Aakhir Ghalti Kahan Par Ho Rahi Thi
آخر غلطی کہاں پر ہو رہی تھی
میں ماضی میں ایک معروف پیشہ "ماچھی" کا کام کرنے والے ایک دیہاتی "کمی" کا بیٹا ہوں اور مجھے اس بات پر فخر ہے میرے ماں باپ نے مجھے رزق حلال کما کر کھلایا۔ میری ماں کا گاؤں میں اکلوتا تندور ہوا کرتا تھا ایک بھٹی تھی جہاں سے سارا گاؤں چاول چنے بھنوایا کرتا تھا اور میرے ابا جی چوہدری صاحب کے مزارع تھے۔ انکے ڈیرے پر رہنا حقہ ڈالنا انکے گھر کے کام کاج کرنا اور شام کو گھر آجانا۔ میں میٹرک پاس نہ کر سکا اور چوہدری صاحب یونین کونسل کے چئیرمین بنے تو ان کا ڈرائیور بھرتی ہوگیا۔ سال تھا دو ہزار دو اور میری تنخواہ تھی تین ہزار ماہوار۔
یہ کہنا تھا میرے بہت عزیز دوست ماجد بن رحیم بھٹی صاحب کا جو آج ماشا اللہ ایک پلاسٹک کی پراڈکٹس بنانے والی فیکٹری کے مالک ہیں اور انکے پاس سو کے قریب ورکر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اسلام آباد ہم ایک ڈنر میں شریک تھے۔ تو مجھے ایک بات سننے کو ملی۔ کمپنی انسان کو جتنی تیزی سے بدلتی ہے اتنی سپیڈ سے کوئی دوسری شے ہماری سوچ اور حالات نہیں بدل سکتے۔ انہوں نے سوچنا شروع کر دیا کہ ہماری تو نسل در نسل کمپنی بڑے لوگوں اور گاؤں کے چوہدری صاحب کے ساتھ رہی ہے۔ وہ ہمیں گھر کا فرد کہتے اور سمجھتے آئے ہیں۔ انکے گھر داخل ہونے کے لیے ہمیں دستک کی بھی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ انکے ساتھ کھانا پینا انکے کپڑے جوتے پہن لینا۔
آخر غلطی کہاں پر ہو رہی تھی کہ ہمارے حالات کیوں نہ بدلے؟ وہ کہتے ہیں ایک بار وہ پلاسٹک کے چھابے لینے مارکیٹ گئے اور وہاں لکھا تھا کہ ضرورت برائے فیکٹری ورکر۔ انہوں نے دکان دار سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتائی کہ انکی اپنی ہی فیکٹری ہے اور ورکر درکار ہیں۔ تنخواہ پلس اوور ٹائم لگا کر ٹارگٹ پروڈکشن دے کر چھ سات ہزار کمایا جا سکتا تھا۔ فورا ڈرائیونگ چھوڑی اور فیکٹری جائن کر لی۔ جوانی تھی جوش تھا کام کی لگن تھی محنت کی عادت تھی تو چند ہی سال میں ورکر سے فورمین پر پرموشن ہوگئی اور پھر مشینری کو تھوڑا بہت مرمت کرنا بھی آگیا۔
فیکٹری کا مالک ایک نئے شہر میں فیکٹری بنانا چاہتا تھا تو اس نے ماجد صاحب کو خود ہی انکی وفاداری اور محنت دیکھ کر شراکت داری کی آفر کر دی۔ ماجد صاحب کے پاس دو آپشن تھے جمع پونجی سے شادی کرتے یا گھر بنا لیتے۔ اپنے مالکوں کے مشورے سے وہ رقم بزنس میں انویسٹ کر دی۔ وہ بہت معمولی رقم تھی۔ دس سال لگے اور ماجد صاحب اسی فیکٹری کے اکلوتے مالک بن گئے۔ اللہ نے گاڑی دی شادی ہوئی، گاؤں سے فیملی شہر ایک اچھی سوسائٹی میں شفٹ کر لی۔ گو ابھی گھر کرائے کا ہے مگر پاکستان میں کرائے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بجائے اس کے کہ دو کروڑ روپے لگا کر گھر بنایا جائے۔
کل ہم ملے تو مجھے بتانے لگے خطیب میں چوہدری صاحب کے پاس رہتا تو کبھی بھی چوہدری تو نہیں بن سکتا تھا؟ وہ بہت اچھے اور بیبے انسان ہیں جب میں نے بزنس شروع کیا تو میں انکے پاس سوالی بن کر آیا انہوں نے مجھے دس لاکھ روپے قرض حسنہ دیا۔ میں نے ان سے مانگا پانچ لاکھ تھا اور مجھے کہا بلکہ لکھ کر دے دیا کہ دس سال بعد دس لاکھ ہی لوٹا دینا۔ تم نے تمہارے ابا نے دادا نے ہماری بڑی خدمت کی ہے۔ وہ مجھے میرے سگے والد کی مانند ہیں۔ میرے بڑے کام ایک فون پر نکلوا دیتے ہیں۔ مگر میں انکے سایے میں بڑا نہیں ہو سکتا تھا اور وہ تو مجھے روک بھی نہیں رہے تھے۔ بلکہ ہمیشہ سپورٹ کیا۔ محبت دی مان دیا اپنا بیٹا کہا۔
یہ ہمارے اپنے اوپر منحصر ہوتا ہے کہ ہم خود کو کہاں رکھتے ہیں۔ اپنا مقام کہاں اور کیسا دیکھتے ہیں۔ کیسی کمپنی میں جائیں تو Grow کر سکتے ہیں۔ ایک آم کے درخت کو سکردو کے پہاڑ پر لگا کر ہم اس سے ملتانی آم جیسا پھل تو نہیں لے سکتے نا؟ ہمیں اپنی جگہ خود تلاش کرنا ہوتی ہے۔ ہمیں اپنا سفر خود طے کرنا ہوتا ہے۔ اپنے حصے کی مشکل خود اٹھانی ہوتی ہے اور درست سمت میں کی گئی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ کہتے ہیں میری جگہ ایک اور لڑکے نے چوہدری صاحب کے پاس ڈرائیوری جائن کی تھی۔ اسکی آج تنخواہ تیس ہزار روپے ہے اور میرے پاس جو ملازم کام کرتے ہیں انکی صرف ماہانہ تنخواہ میں کئی ملین ادا کرتا ہوں۔
آپ اپنا دیکھئے کہ کیسی کمپنی میں ہیں؟ کمپنی ساتھ والی یعنی کیسے لوگوں میں رہ رہے ہیں؟ کیا آپ وہاں رہتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو ماجد کی طرح ڈرائیونگ چھوڑ دیجئے آپ چوہدری صاحب کی گاڑی چلا کر کبھی بھی چوہدری نہیں بن سکتے۔