Aabi Jarhiyat Ua Aabi Jahiliat
آبی جارحیت یا آبی جاہلیت

گزشتہ کچھ برسوں سے کلائمیٹ چینج کا تصور ہماری زندگیوں میں اس طرح شامل ہوا ہے کہ ہم سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا کلاؤڈ برسٹ جیسا حادثہ ہر دو معاملہ یا تو کلائمیٹ چینج کیساتھ جوڑ دیتے ہیں یا پھر بھارت کی آبی جارحیت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
آبی جارحیت پہ عدنان خان کاکڑ صاحب کی تحریر جو کہ اگرچہ لائٹر نوٹ پہ لکھی گئی ہے مگر انتہائی مبنی بر حقیقت ہے بلکہ دعوت فکر ہے کہ کوئی بھی ملک سیلاب کے پانی کو خود تک کیسے محدود کر سکتا۔
"دیکھیں بھارت کو آبی دہشتگردی نہیں کرنی چاہیے۔ اسے چاہیے کہ یہ سارا پانی اپنے ڈیموں، بیراجوں اور ہیڈ ورکس میں روکے رکھے، تاکہ وہ جب اتنے پانی کے دباؤ سے یکلخت ڈھے جائیں تو ہماری زیادہ لیکن اس کی بھی کچھ تباہی ہو جائے۔ یا پھر وہ پنجاب کے سارے دریاؤں کا رخ موڑ کر بیکانیر کے صحرا میں لے جائے، یوں بیک وقت دو مسئلے حل ہو جائیں گے۔ ہم پاکستانیوں کی آبی دہشتگردی کی شکایت ہمیشہ کے لیے جاتی رہے گی اور بیکانیر والوں کی پانی کی کمی کی۔ بیکانیری پہلے ہی دریائے سرسوتی کے گم ہو جانے سے پریشان بیٹھے ہیں، ان کی اشک شوئی ہو جائے گی۔ ویسے پہلے پاکستان اس وقت اپنے پاس موجود پانی کو اپنے ہیڈ ورکس پر روک کر دیکھ لے کہ ایسا کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ بڑا دریا پہاڑ سے سمندر کی طرف بہہ رہا ہو تو اسے انسانی تعمیرات نہیں روک سکتیں"۔
میرے خیال سے آبی دہشتگردی کے بہانے والے غبارے کی ہوا تو یہیں نکل جاتی ہے البتہ عالمی سطح پر کلائمیٹ جسٹس کی بات کرتے رہنے میں وزن ضرور ہے۔
اب آتے ہیں آبی جاہلیت کی طرف جو ٹاؤن پلاننگ کی خرابیوں، قدرتی آبی گزرگاہوں پہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے قیام، شجر کاری کے بارے میں شعور کی کمی اور غفلت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس کے باعث کبھی ہمیں پانی کی قلت تو کبھی پانی کی زیادتی یعنی سیلاب جیسے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حضرت انسان نے ہمیشہ پانی کے آس پاس ہی زندگی کا پڑاؤ ڈالا تو پھر آج یہ پانی کیونکر ہم سے اس قدر خفا دکھائی دیتا ہے؟
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہم نے فطرت کا احترام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم جنگلات کو ختم کرکے ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں۔ سوکھے دریاؤں کیساتھ بھی یہی سلوک کر رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کے بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کے دامن میں ایسے لوگوں کی ایک وادی ہے جو حادثات سے سیکھنے کی بجائے اس میں مرنے والوں کی لاشیں تلاش کرنے کو "رسکیو" اور بدانتظامی کو "عذابِ الٰہی" سمجھتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹاؤن پلاننگ کے محکمے کو باقاعدہ فعال کیا جائے۔ قدرتی آبی گزرگاہوں میں رہائشی منصوبے قطعی طور پر منظور نا کیے جائیں۔ جہاں ڈیم کی ضرورت ہے وہاں ڈیم بنائے جائیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے رسکیو آپریشن کو بہتر بنایا جائے۔ عوام میں نا صرف شجر کاری کی آگاہی پیدا کی جائے بلکہ آبی منصوبہ بندی کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جائیں اور اس کے لیے محکمہ موسمیات کی مدد سے موثر اقدامات کرکے غریب عوام کو ہر سال بڑے بڑے جانی اور مالی نقصانات سے بچایا جائے۔

