Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Javeria Aslam/
  4. Azad Mera Titliyan Warga

Azad Mera Titliyan Warga

آزاد میرا تتلیاں ورگا

مجھے بتایا گیا کہ پنجابی سیکھنے کے لئے پنجابی شاعری پڑھیں، پنجابی پروگرام دیکھیں اور پنجابی گانے سنیں۔ پنجابی شاعری پڑھنا تو فی الحال میرے بس کا روگ نہیں ہے تو میں نے پنجابی گانے سننا ذرا دلچسپ جانا تو مجھے ریفر کئے گئے پنجابی گانوں میں سے ایک کی موسیقی مجھے کافی اچھی لگی۔ مما کے فون میں گانوں کے جو کلپس ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر وڈیوز نہیں ہوتی تو مجھے اس کی شاعری کی کوئی خاص سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

یار میرا تتلیاں ورگا! ۔۔ ارے یہ کیسا گانا ہے بھئی؟ تتلیاں تو رنگ اور خوبصورتی کا استعارہ ہیں اور یہ دونوں چیزیں لڑکیوں سے منسوب ہیں تو پھر یہ گلوکارہ اسے مرد سے کیوں منسوب کر رہی ہے۔ میں نے یہ گانا گوگل پہ سرچ کیا تو اندازہ ہوگیا کہ تتلی کا ایک پھول سے دوسرے پھول پر بسیرا کسی نازک دل کو ناگوار گزرا تو اس کی آزاد طبع فطرت کو کسی بدکردار مرد کے چلن سے مشابہ قرار دیا ہے۔ میں پولیٹیکل سائنس کی طالبہ ہوں اس لئے میرا دماغ فوری طور پر حالیہ الیکشن کی طرف چلا گیا اور ہمارے آزاد امیدواران کی آزادی مجھے کھٹکنے لگی۔

اس الیکشن کے نتائج نے سبھی کو دنگ کر دیا اور کیوں نہ ہوتا کہ نہ کوئی پوری طرح جیتا ہے اور نہ ہی پوری طرح ہارا ہے اور تقریباً سبھی کو اگر حکومت بنانی ہے تو اپنے ساتھ آزاد جیتے ہوؤں کو ملانا ہے۔ گویا آپ نے اس قرضوں میں جکڑی قوم کے اربوں روپے الیکشن کے نام پر محض اس لئے خرچ کیے کہ اس کو بتا سکیں کہ تمہاری طرح تمہارے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ کام تو پریس کانفرنسز سے بھی بخوبی ہو رہا تھا پھر اس کے لئے الیکشن کی کیا ضرورت تھی؟

اب بات کر لیتے ہیں جیتے ہوئے تتلیوں ورگے آزاد امیدواران کی جو کہ اصل میں تو ہمارے نظام کے پالتو ٹڈی دل ہیں ساری فصل ہی کھا جاتے ہیں۔ یہ کاروبار باقاعدہ سیاسی پس منظر اور ایک تاریخ اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔ جب جب اقتدار کے چمن میں خزاں کے موسم کے سندیسے آتے ہیں تو یہ تتلیاں ورگے ادھر ادھر بیٹھ کر ساری بساط لپیٹ ڈالنے میں نظام کے ہاتھوں میں آلہ کار بن جاتے ہیں۔

اس بار تو لگتا ہے کہ نظام نے ان کی تعداد میں دانستہ اضافہ کیا تاکہ ان کی آزادی سے جس پارٹی کو چاہیں محکوم بنا دیں مگر نتائج سے لگتا ہے کہ ان کو بھی منہ کی کھانا پڑی۔ جس سیاسی پارٹی کے امیدواران کو عدالتی فیصلے کے تحت آزاد الیکشن لڑنا پڑے اب وہ جیت کر مزید آزاد ہو گئے ہیں، کبھی اس پارٹی سے رابطے تو کبھی اس کیساتھ میل ملاقاتیں کہ جس کا پلڑا بھاری ہو اس کے ساتھ وابستگی کا اعلان کیا جائے؟ گویا اس کار ذلت میں انہیں یوں لطف آنے لگا ہے جیسے ایک بھکاری جب رشتہ مانگنے گیا تو لڑکی کے باپ نے اسے بھیک کا پیشہ چھوڑنے کا تقاضا کیا تو بھکاری نے ایسا کرنے کے لئے شرط رکھ دی کہ آپ ایک ہفتہ بھیک مانگیں گے۔ اس کے بعد میں یہ پیشہ چھوڑ دوں گا۔ ایک ہفتے کے بعد جب بھکاری لڑکی کے باپ کے پاس گیا تو وہ کہنے لگا کہ تم بھیک مانگو یا نہ مانگو لیکن میں بھیک مانگنا اب کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

ہمارے سرکردہ لوگوں سے بھی یہی غلطی ہوئی ہے شاید کہ انہوں نے جس پارٹی کو عدالتی فیصلے کی وجہ سے انتخابی نشان سے محروم کیا وہ اب اپنے جیتے ہوئے امیدواران سے بھی محروم ہوتی نظر آتی ہے اور وہ کوئی اس پارٹی میں تو کوئی اس پارٹی میں، کبھی یہاں تو کبھی وہاں یعنی آزاد میرا تتلیاں ورگا۔

Check Also

Khaala

By Mubashir Aziz