Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Akhir Kyun?

Akhir Kyun?

آخر کیوں؟

اکیس سال پہلے میں گاؤں سے شہر حافظ آباد کی طرف کالج کی تعلیم حاصل کرنے نکلا۔ پھر حافظ آباد سے لاہور کا سفر شروع ہوا تو ٹیوٹا ہائی ایس میں تین کی جگہ چار سواریاں بٹھائی جاتی تھیں۔ مجھے کسی نے نہیں بتایا اپنے ہی دماغ نے کام کیا کہ دو سیٹیں لے کر اپنے اور اپنے ساتھ بیٹھے دو اور لوگوں کے لیے کتنی آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ چنگ چی رکشے پر بھی دو سیٹیں لینے لگا۔ وہ دن اور آج کا دن رکشوں اور ٹیوٹا ہائی ایس پر ہمیشہ دو سواریوں کا کرایہ ہی دیتا ہوں اور تنگ ہو کر سفر کرنے کی بجائے بہت آسانی رہتی ہے۔ ساتھ بیٹھی سواریاں سمجھتی ہیں شاید آگے سے کوئی سواری بیٹھے گی۔

آج گوجرانوالہ سے حافظ آباد کے لیے لوکل سفر کرنا تھا۔ اڈے پر گیا اور اڈا مینجر سے کہا کہ دو سیٹیں لینی ہیں میں اکیلا ہی ہوں۔ بولا آپ ابھی باہر بیٹھیں اندر گرمی بہت ہے۔ جب گاڑی چلنے لگی تو بٹھا دونگا۔ خود ہی بولا اگر کوئی ملازم نہیں آیا یا کوئی بی بی سواری نہ آئی تو باؤ جی آپ فرنٹ پر بیٹھ جانا۔ میں نے کہا اوکے۔

بی بی سواریاں تو کئی آئیں اسکے کہنے کے باوجود کوئی بھی فرنٹ سیٹ پر نہیں بیٹھی۔ شاید اب خواتین کو شعور مل چکا ہے کہ ڈرائیور طبقہ کیسا ہوتا ہے۔ کوئی ملازم بھی نہیں آیا تو مجھے فرنٹ سیٹ مل گئی۔ ابھی دوران سفر ہی یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ میں نے ڈرائیور بھائی سے پوچھا کہ ملازمین کو فرنٹ پر بٹھانے کی ترجیح کیوں دیتے ہیں؟ بولا کہیں انکا کوئی پیٹی بھائی روک لے تو پروٹوکول مل جاتا ہے اور چالان سے بھی بچ جاتے ہیں۔ ملازمین سے اسکی مراد پولیس ملازم اور ٹریفک وارڈن ہے۔ میں نے پوچھا تم لوگ کاغذات پورے رکھا کرو۔ گالی دے کر بولا جب وہ روک لیں تو مجھ سمیت ساری گاڑی کے پاس اپنا والدین اور دادا دادی کا برتھ سرٹفکیٹ اور ڈرائیونگ لائسنس بھی موجود ہو وہ چالان کر دیتے ہیں۔ کہتا میرے پاس سب کچھ ہے آپ میرے ساتھ آنا اگر کہیں روک لیا گیا۔ سیٹ بیلٹ پر چالان کر دے گا۔ میں نے کہا آپ سیٹ بیلٹ لگا لو؟ بولا گرمی تو دیکھیے دوزخ کی کھڑکی کھلی ہوئی ہے۔ بڑی الجھن ہوتی ہے۔ میں نے کہا اچھا اپنا لائسنس تو دکھاؤ۔ وہ کار کا تھا مطلب ایل ٹی وی لائسنس ہی نہیں۔ میں نے پوچھا روٹ پرمٹ ہے؟ بولا میں اپنے گاؤں سے سواریاں لے کر گوجرانوالہ جاتا ہوں۔ اڈا ٹو اڈا نہیں چلتا۔ یہ تو آج اڈے میں گاڑی لگا لی۔ اسکی مجھے ضرورت نہیں ہوتی۔ میں نے کہا گاڑی آپ کے نام پر ہے؟ بولا بائیو میٹرک کی شرط حکومت ختم کرے تو نام پر کروائیں۔

میرا سوال پولیس اور ٹریفک ملازمین سے ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو صرف اس لیے بچاتے ہیں کہ وہ آپ کو فرنٹ سیٹ پیش کرتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ سب ملازمین کرایہ دیتے ہیں۔ تو آپ ان کو انکے جرم کی سزا کیوں نہیں ملنے دیتے؟ آپ لوگ ہی اگر ایسا رویہ رکھیں گے تو ان لوگوں کا حکومتی اداروں کے متعلق کیا گمان بنے گا؟ آپ نے قانون کی عملداری کرنی ہے اور آپ ان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اوور لوڈنگ، اوور سپیڈنگ، لائسنس کا نہ ہونا، گاڑی کی اونر شپ کا نہ ہونا سب قابل سزا جرم ہیں اور ان سب جرائم کے آپ خود محافظ بن جاتے ہیں کہ وہ آپ کو لولو پوپو کر لیتا ہے سر سر کہہ دیتا ہے۔ یقیناََ یہ ایشو دیگر شہروں میں بھی ہوگا۔ اب تو ملازمین پڑھے لکھے ہیں نجانے کیوں ٹریفک قوانین کی عملداری کو اہم نہیں سمجھتے اور نتیجتا آیے روز ٹریفک حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari