Apne Dardon Ke Rafugar
اپنے دردوں کے رفوگر

میرے موبائل میں 4590 فون نمبرز محفوظ ہیں۔ یہ سلسلہ شروع ہوا سال 2004 سے اور آج تک یہ نمبر بڑھتا چلا گیا۔ ایک دن فری تھا تو A سے شروع کرکے Z تک تمام نمبرز کے نام پڑھے اور یاد کرنے کی کوشش کی یہ کون کون لوگ ہیں اور یہ بھی کہ ان سے آخری بار کب بات ہوئی تھی۔ موبائل نوٹس میں ہی کچھ ڈیٹا لکھا جو شئیر کر رہا ہوں۔ ان میں سے دو ہزار کے قریب لوگ میری یاداشت میں تھے۔ ایک ہزار کے قریب کے چہرے یاد تھے اور آخری بار اس سال 2025 میں کال میسج پر بات صرف پچاس لوگوں سے فون پر ہوئی تھی۔ ان پچاس میں سے بھی بیس لوگ نئے تھے تو ایک دو سال میں ہی تعلق داری دوستی کے سرکل میں آئے۔
سوچتا ہوں کہ ہمیں یہ غلط احساس ہوتا ہے۔ کہ ہم آج ایک سوشل دنیا کے باسی ہیں۔ حقیقت اس سے بلکل مختلف ہے۔ ہم میں سے اکثریت کے پاس شاید ایک بھی ایسا انسان نہیں ہے۔ جس کے ساتھ اپنا سب کچھ شئیر کر سکیں۔ اپنے دکھ درد، اپنی خوشیاں اور غم اور وہ مشکل ترین نا ختم ہونے والی اعصابی و نفسیاتی و جذباتی جنگیں، جن سے ہم اکیلے لڑ رہے ہیں۔ کوئی نہیں ایسا کہ جسے بس بتا سکیں کہ ہم مقروض ہیں اور تم سے کوئی بھی مالی مدد نہیں چاہئیے بس دل ہلکا کرنے کو بتا رہا ہوں کہ یہ سب اپنی بیوی بچوں والدین کو نہیں بتا سکتا۔ کام کا پریشر اور مہنگائی کس تیزی سے بڑھی کہ آمدن اخراجات سے بہت پیچھے رہ گئی۔ کوئی بھی آس پاس ایسا نہیں تھا جو اس چیز میں بیلنس بنایے رکھنے کی ترغیب دیتا۔ کہ جو کر رہے ہو چند سال بعد یہی کرکے دو وقت کی روٹی رزق حلال سے نہیں پوری کر سکو گے اور ہمارے پاس کہاں وقت ہوتا ہے ایسی سوچیں سوچنے کا اور کوئی نیا قدم اٹھانے کا؟
کس نے کیوں چھوڑ دیا، کس نے کب تک استعمال کیا، کوئی کیوں ساتھ تھا، جب پردے ہٹتے ہیں وقت گزرتا ہے، نقابوں میں چھپے چہرے عیاں ہوتے ہیں۔ تو جو ٹوٹ پھوٹ جسم و جان کے اندر ہوتی ہے، جو زخم روح کو لگتے ہیں وہ کسے دکھائیں؟ جو ہمیں بیوقوف نہ کہے، جج نہ کرے، نصیحتیں نہ کرے، بس یہ کہے کہ زندگی اسی کا نام ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ لوگ ایسے ہی لائف میں آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ وقت لگے گا تم سنبھل جاؤ گے۔ چلو کچھ ایسا کرتے ہیں کوئی ایسی بات کرتے ہیں جو خیالوں کو کچھ وقت کے لیے ذہن سے نکال دے۔ ہم ان لمحوں کو جی سکیں جن میں بھی ہم ابھی موجود ہیں۔ مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ سب کس سے کہیں؟ یا ہم سے کوئی ایسا کہہ سکے، ہم سننے والے بن جائیں۔ تو کوئی بھی کہنے یا سنانے والا نہیں ہوتا۔
ہم سب اپنے دردوں کے رفوگر خود ہی بنے ہوئے ہیں۔ کہنے کو ہمارے ساتھ ایک زمانہ چلتا ہے اور دل کی بات کھل کر سنا دینے کو شاید کوئی ایک بھی فرد دستیاب نہ ہو۔ تنہائی ہے ہجوم میں بھی اور راتوں کی خاموشی میں بھی۔ اکیلا پن ہے اور شاید ہم سب اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا سیکھ رہے ہیں۔ جو کوئی بھی اس پر بات نہیں کرتا۔ بس درد سہتا، سب کچھ چھپاتا جیتا، کبھی جیتتا اور کبھی زندگی سے ہارتا چلا جا رہا ہوتا ہے۔

