Hum Mushkilon Ke Mezban Bane Hue Hain
ہم مشکلوں کے میزبان بنے ہوئے ہیں
لوگوں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (سورۃ الفاطر۔ 5)
اللہ ربّ العزت نے کائنات بنائی، اسے خوب مزین کیا اور اس میں بسنے کیلئے موجودہ علم کے مطابق تقریباً تیرہ لاکھ کے قریب مخلوق کو پیدا کیا جو کرہء ارض پر وجود میں آئیں۔ اتنی بڑی تخلیق کی فہرست میں ایک کو عالی مرتبت منصب بھی دیا اور اسے اشرف المخلوقات کہا یعنی حضرت آدمؑ کو اس منصب پر فائز کیا گیا، آسمان والوں سے سجدہ بھی کروا دیا۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ کائنات میں سوائے انسان کے یہ بات تو کسی کو سمجھ آنی نہیں تھی پھر ایسا کیوں کیا گیا؟
تو پتہ یہ چلا کہ انسان کو اسکی حیثیت سے آگاہ کیا جانا بہت ضروری تھا، اب انسانوں نے اس جانکاری کا کیا خوب فائدہ اٹھایا کہ اس نے خود ہی اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا کیونکہ جس نے یہ دعویٰ کیا اسے اس بات کی خوب سمجھ آ گئی کہ زمین پر میری برابری کا تو کوئی نہیں ہے اور قدرت کے دیے گئے اختیار کو میں ہی بخوبی سرانجام دے سکتا ہوں، ہم سب خوب واقف ہیں کہ انسان کی تخلیق کا قطعی یہ مقصد نہیں تھا۔
لیکن ہم اس امر سے بھی خوب واقف ہیں کہ انسان خسارے میں ہے۔ اس خسارے کا آغاز بنی نوع انسان کی تخلیق سے ہی شروع ہوگیا تھا (جب آدمؑ نے بتائے جانے کے باوجود شجرِ ممنوعہ تک رسائی حاصل کی) یہاں یہ بھی واضح ہوگیا تھا کہ نافرمانی ہی دراصل خسارے کا راستہ ہے، جس کام سے منع کیا گیا انسان نے وہی کام کر دیکھایا یعنی خسارہ ہی خسارہ۔ تقریباً انسان سانس کے تسلسل کے رک جانے تک اپنے خدا ہونے کے قریب قریب بھٹکتا رہتا ہے۔
بس کوئی ایک طے شدہ حد ہوتی ہے جہاں پہنچ کر اکثریت ٹہر جاتی ہے لیکن کچھ اسے بھی عبور کر جاتے ہیں اور زمین پر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں (اوقات سے بڑھ کر مل جانا جو آزمائش کے زمرے میں آتا ہے)۔ اللہ ربّ العزت اپنی تخلیقات میں ایک ایسی تخلیق چاہتا ہوگا جو اس کی بنائی ہوئی کائنات سے خوب لطف اندوز ہو اور تخلیق کار کی حمد و ثناء میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں تاکہ رحمتوں اور نعمتوں کا سلسلہ دراز ہوتا رہے۔ وہ خالق کائنات ہے جب تک ہوا کو اجازت نہ ہو تو پیڑ کا پتہ نہیں ہل سکتا، ایک ذرہ نہیں ہل سکتا، ہماری پلک نہیں جھپک سکتی۔
اللہ کے احسانات کا تو کوئی شمار نہیں لیکن ان بے شمار احسانات میں ایک احسانِ عظیم کر دیا گیا وہ یہ کہ کائناتوں کی وسعتوں تک پہنچانے کیلئے ایک معلم حضرت محمد ﷺ کے ساتھ علم بھی فراہم کر دیا گیا۔ ایک طرف خالق کائنات تو دوسری طرف وجہ کائنات اور ان کے درمیان ساری کائنات۔ ہر ایک تخلیق کا علم بھی فراہم کیا، ہم نے بارہا تذکرہ کیا ہے کہ علم کا منبہ قرآن مجید فرقان حمید ہے، جو کسی مشین کیساتھ ملنے والے اسکو چلانے کے طریقہ کار کا کتابچہ ہوتا ہے۔
دنیا میں رہنے کیلئے دنیا میں ہونے والے تغیرات سے ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ پورے کے پورے دنیا کے ہو رہیں۔ ہمیشہ یہ یاد رہنا چاہئے کہ اگلا قدم اور سانس کا تسلسل کسی بھی لمحے میں روک دیا جائے گا اور آپ سوائے مٹی کے ڈھیر سے زیادہ کسی حیثیت میں نہیں گنے جاؤ گے اور آپ کے جسدِ خاکی کو زمین میں بسنے والے چھوٹے بڑے کیڑے مکوڑوں کے رحم و کرم پر دبا دیا جائے گا۔
حالات و واقعات ہماری توجہ حاصل کر لیتے ہیں ہم یکسوئی سے سوا ہو چکے ہیں، ہمارے ہاتھوں میں موجود ہماری ہتھیلیوں پر رکھے موبائل ہمیں یکسوئی سے محروم کر چکے ہیں۔ ان میں موجود سماجی ابلاغ ہمیں بڑی مشکل سے ایک لمحے کی مہلت دیتا ہے اور فوری تقاضا کرتا ہے کہ آگے بڑھ جاؤ اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں۔ (سورۃ العمران، 581)
پاکستان کی آزادی سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ جس کی سرپرستی تو باہر سے ہوتی تھی لیکن عمل درآمد کیلئے داخلی عمل انگیز کام کرتے رہے۔ جیسا کہ پاکستان کو باقاعدہ گھسیٹ کر دہشت گردی کی جنگ میں دھکیلا گیا اور ہم نے اس اعزاز کو بخوشی قبول کیا اور کیا خوب خاطر مدارت کی کہ آج بھی دنیا اس کی گواہی دے رہی ہے۔
یہ خاطر مدارت ہم نے اپنے جواں سال خون سے کی ہے۔ اس جنگ سے ہمارا تعلق اس طرح قائم ہوا کہ ہم نے زمینی آسائشوں کے بدلے زمینی خداؤں کی خدائی کو قبول کر لیا۔ اب یہ تو طے تھا کہ ہمیں اس عظیم غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایک طرف تو زمینی حقائق ہمارے لئے مشکل ہوتے چلے جائینگے اور دوسری طرف ہم نے خالق کائنات کو بھی ناراض کر دیا۔ حقیقت تو یہ کہ اپنے خسارے کا سامان کر لیا۔
ہمارے اذہان کیساتھ باقاعدہ منظم طریقوں سے کھیل کھیلے گئے اور ہم پر ایسے حکمران مسلط کئے جاتے رہے جو ہماری سوچ کے دھارے کی سمتوں کو وقتاً فوقتاً بدلتے رہے۔ کبھی لبرلز ہمارے ملک کے نظم و نسق کے ذمہ دار رہے اور معاشرہ کھلے ڈھلے ماحول کا عادی ہونے لگا، پھر مذہب کی پاسداری کو لازمی قرار دیا جانے لگا، چادر اور چار دیواری کے تقدس کا خیال کیا جانے لگا اور پھر معتدل حکمران حکومت میں براجمان ہو گئے جنہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ جو جیسا کر رہا ہے ریاست خود دیکھ لے گی کسی کو کسی کے معاملے میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہوگی۔
کبھی ہمیں کسی کو ہیرو ماننے کیلئے اکسایا گیا اور کبھی کسی ہیروئن کی تعریف و توصیف لازمی قرار پائی۔ اس بات کی گواہی آپ کی اپنی آنکھیں دیں گی، انہوں نے مذہبی اجتماعات میں لوگوں کا ہجم غفیر دیکھا تو شکر بجا لائیں کہ معاشرہ تبدیل ہوگیا ہے اور جب انہیں آنکھوں نے بے ہنگم محفلوں میں بے ہنگم لوگوں کا ویسا ہی ہجم غفیر دیکھا تو شرم سے جھک گئیں کہ اب کیا ہوگا۔
ہمیں ہمیشہ دو کشتیوں میں سوار رکھا گیا اور ہم پر یہ واضح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ آپ مت سوچیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، بس جیسا ہم کہتے ہیں ویسے ہی کرتے جائیں اسطرح ہم غلامی سے نجات کے باوجود غلام ہی بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں بڑی کالے شیشوں والی گاڑیوں سے ڈرایا جاتا ہے تو کبھی ہمیں رزق سے محروم کر دینے کی دھمکی ہمیں خوف میں مبتلاء کر دیتی ہے۔
وقت اور حالات کی ناؤ میں بہتے ہوئے ہم بہت دور نکل آئے۔ ہمیں تربّیت سے بھی دور کر دیا اور ہم وقت کے ساتھ قدم ملانے کی خواہش میں تقریباً سب کچھ بربّاد کرتے ہوئے انتہائی بری حالت کو پہنچ چکے ہیں اور وہ جو ایسا چاہتے تھے ہماری اس حالت پر اظہارِ ہمدردی سے بھی گریزاں ہیں، بلکہ وہ اپنی فتح پر جشن منانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں آج بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ہم جس سمت میں سفر کر رہے ہیں وہی ہمیں منزل مقصود پر پہنچائے گی۔
ہم بطور قوم اور بطور امت اللہ کی قدرت کے خلاف چلے جا رہے ہیں، ہم قرآن کے لفظوں تک تو پہنچتے ہیں لیکن اسکی روشنی کو اپنے اندر داخل نہیں ہونے دیتے جسکی وجہ سے اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس روشنی کو داخل ہونے دیں پھر دیکھیں دشمن کی سازشیں کیسے عیاں ہونی شروع ہو جائینگی اور جب یہ سازشیں عیاں ہو جائینگی تو سد باب بھی بنا لئے جائینگے اور پھر ہمارے دروازے ہمیشہ کیلئے مشکلوں کی میزبانی کیلئے بند ہو جائینگے پھر خسارہ صرف انکا ہوگا کہ جن کے لئے خسارہ لکھا جا چکا ہے۔