Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khalid Zahid
  4. Muzayyan Hain Mere Khawab

Muzayyan Hain Mere Khawab

مزین ہیں میرے خواب

سماجی ابلاغ کی مرہونِ منت لکھنے والوں کے آپسی جان پہچان کو بہت تقویت پہنچی ہے، پذیرائی کا عنصر بھی بڑھ گیا ہے جسکی وجہ سے لکھنے والوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، کورونا اس میں مزید عمل انگیز ثابت ہوا۔ کورونا میں آن لائن ملاقاتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو کہ اب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ مزید بڑھتا ہی جا رہا ہے اور باقاعدہ ایک طرز ملاقات بن گیا ہے۔ وقت کی قلت کو مدِنظر رکھیں تو یہ اچھا عمل ثابت ہوا ہے۔

آج دنیا میں نقل و حرکت کی مختلف پریشانیوں سے بچنے کیلئے جدید دنیا نے اس نظامِ ملاقات کو بہتر سے بہترین بنانے کی ہر ممکن کوشش بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ وقت اور حالات انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں یہ انسان کے جاننے کیلئے کبھی بھی ضروری نہیں رہا وہ تو بس کسی بہتے پانی کے بہاؤ کی مانند چلتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ابدی سمندر کا حصہ بن جاتا ہے۔

قدرت نے احساس کے جذبے سے سرشار کچھ خاص لوگ بنائے ہوئے ہیں جن کا کام غیر مرئی مخلوق کی طرح نہ دیکھائی دینے والے خیالات کو لفظوں کا لبادہ اڑھا کر قلم سے قرطاس کی زینت بناتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو وقت کی بے رحمی کو بھی کھلے دل سے قبول کرتے ہیں اور ساتھ نبھاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی لغت میں لفظ بھاگنا نہیں ہوتا یہ ساتھ رہنے اور رکھنے پر یقین رکھتے ہیں جس کے لئے یہ اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، بس مل جاتے ہیں۔

مارچ 2022 بہار کے موسم میں جب قدرت اپنی رعنائی کے جلوے ہر طرف بکھیر رہی ہوتی ہے اور ماحول بغیر کسی بشری محنت کے رنگوں اور خوشبوؤں سے آراستہ ہوا ہوتا ہے۔ ایسے موسم میں رنگوں اور خوشبوؤں جیسے لفظوں سے آراستہ ایک کتاب کی رونمائی کی اطلاع نے ماحول کو مزید پروقار بنا دیا۔ شعر الفاظ سے ترتیب پاتے ہیں جو الفاظ کا تعلق احساس کی شدت اور سوچ کی گہرائی و گیرائی کا مرکب ہوتے ہیں۔

پھر لکھنے والے کے الفاظ کا چناؤ ایک طرف تو اسکے مطالعے کا پتہ دیتی ہے تو دوسری طرف لکھنے والے کی معاشرے سے گہرے تعلق کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ محترمہ نزہت جہان صاحبہ کا تعلق شہرِ قائد سے ہے۔ آپ کا تعلق بھی درد دل رکھنے والے قبیلے سے ہے اور اس قبیلے کے لوگ بس محبت اور بندگی پر یقین رکھتے ہیں اور زادِ راہ کی فکر سے ماوراء چلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ناز صاحبہ انتہائی خوش اخلاق اور دھیمہ مزاج رکھنے والی خاتون ہیں، مسکراتی رہتی ہیں کہ کہیں لوگ دکھ کا اندازہ نہ لگا بیٹھیں اور ہمدردیاں نہ لے بیٹھیں۔

نزہت جہاں صاحبہ کے والدین نے پاکستان کیلئے حیدرآباد دکن سے ہجرت کی جو علم و فن اور تہذیب و تمدن کا مستند گہوارہ تھا، یعنی ناز صاحبہ کی مٹی میں ادب کی ملاوٹ بہت خوب ہوئی تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ خاندان کے افراد شعر و ادب سے خوب شغف رکھتے تھے۔ جن میں سرِ فہرست ہندوستان کے گراں قدر شاعر و ادیب، محقق و مؤرخ، نقاد اور بانی ادارہ ادبیات اردو جسکا نیا نام ایوان اردو ہیں، آپ کو بے پناہ ادبی خدمات کی مد میں انہیں ماہر دکنیات کے لقب سے نوازا گیا۔

محترم ڈاکٹر سید محی الدین قادری صاحب ہیں۔ نزہت صاحبہ کے پرنانا نواب سر نظامت جنگ صاحب جو بیک وقت عربی، اردو اور انگریزی کے شاعر تھے اسکے ساتھ ہی ایک جج اور معاشرے کی اصلاح کرنے کا کام سرانجام دیتے رہے۔ بہت سارے شاعر و شاعرات آپکے انتہائی قریبی قرابت داروں میں رہے۔ والدہ کا تعلق تعلیم کی ترویج سے رہا جس کی بدولت کتابوں سے محبت کا ہونا ایک لازمی جز تھا۔

نزہت جہاں ناز صاحبہ کا کہنا ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ صلاحیتیں تمام تر اللہ ربّ العزت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہیں تو شوق بھی اوائل عمری سے ہی پروان چڑھتا ہے۔ ہم نے بھی بچپن میں اپنے ہاتھوں سے تحریر شدہ بچوں کا رسالہ نکالا جس میں زیادہ تر اپنی ہی لکھی کہانیاں اور نظمیں ہوتی تھیں۔ وقت کی برق رفتار سواری نے ہمارے شوق کو کہیں معدوم کر دیا۔ البتہ، گریجوایشن کے بعد ریڈیو سے منسلک ہو کر کمپئرنگ اور صداکاری شروع کر دی۔ اس کے بعد ایک عام سی لڑکی کی طرح خود کو زندگی کے حوالے کر دیا اور پھر زندگی کے سمندر میں غوطہ زن رہے۔

اور پھر لہروں کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی سکت صلب ہوتی محسوس ہوئی تو اس سمندر نے خشکی پر جیسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ پھر قلم اور کاغذ کا تال میل بنانا شروع کیا لفظوں نے خیالوں کا ساتھ نبھایا اور وہ بہت دیرینا کہیں پوشیدہ خواب تھا اپنے تکمیل کیلئے جدوجہد کرتا نکل کھڑا ہوا۔ شہر کھاریاں سے تعلق رکھنے والے ادب کے قدر دان محترم گل بخشالوی صاحب نے حوصلہ افزائی کی اور دریچہ ادب پاکستان کے قمر ہمدانی صاحب نے بھی ہماری ادبی خدمات کو سراہا۔ اس طرح سے ہم نے اپنے لکھے گئے کلام کو ایک جگہ جمع کیا اور مزین ہیں میرے خواب تخلیق پا گئی۔

یوں تو لکھنے والے کو جو اپنے دل اور روح کی تسکین کیلئے لکھتے ہیں انہیں کسی پذیرائی کا قطعی کوئی انتظار نہیں ہوتا یہ لوگ اپنے آپ میں انجمن ہوتے ہیں لیکن جب بات عوامی ردعمل کیلئے پیش کی جائے تو کچھ ایسے حوالے ضرور پیش کئے جاتے ہیں جن سے بات میں وزن بڑھ جائے اسی طرح سے کتاب کا وزن بڑھانے کیلئے اپنے افکار و اشعار کی ترجمانی کیلئے قدآور شخصیات کی رائے کو شامل ضرور کیا جاتا ہے۔ نزہت ناز صاحبہ کی کتاب پر جن قابل احترام اہل قلم نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا ہے، 234۔

محمود شام صاحب نے انتہائی خوبصورت الفاظ میں نزہت صاحبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نزہت جہاں ناز کے جہانِ ناز میں سیاحت کا پہلا اتفاق ہے مگر حیرتیں ہر قدم دامن دل تھامتی ہیں، تشبیہات ہاتھ پکڑ لیتی ہیں، تلمیحات کچھ لمحے رکنے کا تقاضا کرتی ہیں، استعارے تو ساتھ لے اڑنے کی مسلسل دعوت دیتے ہیں، زبان بہت سادہ ہے، مضامین کی وسعتیں لامحدود، بےحد خوشی ہو رہی ہے کہ اقلیم سخن میں ایک اور فرمانروا داخل ہو رہا ہے۔

نہ جانے کب سے ادھورے ہیں خواب آنکھوں میں

تمہاری چاہتوں میں سب حدوں سے ہم گزر جائیں

پلک تلے جو ترستی ہے سمگیں خواہش

کریں گے پار ہم دریا کبھی صحرا محبت میں۔

پروفیسر اعتبار ساجد صاحب لکھتے ہیں کہ کئی گل بہ گل دریچوں نے اپنی مسحور کن خوشبو سے مجھے ایسا رارفتہ کیا کہ بے ساختہ میں نے دل کی آواز کو قلم کی زبان دے دی۔ جدید شاعری میں اپنا ایک الگ مقام رکھنے والے فرحت عباس شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے ناز صاحبہ کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے ان کی شاعری کیساتھ لگن قابل قدر ہے ان کی شاعری میں جذبات کا اظہار بہت سادگی اور معصومیت کے ساتھ غزلوں میں ڈھلتا ہے۔

انجم عثمان صاحب نے کیا خوب لکھا کہ نزہت کو نہ صرف یہ کہ لفظیات برتنے کا فن آتا ہے بلکہ ان کا فکری اثاثہ بھی قابل ذکر حیثیت کا حامل ہے۔ دریچہ ادب پاکستان کے بانی محترم قمر ہمدانی صاحب کہتے ہیں کہ مزین ہیں میرے خواب میں شامل غزلوں اور نظموں کو پڑھا تو احساس ہوتا ہے کہ نزہت کی غزلوں میں الفاظ، علامات اور استعاروں کا توازن اور خوبصورت مزین امتزاج پایا جاتا ہے۔

نزہت صاحبہ کے آباؤ اجداد کے وطن حیدرآباد دکن سے سید مسرور عابدی صاحب نے بہت ہی نفیس انداز میں نزہت صاحبہ کے فن کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ جب تک روح میں پگھلاؤ نہیں آتا، الفاظ کے جگنو نہیں چمکتے۔ شاعری میں درد خواہی کی منزل سے گزرنا ضروری ہے، 234۔ درد انسان کا تہذیبی سرمایہ ہے بلکہ اس کی شخصیت میں سدا بہار اضافہ ہے۔ جب شاعر کی آنکھ اپنے تصورات کا دائرہ کھولتی ہے تو لب دریائے سخن، لفظوں کے سفینے رکنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

مزید لکھتے ہیں کہ ان تمام باتوں کا مختصر اقتباس یہ ہے کہ جس شاعرہ کی غزلیں ناز بردار استعاروں کا، لفظی قرینوں کا، متعدد سلیقوں کا گلدستہ ہو اور فکر و فن میں انتہا کا توازن ہو، جس کے فکری منطقے اور فنی زاویے اپنی مثال آپ ہوں وہ کرشمہ ساز نہیں تو پھر کیا ہے۔ گل نوخیز اختر صاحب نے لکھا کہ مجھے ذاتی طور پر شاعری میں ندرتِ اظہار بہت پسند ہے۔ بات کہنے کا نیا انداز اور مصرعوں کا نیا دور و بست ہمیشہ مجھے محظوظ کرتا ہے۔ نزہت جہاں ناز کے ہاں یہ تازگی جا بجا ملتی ہے۔

بے چین ہو جو دل تو سکوں خاک رہے گا

گر ہو نہ رفو زخمِ جگر چاک رہے گا

کٹ تو گیا سراب کی جانب سفر مگر

اک ریگزارِ ہجر کہ حدِ نگاہ تھا

محرمِ راز بنا تھا وہ جو تنہائی کا

ہر بھرم توڑ دیا اس نے شناسائی کا۔

مزین ہیں میرے خواب کی رونمائی آرٹس کونسل کراچی کے حسینہ معین ہال میں ایک پر رونق و باوقار تقریب میں ہوئی جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری صاحب نے کی، مہمانِ خصوصی پروفیسر شاداب احسانی صاحب، مہمانِ اعزازی جناب فراست رضوی صاحب نے تقریب میں شرکت کی اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔

وقت اور حالات جنہیں پسپہ نہیں کر پاتے نزہت جہاں ناز صاحبہ بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ہمیں امید ہے مزین ہیں میرے خواب کا سلسلہ جاری و ساری رہیگا اور شعر ادب کی زمین میں نزہت ناز صاحبہ یونہی محبتوں کے بیج بوتی رہینگی۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra