Zindagi Ke Taqub Mein
زندگی کے تعاقب میں
زندگی کی گاڑی رب ذوالجلال کی وہ عطا ہے، جو انسانوں کو ایک مخصوص مدت کے لیے عطا کی جاتی ہے، مگر اسکو چلانے کا ہنر کسی کسی کے پاس ہے، اور زیادہ لوگ اسے سیکھنے کے لیے اتنا متفکر دکھائی بھی نہیں دیتے۔
زندگی کی گاڑی کو چلانا سیکھنے کے لیے نہایت محنت، لگن، محبت، اور سب سے بڑھ کر صبر اور اطمینان کا ہونا لازمی ہے۔ زندگی میں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو زندگی کی گاڑی کو چلانا سیکھنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔ دنیا کی تمام گاڑیوں سے زیادہ مشکل اسی گاڑی کو چلانا سیکھنا ہے، ہاں مگر اسکو سیکھنے کی لگن ہو تو سب سے آسان بھی یہی معلوم ہوگی۔ اور اس کو چلاتے ہوئے ہمارے پاس اکسیڈینٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیونکہ اسکا انجن نہایت نازک ہوتا ہے جسکو ہم نے اپنے شعور کی روشنی اور علم کے تیل کے ذریعے سے مضبوط بنانا ہوتا ہے۔
زندگی کو سمجھے بغیر ہم زندگی کے مختلف مراحل طے نہیں کر سکتے۔ زندگی ہر مرحلے میں ایک نیا امتحان ہے، چاہے کوئی آسان ہو یا دشوار، لیکن زندگی امتحانات کا مجموعہ ہے۔ انسانوں کی اجتماعی زندگی میں جب ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کانٹوں کے ڈھیر میں آدمی کے دامن کا الجھ جانا۔ ایسی حالت میں اگر آدمی بنا سوچے سمجھے کھینچ تان شروع کر دے تو دامن اور زیادہ الجھ جائے گا اور پھر اگر اس سے نکلے گا بھی تو تار تار ہو کر نکلے گا۔ ایسی ہی نازک ڈور سے ہماری ذات بندھی ہوتی ہے۔ ہر طرف سے احتیاط کا دامن تھامے رکھنا پڑتا ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی ہاتھ سے چھوٹا تو دامن کانٹوں میں الجھ جائے۔
اس زندگی کی شاید یہی خوبصورتی ہے کہ ہمیں ایک مقصد سے اس دنیا میں بھیجا گیا، اور ہم سب ایک امتحان کے میدان میں جی رہے ہیں، ایک ایسا امتحان جس کا نتیجہ قیامت کے دن نکلے گا کے کس نے اپنی قابلیت کو استعمال کرکے خوبصورتی سے امتحان پاس کیا۔
مگر انسان دنیا میں آنے کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، وہ اپنا اصل مقصد بھول کر دنیا کی عارضی رنگینیوں میں گمنے لگ جاتا ہے۔ اسکی یہ غفلت انسانی معاشرے کو کامیابی کی سیڑھی چڑھنے سے تو خبردار کر دیتی ہے مگر دیواریں پھلانگنا سکھا دیتی ہے۔ اس طرح کے اور نا پسندیدہ عمل معاشرے کو بد سے بد ترین بناتے چلے جاتے ہیں اور ایسے لوگ بطور قوم دنیا بھر میں ایک قباحت سے بھرپور تاثر کے ساتھ اپنی شناخت پر ایک دھبہ لیے جی رہے ہوتے ہیں۔
جہالت کا دور دورہ ہوتا ہے اور اسکو سرے سے مٹانے کی کوئی جستجو اور نہ ہی کوئی کوشش کی جاتی ہے۔ جہالت کے آنگن میں بسنے والے خوش فہمی میں بدمست لوگ اپنے حال کو بدلنے کے قائل نہیں ہوتے کہ انکو اپنی حالت کا ادراک ہی نہیں ہوتا اور وہ اسکو سادگی کا نام دے کر الٹا اپنا طرہ امتیاز بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔
زندگی میں چلتے چلتے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں معاشرتی آداب کی بہت کمی ہے۔ یہاں متعدد لوگ اچھائی کرنے میں شرماتے ہیں اور برائی کرنے اور پھیلانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ برائی میں اپنا حصہ ڈالنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ تہذیب کے نام پر سالوں سے چلے آتے ہوئے ناگوار عقیدوں سے دوسروں کو بے آرامی کا شکار بناتے ہیں۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کے زندگی کا تقاضہ یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت بدلتا ہے، دور بدلتا ہے، اسکے ساتھ پرانے عقیدے اور رسوم وروایات بھی بدل جاتی ہیں۔ لیکن جدید دور کے طور طریقوں کو بد لحاظی کا نام دینا سراسر زیادتی ہوگی۔ سبکو چاہیے کہ جب کسی دور میں تبدیلیاں آنے لگیں تو اس دور میں آبرو سے رہنے کے لیے خود پر کام کریں، شعوری کوشش سے اپنے آس پاس کی تبدیلیوں، روویوں اور ماحول کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ انکا وجود کسی پر بوجھ بنے نا ہی ان کو خود کسی تنگی اور شرمندگی کا بوجھ اٹھانا پڑے۔
معاشرے میں رہنے کے بنیادی اصول اتنے بھی پیچیدہ نہیں کہ انہیں سیکھا نہ جا سکے اور نہ ان کی سیکھ کے لئے عمر کی کوئی حد ہے مگر انہیں سیکھے بغیر نہ صرف آپ اپنی زندگی کی گاڑی کا ستیاناس کرتے ہیں بلکہ خود سے وابستہ لوگوں کی زندگیوں کی تباہی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کے حقوق کو مدنظر رکھنا چاہیے اور ان کی پرائیویسی اور پرسنل سپیس کا خیال رکھنا چاہیے۔ احتیاط، محبت، صبر اور توازن سے ہم زندگی کی گاڑی کے ماہر ڈرائیور بن سکتے ہیں جو کہ نہ صرف معاشرتی بلکہ بطور مسلمان مذہبی طور پر ایک بڑی کامیابی ہے۔