ہیں۔ پلاٹ مکان دکان خرید لی۔ اب ان تیرہ کروڑ روپے کے عوض انکے پاس تین مکان ہیں۔ جن کی قیمت دو کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے اور ان سے ماہانہ کرایہ ایک لاکھ روپے وصول ہوتا ہے۔ سونا ہی خرید کر رکھا ہوتا تو تیرہ کروڑ کا تھا پراپرٹی دو کروڑ کی ہے۔ یعنی سیدھا گیارہ کروڑ کا نقصان۔

اور اگر ان پیسوں سے کوئی کام کیا ہوتا۔ ان کو کہیں انویسٹ کیا ہوتا۔ بدلتی ہوئی دنیا کے معاشی نظام اور مالیاتی پالیسیوں کے متعلق جانا ہوتا۔ خود سے پہلے پردیس میں عمریں گال کر واپس آنے والوں کے حالات دیکھے ہوتے تو شاید ایسا نہ ہوتا جو ہوا۔

جو عقل سمجھ تھی وہ ہی کرنا تھا۔ وہ ہی کیا گیا اور کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ آج انکی ماہانہ آمدن ایک لاکھ رینٹل پراپرٹی ہے اور ایک لاکھ ہی انکی سیلری ہے۔ یعنی اب ماہانہ سیلری ایک تولہ سونا بھی نہیں ہے۔ جو جوانی میں چار تولے تھی۔

انکے ایک اور دوست جو اتنا ہی وقت انکے ساتھ اسی ملک میں رہے اور کم و بیش اتنے ہی پیسے انہوں نے بھی کمائے۔ انہوں نے کاربار کیا۔ بہت پیسے گنوائے۔ تین چار بار زیرو ہوگئے۔ ہمت نہیں ہاری پھر زیرو سے شروع کر دیا اور صرف چند سال قبل انکے پاؤں کاروبار میں جمے۔ آج انکے بزنس میں جو ملازم کام کرتے ہیں انکی ماہانہ تنخواہ ستر اسی لاکھ روپے ہے۔ کاروبار کا حجم آپ خود سمجھ لیجیے۔

آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہیں۔ آج ماشا اللہ بہت اچھا کما رہے ہونگے۔ خرچوں سے بچ جانے والے پیسوں کو کہاں لگانا ہے۔ پراپرٹی لینی یا کوئی زرعی زمین یا کمرشل دکان وغیرہ۔ جو ایک آؤٹ ڈیٹڈ کانسیپٹ ہے۔ یا ان سے کوئی بزنس کرنا ہے، کوئی ڈیجیٹل یا فزیکل اسٹارٹ آپ شروع کرنا ہے۔ کہیں انویسٹ کرنا ہے، شئیرز خریدنے ہیں، کسی کاروبار میں شراکت کرنی ہے۔ کرپٹو کرنسی لینی ہے، سونا یا ہیرے خریدنے ہیں۔ یا کچھ بھی کرنا ہے۔ وہ دیکھ لیجیے سمجھ لیجیے۔ آپ ہمیشہ اتنے پیسے نہیں کما رہے ہونگے جتنے آج کما رہے ہیں۔ اگر پاکستان واپس جائیں گے کبھی تو وہاں کیا کریں گے۔ جہاں ابھی ہیں وہاں اب ساری عمر مرتے دم تک تو اتنی لمبی یہ ڈیوٹی یا مزدوری تو نہیں کر سکتے ناں؟

آپ ان پڑھ ہیں یا پڑھے لکھے۔ جہاں بھی ہیں جیسے بھی پہنچے۔ اگلے دس بیس سال ایسے گزرنے آپ کو پتا بھی چلنا۔ جو کچھ پلاننگ وغیرہ پینڈنگ کر رکھا ہے۔ اسے خیالوں کے صندوق سے باہر نکال کر بازار میں بیچیے۔ کتنی بار گھاٹے کھائیں گے؟ ہر نقصان ایک لرننگ دے کر جائے گا اور پھر جلد یا بدیر ملنے والی کامیابی سارے خسارے پورے کرے گی۔ بہت بڑا اگر کچھ نہیں بھی کر پاتے۔ یہ احساس تو پاس ہوگا کہ کوشش کی تھی۔ تن آسانی میں وقت برباد نہیں کیا تھا اور اگر آپ کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ کی وجہ سے کتنے لوگ روزگار پائیں گے۔ سوچ کر خوشی تو محسوس کیجیے۔ آپ کو ایمپلائی سے ایمپلائر کی پرموشن کوئی اور نہیں صرف آپ ہی دے سکتے ہیں۔ جی بلکل

صرف آپ۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam