Manshiat, Aik Tabah Kun Ravish
منشیات، ایک تباہ کن روش
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر عقل و شعور کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔ لیکن ہر زمانے میں کچھ انسان ایسے بھی رہے ہیں جو زندگی کی مشکلات کا ہمت اور عقل و ذہانت سے مقابلہ کرنے کی بجائے ہمت ہار دیتے ہیں اور پھر ایسی اشیاء کا استعمال شروع کردیتے ہیں جن اشیاء کو موجود ہ دور میں منشیات کہا جاتا ہے۔ یعنی نشہ آور اشیاء کا استعمال زمانہ قدیم سے ہوتا آرہا ہے۔ رسول کریم ﷺ کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ جن برائیوں میں پھنسا ہوا تھا ان میں سہر فہرست شراب نوشی کی عادت تھی۔ اسلام سے قبل شراب نوشی اور دیگر منشیات کے استعمال کو بُرا تصور نہیں کیا جاتا تھا، مگر جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ"اے مومنو! ایسی حالت میں نماز کے پاس بھی نہ جاو، جب کہ تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کر رہے ہو"۔ تو انسان میں شعور پیدا ہوا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نشے کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد سگریٹ، گٹکے، افیون، چرس اور ہیروئن کی لت میں مبتلا ہے۔ آج کے دور میں منشیات کے استعمال نے جس طرح نسل نو کو متاثر کیا ہے، کوئی بھی اور معاشرتی برائی اس قدر تیزی سے نہیں پھیلی۔ آج کے اس دور میں ہر دوسرا انسان نشے کا عادی ہو رہا ہے۔ جو کہ ہماری سیاسی اور سماجی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ خصوصاََ نوجوان نسل منشیات سے بہت متاثر ہورہی ہے۔ پوری دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی معاشرتی برائی کی وجہ سے اس قدر تیزی سے انسانوں کی اتنی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہو۔ نشہ ایک فرد کی ذاتی زندگی تباہ کرنے کے علاوہ پورے خاندان اور معاشرے کوبھی بہت سارے مسائل میں گھیررہا ہے۔
نشے کو پورا کرنے کے لیے نشہ آور شخص ہر غلط سے غلط کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اور اسی بنا پر وہ اپنے خاندان کے لیے، اپنے ملک کے لیے خطرہ کا باعث بن رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے جن میں بہت سی یونیورسٹیز، کالجز شامل ہیں نشہ کی فروخت میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ لڑکیوں میں بھی نشہ آور اشیاء استعمال کرنے کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ بہت سے طالبعلم ایسے بھی ہیں جن کے والدین کو ان کا نشہ آور اشیاء استعمال کرنے کا علم تک نہیں۔ ہمارے بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے اپنے ایلچیوں کو نشہ کا عادی بنا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے نشہ کی خاطر ہر غیر قانونی کام کروا سکیں۔
پاکستان میں تقریباً چھہتر لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ ان میں سے اٹھہتر فیصد مرد اور بائیس فیصد خواتین ہیں۔ یہ لوگ شراب، ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کرسٹل، آئس، صمد بانڈ اور سکون بخش ادویات سبھی کچھ استعمال کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف سگریٹ نوشی سے ہی سولہ لاکھ افراد بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور چالیس ہزار سالانہ کی اوسط سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے، انسداد منشیات فورس، این۔ جی۔ اوز، سوشل ورکرز ان کے خلاف کارروائی تو کر رہے ہیں لیکن جب بھی کوئی بڑی مچھلی ہاتھ آتی ہے تو یا اسے بچا لیے جاتا ہے یا متعلقہ افسر کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ سگریٹ کی ڈبی پر محض یہ لکھ دینے سے کہ("تمباکو نوشی منہ کے کینسر کا سبب ہے") یا ہر سال 26 جون کو انسداد منشیات کا عالمی دن منانے سے مسائل حل نہیں ہونے۔
اداروں کو سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کو روکنا ہو گا، ان کو بند نہیں کر سکتے مہنگا تو کیا جا سکتا ہے۔ وہی پیسہ صحت کے شعبے میں خرچ ہوں۔ افغانستان سے ہونے والی سمگلنگ کو روکنا ہو گا، تعلیمی اداروں میں جو لوگ نشہ کا عادی بنے ہوئے ان کے کریکٹر سرٹیفکیٹ پر منشیات کا عادی لکھنا ہو گا، تعلیمی اداروں میں آپریشن کلین سویپ شروع کرنا ہو گا، جو لوگ ملوث پائے گئے زیرو ٹولیرینس کی بنیاد پر کروائی کرنا ہو گی۔ انسداد منشیات فورس کو اس کی مرضی سے کام کرنے دینا ہو گا۔
جس بندوق کی زور پر پولیو کے قطرے پلوائے جاتے ہیں اگر اسی بندوق کے زور پر منشیات کے خلاف ایکشن لیا جائے تو معاشرہ ایک بڑی لعنت اور تباہی سے بچ سکتا ہے۔ عام دکانوں سے لیکر تعلیمی اداروں تک منشیات آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ پولیو صرف ایک بندے کو معذور کرتا ہے جبکہ منشیات آنے والی نسلوں کو تباہ و برباد کرتا ہےاور والدین کو بھی اپنے بچوں کو اس لعنت کے بارے آگاہی دینا ہو گی۔ تاکہ نوجوان نسل اس تباہ کن روش کو اختیار کرنے کی بجائے اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کر سکیں۔