Tuesday, 07 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khalid Isran
  4. Interview

Interview

انٹرویو

نجمہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ اس کا والد فوت ھوچکا تھا جبکہ والدہ اکثر بیمار رہتی تھی۔ بہن بھائی ابھی چھوٹے تھے۔ سکول میں پڑھ رھے تھے۔ اس لئے گھر کی ساری ذمہ داری نجمہ کے کاندھوں پر آپڑی تھی۔ چونکہ جمع پونجی ختم ھوتی جارہی تھی، اس لئے وہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد کوئی نوکری مل جائے تاکہ اس کے چھوٹے بہن بھائی تعلیم حاصل کرسکیں اور بیمار ماں کی دوائی بھی آتی رھے۔

اس نے اچھے نمبروں کے ساتھ ماسٹرز کیا تھا لیکن باوجود کوشش کے ابھی تک نوکری نہیں مل سکی تھی۔ کئی جگہ انٹرویو دے چکی تھی لیکن لیکن کامیاب نہیں ھوئی تھی۔

وہ آج بھی کوئی انٹرویو دے کر آئی تھی۔ اس کے پثرمردہ چہرے کو دیکھ کر ماں کو اندازہ ھوگیا تھا کہ نتیجہ کیا نکلا ھوگا؟ پھر بھی ماں نے پوچھ لیا "بیٹا انٹرویو کا کیا بنا؟"۔

یہ سنتے ہی وہ پھٹ پڑی"اماں! یہ انٹرویو وغیرہ سب بکواس ہے۔ نوکری اس کو ملتی ہے جس کے پاس پیسہ اور سفارش ھو۔ انٹرویو سفارشی بندوں کو رکھنے کا اک بہانہ ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہ سولہ سال کی محنت کو پانچ منٹ میں جانچا جائے؟ میرٹ پر اگر رکھنا ھوتا تو تعلیمی کیرئیر کے نمبروں کو بنیاد بناکر تقررنامہ لیٹر جاری کردیا جاتا"۔

بیمار ماں اس کی باتیں سن کر اور پریشان ھوگئی۔

روٹی نجمہ کے آگے اسی طرح پڑی ھوئی تھی۔ کھانے کو اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ ماں کو بتا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کررہی تھی۔ وہ بولی "ماں! ظلم تو دیکھو، انٹرویو کمیٹی کے چئیرمین کا ہمارے مضمون سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس نے کیا سوال پوچھنے تھے۔ ہاں! البتہ وہ لڑکیوں کے جسموں کے نشیب وفراز کو بغور دیکھ رہا تھا۔ ان کی آنکھوں کی گہرائی اور قد و قامت ناپ رہا تھا۔ زلفوں کے پیچ و خم پر بھی اس کی نظر تھی۔ چہرے کے اتار چڑھاؤ سے بھی محفوظ ھورہا تھا۔ ماں! اس کی آنکھوں کی ھوس مجھ سے برداشت نہیں ھو رہی تھی"۔

اس کی باتیں سن کر ماں کے چہرے پر مایوسی چھاگئی تھی۔ ایک دم ہی اس پر کھانسی کا دورہ پڑا۔ نجمہ جلدی سے اس کیلئے پانی لائی۔ ماں نے اپنی سانسیں بحال کیں اور بیٹی کو سمجھاتے ھوئے بولی "بیٹا! اکثر مرد ہوس پرست ھوتے ہیں۔ ہم نے انہی حالات میں جینا ہے۔ لڑکیوں میں مردوں کی نظروں کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ھونا چاہئے۔ تمہیں کیا معلوم کہ بیوہ ھونے کے بعد مجھے کتنے مردوں کی تیز نظروں کا سامنا کرنا پڑا تھا"۔

ماں کی بات نجمہ غور سے سن رہی تھی۔ وہ مخمصے میں پڑ گئی کہ ماں کو اصل بات بتائے یا نہ بتائے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد اس نے اصل بات بتادی "ماں! میں نظروں کو تو برداشت کرلیتی لیکن جب میں انٹرویو دے کر باہر نکلی تو صاحب کے اسسٹنٹ نے کہا کہ آپ کے آرڈر ھوجائیں گے لیکن آرڈر وصول کرنے کیلئے شام کو بڑے صاحب کے گھر اکیلے جانا ھوگا۔ یہ سن کر میں نے غصے سے اس کے منہ پر تھوک دیا"۔

یہ سن کر ماں کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہ رہا۔ وہ خاموش ھوگئی۔ نجمہ اٹھی اور ماں کی دوا لینے کمرے میں چلی گئی۔ الماری میں دیکھا تو دوا ختم ھوگئی تھی۔ پریشان ھوگئی کیونکہ اس کے پاس دوا خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے اور ماں دوائی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔

اس نے یکایک ایک فیصلہ کیا اور ماں کو بتائے بغیر گھر سے نکل گئی۔ شام ھو رہی تھی۔ وہ سیدھی بڑے صاحب کے گھر پہنچ گئی۔ اس کو دیکھ کر صاحب کی باچھیں کھل گئیں۔

وہ نوکری کے آرڈر لے کر رات کو دیر سے گھر پہنچی۔ ماں اس کے انتظار میں پریشان بیٹھی تھی۔ اس نے جھٹ سے پوچھا "کہاں چلی گئی تھیں؟"۔

نجمہ نے ماں سے نظریں ملائے بغیر جواب دیا "نوکری کے آرڈر لینے گئی تھی"۔

ماں سمجھ گئی تھی، اس لئے اس نے نہ تو خوشی کا اظہار کیا اور نہ کچھ مزید استفسار کیا۔

اب وہ باقاعدگی سے صاحب کے دفتر میں کام کرنے لگی تھی۔

ایک دن وہ صاحب کے پاس بیٹھی ھوئی تھی کہ باس کی بیٹی کمرے میں داخل ھوئی۔ وہ باپ سے لپٹ کر خوشی سے بولی "پاپا! میری نوکری لگ گئی ہے۔ صاحب نے کہا ہے کہ شام کو میرے گھر آکر آرڈر لے جانا"۔

یہ سنتے ہی باس غصے میں کھڑا ھوگیا اور چیخ کر بولا "نہیں۔ نہیں۔ مجھے تمہارے لئے یہ نوکری نہیں چاہئے"۔

Check Also

Israel Ki Tashkeel o Parwarish Mein Aalmi Idaron Ka Kirdar (1)

By Wusat Ullah Khan