Youm e Pakistan Aik Nayi Qarardad Ka Muntazir
یوم پاکستان ایک نئی قرارداد کا منتظر
مارچ کا مہینہ اہم سے اہم ترین ہوتا جا رہا ہے، خواتین کا عالمی دن اسی مہینے میں منایا جاتا ہے، جنگلی حیات کا دن، شاعری کا دن، ٹی بی کا دن اور پانی کا دن بھی مارچ کے مہینے میں ہی منایا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ اور بھی دن ہیں جو اس مہینے میں منائے جاتے ہیں اور اب اس فہرست میں ایک اہم ترین دن امت مسلمہ کیلئے شامل ہوا ہے جو کہ پہلا دن ہوگا جو اسلامو فوبیہ کے حوالے سے ہر سال پندرہ مارچ کو منایا جائے گا۔
پہلے تو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب کی جنرل اسمبلی میں جو اسلامی اور غیر اسلامی دنیا کے رویوں کا فرق واضح کیا اوراس تاریخی تقریر نے دنیا کے سوچنے کے زاوئیے کو تقریباً بدل کر رکھ دیا، اس تقریر سے یہ ہوا کہ یکطرفہ مفاد کی حکمت عملی سے نجات مل گئی۔ وزیر اعظم پاکستان نے یوں سمجھ لیجئے کہ اقتدار ناصرف پاکستانیوں کیلئے لیا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی زبوں حالی کو بھی بہتر کرنے کیلئے لیا۔ جس کا منہ بولتا ثبوت مذکورہ بالا تقریر ہے۔
پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں جمع کرائی جانے والی قرارداد کی بدولت ہر سال پندرہ مارچ کی تاریخ کو اسلام فوبیہ کا دن منایا جائے گا۔ تاریخ میں اسے ہمیشہ تاریخی حیثیت حاصل رہے گی اور سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اسے اسلام کی فتح کا دن بھی کہا جاسکتا ہے۔ کیا یہ آلو پیاز کی قیمتوں پر قابو پانے سے کہیں بڑا کا م نہیں تھا۔
مارچ کے مہینے کی تاریخی حیثیت سے ہم تمام پاکستانی بخوبی واقف ہیں اس کی بنیادی وجہ ہمارا پاکستانی ہونا ہے۔ 23 مارچ 1940 کو جو تاریخی قرارداد پیش کی گئی، اس قرارداد میں ایک الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ مسلمانانِ ہند قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قراداد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نکل کھڑے ہوئے اور اس عزم اور حوصلے سے نکلے کہ سات سال کی انتہک جدوجہد کے بعد جس میں لاتعداد انسانی جانوں کی قربانی دی گئی، عزتیں پامال ہوئیں اور زر و زمین کے نقصان کا تو کوئی حساب نہیں، تب کہیں جاکر سرزمین پاکستان کی سرحدوں کا تعین ہوا۔
ہم پاکستانی ہر سال ا س تاریخی دن کو بھرپور طریقے سے مناتے ہیں اور اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا یہ دن پاکستان بننے کی بنیاد بنا اقبال کا خواب اگر اس دن عیاں نا ہوتا تو شائد ہم پاکستانی کبھی بھی خواب سے تعبیر کے سفر کا مطلب نہیں سمجھ سکتے تھے۔ اسلام کی سربلندی کیلئے اور اسکے لئے ایک الگ خطہ زمین کے تقاضے، سرزمین کی آزادی کیلئے ایک اور اپنے سے کہیں گنا بڑے مخالف سے لڑجانے کی بھی ایسی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ مکہ سے مدینے کی ہجرت کے بعد ہندوستان سے پاکستان کی طرف دوسری بڑی ہجرت قرار پائی۔
یقینا قوموں کی سالمیت کا دارومدار انکے نظریات پر ہوتا ہے اور نظریات کی پاسداری ملکی استحکام اور دنیا کے سامنے شناخت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ الحمدوللہ پاکستان دنیا کی گنی چنی نظریاتی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ جو قو میں اپنے نظریات سے انحراف کرتی ہیں وہ پستی کا شکار ہوتے ہوئے تاریخ کے سیاہ اندھیروں میں گم ہوجاتی ہیں۔
ہم پاکستانیو کو آزادی کے پہلے دن سے اپنے نظرئیے سے بھٹکانے کی کوشش شروع کردی گئی جس کے لئے پہلے تو بیرونی طاقتوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے آس پڑوس سے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جاتے رہے، پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے یہ ذمہ داری لے لی اور قوم کو الجھانے اور طرح طرح سے ڈرانے کا کام کیا جاتا رہا، اسی اثناء میں وہ دور بھی شروع ہوگیا جب نا صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کر کے رکھ دی گئیں اور مسلمان زبوں حالی کا اتنے شکار ہوگئے کہ دنیا میں مسلمان شرمندگی کی علامت بن کر رہے گئے۔ اس برے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاں جہاں ممکن ہوسکا بری طرح سے پسپا کیا گیا اور نسل کشی کی طرز پر قتل و غارت کی گئی جسکے لئے من گھڑت الزامات لگائے گئے اور بدقسمتی یہ کہ اپنوں نے بھی دنیاوی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔
رات اور دن کی تبدیلی قدرت نے بطور بہترین مثال روزانہ کی بنیاد پر یاد دہانی کرانے کیلئے رکھی ہے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، موسم سے سمجھ لیجئے کہ کبھی راتیں بڑی ہوتی ہیں تو کبھی کے دن یعنی کبھی خوشی دیر تک رہتی ہے اور کبھی غم۔ وقت نے ہلکا سا بدلاءو لانے کی کوشش کی مسلمانوں میں چند حکمرانوں کو یہ طاقت دی کے وہ اپنے فیصلے خود کریں اور اپنے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ بدترین حالات میں مہاتیر محمد، طیب اردوان نے کلمہ حق بلند کرنے کی کوشش کی جو کسی حد تک کارگر ثابت ہوئی پاکستان میں عمران خان صاحب نے تبدیلی کا نعرہ لگایا ہوا تھا جسے ان لوگوں کی پشت پناہی کی بنیاد پر کافی فروغ ملا۔
عمران خان نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ہر ممکن کوشش کی کے ناصرف ملک میں قانون کی بالادستی کو نافذ کیا جائے بلکہ پاکستان سے بدعنوانی اور بدعنوانوں کو نکال باہر کیا جائے، پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ ارباب اختیار کو قانون کے سامنے پیش ہونا پڑے لیکن ایسا ہوا۔ دوسری طرف امریکہ کی عالمی مداخلت میں پسپائی کا سلسلہ شروع ہوا۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کو دنیا میں بدلتے ہوئے طاقت کے کھیل میں حصہ لینے کا ایک بار پھربھرپور موقع ملا جس سے فائدہ اٹھانے کے اقدامات بھی اعلی سطح پر کئے گئے، وزیراعظم عمران خان کا روس کا دورہ اس بات منہ بولتا ثبوت تھا۔ دنیا میں تو طاقت کے توازن کا عمل شروع ہوچکا ہے لیکن اس عمل کو عدم توازن کی طرف دھکیلنے میں پاکستان کی وہ تمام سیاسی جماعتیں جو ہمیشہ سے امریکہ نواز رہی ہیں ایک طرف کھڑی ہوگئی ہیں یا شائد کھڑی کردی گئی ہیں۔ یہ وہ سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے کبھی بھی ملک کی سالمیت اور بقاء کو خاطر میں نہیں رکھا۔
تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک دور حکومت ایسا بھی آیا تھا کہ جس میں مہنگائی بے قابو ضرور تھی لیکن اس حکومت نے ملک کا سارا گند اور گندگی ایک جگہ جمع کردیا تھا اور ہر دیکھنے والی آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان ملک کے مفاد میں ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ملک کو پسپائی کی دلدل میں دھکیلنے والوں کا ٹولہ ہے۔
ہمیشہ یہ سنا ہے، پڑھا ہے اور سمجھا ہے کہ حق رہنے کیلئے ہے اور باطل ختم ہونے کیلئے۔ اب وقت کس کا ساتھ دینے والا یہ فیصلہ آسمانوں میں ہوچکا ہوگا، سچائی اور آگاہی کا طوفان کہاں جا کر تھمنے والا ہے، کیا عوام ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انکے مقدس ووٹ کیساتھ کیا کیا جارہا ہے۔
23مارچ 2022 قوم کو ایک بار پھر قرارداد مقاصد پیش کرنی ہوگی، جس میں یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ مزید کسی ایسی سوچ یا نظرئے کی غلامی نہیں کرینگے جو ملک کی سالمیت کے خلاف ہو جو اسلام کے خلاف ہو جو اسلاف کے خلاف ہو۔ اب وقت نے ثابت کرنا ہے کہ یہ قوم، قوم بن چکی ہے یا پھر ابھی بھی ریوڑ ہی ہے۔ ہمارا واسطہ ان لوگوں سے پڑا ہے کہ جنہیں صرف اور صرف کرسی کی پڑی ہے۔