Zindagi Teri Har Ik Baat Pe Rona Aaya
زندگی تیری ہر اک بات پہ رونا آیا
کھیلوں، مقابلوں، تعلیمی کامیابیوں کے سفر پر جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی اپنے جذبات کا اظہار اپنی نم آنکھوں اور آنسوں سے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک جانب خوشی اور کامیابی کے آنسوں ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب ناکامی اور شکست کا دکھ ہوتا ہے۔ ایک جانب فتح کا فخر تو دوسری جانب شکست اور ہار کی دل برداشتگی کا بار نظر آتا ہے۔ یہ سب ہر مقابلے میں عام زندگی میں تو ہوتا ہی ہے مگر کھیل کے میدان میں جیت اور کامیابی پر خوشی سے چیخنے اور چلانے اور ناکامی پر زاروقطار رونے کو پوری دنیا دیکھتی ہے۔
میں نے ایک مرتبہ اباجی سے پوچھا کہ یہ آنسو خوشی اور دکھ دونوں صورتوں میں کیوں بہنے لگتے ہیں؟ تو فرمایا کہ آنسو تب نکلتے ہیں جب ہم اپنی خوشی اور دکھ کا اظہار اپنی زبان سے نہیں کر پاتے اور ہمارے الفاظ ہماری خوشی یا غم کو بیان کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ جو بات یا پیغام ہم زبان اور الفاظ سے گھنٹوں میں بھی نہیں کر پاتے ہیں۔ وہ ہمارے یہ آنسو لمحوں میں بیان کر دیتے ہیں۔ زبان کی طرح آنسووں کی بھی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ جب لفظ ساتھ چھوڑ جائیں تو زبان کی بےبسی کا ازلہ آنسوں کی شکل میں کرنا بےحد آسان ہوتا ہے کیونکہ آنسو ہماری اندرونی کیفیت کا بہترین اظہار ہوتے ہیں۔ شاعر ان آنسوں کو روح کی آواز بھی کہتے ہیں۔ بقول مصطفیٰ زیدی مرحوم!
میری روح کی حقیقت مرے آنسوں سے پوچھو
میرا مجلسی تبسم میرا ترجماں نہیں ہے
ایسے ہی گذشتہ اولمپکس میں جیولن تھرو کا عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستانی اتھلیٹ ارشد ندیم کو اپنے کوچ کے کندھے پر سر رکھ کر روتا ہوا پوری دنیا نے دیکھا۔ اس کے یہ جذبات جیتنے کی خوشی میں تھے یا پھر ان محرومیوں کا بےپناہ احساس تھا جن کا وہ برسوں سے سامنا کر رہا تھا یا پھر اپنی بےپناہ امیدوں کے بر لانے پر اپنے رب کا شکرانہ اور استاد کی محنت کا اعتراف تھا۔ بہر حال خوشی ہو یا دکھ رونے کے لیے کندھا مل جانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ ایک نیزہ خرید نے کی مالی حیثیت نہ رکھنے والا جب پچھلے ایک سو اٹھارہ سال کا ریکارڈ توڑ دے تو اسے رونا تو ضرور آئے گا۔
آج ارشد ندیم پوری قوم کی آنکھ کا تارا بن چکا ہے۔ بے پناہ دولت کے باعث اپنی مالی محرومیوں سے بہت دور جا چکا ہے۔ ایک لحاظ سے وہ بڑا خوش قسمت ہے کہ اس کارنامے کو دیکھنے کے لیے اس کے والدین زندہ ہیں جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ جیت کی خوشی ہو یا ہار کا غم دونوں صورتوں میں انسان کی آنکھوں میں آنسوں ضرور آجاتے ہیں۔ آج ارشد ندیم پر دنیا مہربان ہے اسے قدرت نے موقع دیا ہے۔
آج بےشمار اعزازت کی بارش سے اس پر وسائل کی ریل پیل ہو چکی ہے اللہ نے اسے ارب پتی بنا دیا ہے۔ ایسے میں میری دعا ہے خدا کرے کہ ارشد ندیم کوئی ایسی مثال قائم کرئےکہ آنے والے ٹیلنٹ کو ان محرومیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جو اس کے اپنے حصے میں آئی ہیں۔ وہ بھی اپنے کوچ کی طرح ٹیلنٹ پر توجہ دے کر رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جس ملک نے اسے فخر پاکستان کا خطاب دیا ہے وہ اس اعزاز کو کیسے نبھاتا ہے۔
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رو نا آیا
کہتے ہیں کہ کبھی پیسے نہیں ہوتے اور کبھی اپنے پیارے نہیں ہوتے۔ ایسی ہی ایک کہانی دنیا کے مشہور فٹ بالر رونا ڈینو کی بتائی جاتی ہے۔ جسے فٹ بال پر کنٹرول کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد مجھے بچپن میں کہا کرتے تھے کہ بہتر ہے کہ میں ننگے پیر فٹ بال کھیلوں تاکہ فٹ بال پر بہتر کنٹرول حاصل کر سکوں۔ لیکن جب میں بڑا ہوا تو میں نے یہ حقیقت جانی کہ میرے والد یہ اس لیے نہیں کہتے تھے بلکہ اس لیے کہتے تھے کہ وہ میرے لیے جوتے نہیں خرید سکتے تھے۔
جب میں نے گولڈن بال اور گولڈن بوٹ جیتا تو میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ اس وقت میں جیتنے کی خوشی کی وجہ سے نہیں رو رہا تھا بلکہ اس لیے رویا تھا کہ میرے والد اس لمحے میرے ساتھ اس دنیا میں نہیں تھے یقیناََ اس کے پاس کوئی ایسا کندھا نہ تھا جس پر سر رکھ کر وہ رو سکتا۔ اس جذباتی کیفیت کے دوران جنم لینے والے اچھوتے آنسوؤں کو پونچھنے والا نہ ہو تو ان کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ آنسو انسانی فطرت سے عین مطابقت رکھتے ہیں اور ہم اس لیے بھی روتے ہیں کہ ہمیں اس لمحےان دوسروں لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو مشکل وقت میں بھی ساتھ دیتے ہیں۔ صرف جیت جانا ہی ضروری نہیں میں نے ایک خاتون خوشی سے آنسو بہاتے دیکھا جس کا بچہ دوڑ میں سب سے پیچھے تھا مگر وہ خوش تھی کہ اس نے دوڑ میں حصہ تو لیا ہے کیونکہ وہ بچہ دوڑ میں اپنی مصنوعی ٹانگ کے سہارے دوڑ رہا تھا۔ یہ اس کے لیے بڑی خوشی تھی کہ وہ اس دوڑ کا حصہ تھا۔ یقیناََ وہ کندھا بہت قیمتی ہوتا ہے جس پر سر رکھ کر انسان آنسوں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر سکے اور آنسو پونچھنے والی ہستی موجود ہو۔
امی جان کی پوری میری زندگی یہ خواہش رہی کہ کاش ان کا اپنا گھر ہو۔ وہ عمر بھر اسی کے بارے میں خواب دیکھتی رہیں اور کوشش کرتی رہیں۔ آخر کار جب میں نے اپنا پہلا چھوٹا سا گھر بنایا تو وہ گھر دیکھ کر گھنٹوں روتی رہیں۔ یہ خوشی کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی بھر کی خواہشات کی تکمیل پر شکرکے وہ آنسو تھے جن کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ خواب جب حقیقت کاروپ دھار لیں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ کاش زندگی انہیں اتنی مہلت ضرور دیتی کہ وہ اپنی کی دعاوں سے بنے ہم تینوں بھائیوں کے گھر دیکھ سکتیں تو یقیناََ انہیں احساس ہوتا کہ ان کے خواب ان کی سوچ سے بھی زیادہ پورے ہو چکے ہیں۔ ہر گھر کی دیوار پر لگی ان کی تصاویر اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ وہاں آج بھی موجود ہیں اور ان کے آنسو رنگ لا چکے ہیں۔ یہ زندگی بھی عجیب ہے خوشی ہو یا غم دکھ ہو یا راحت آنسوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر ائے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رو نا آیا
کہتے ہیں کہ آنسو بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں مثلاََ خوشی کے آنسو، غم اور دکھ کے آنسو، پچھتاوے کے آنسو، بچھڑنے کے آنسو، فراق اور جدائی کے آنسو، وصال اور ملاقات کے آنسو، اداسی کے آنسو، اور بعض اوقات تو بلاوجہ کے آنسو ہماری زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ میرے دادا جان جب بھی مجھے رخصت کرتے تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں اور جب بھی میں ان سے ملنے پہنچتا تو گلے لگا کر رونے لگتے۔ میں نے جب میڑک پاس کیا تو داداجان وفات پاچکے تھے اور میں اپنی کامیابی پر صرف اس لیے رویا کہ کاش وہ زندہ ہوتے؟ پوری زندگی میں جب بھی کوئی بڑی کامیابی حاصل ہوئی ان کی کمی کو محسوس کرکے ان کی یاد میں رونا میری زندگی کا حصہ رہا ہے۔
مجھے آنسوں کے بارے میں ان کے الفاظ ہمیشہ یاد رہتے ہیں جب ہم نے پوچھا بڑے اباجی دنیا میں سب سے قیمتی کون سے آنسو ہوتے ہیں تو کہنے لگے آنسو تو سبھی بہت قیمتی ہوتے ہیں مگر ہمارے رب کو بےبسی کے وہ آنسو بہت پسند ہیں جو بندہ بےبس ہو کر اپنے رب کے سامنے پیش کرتا ہے جب اسے دنیا میں کچھ اور نظر نہیں آتا۔ حدیث مبارک ہے کہ "دو قطروں سے بڑھ کر کوئی قطرہ اللہ کو پیارا اور محبوب نہیں ہے ایک وہ قطرہ خون جو شہادت کے وقت مجاہد کے بدن سے نکلے اور ایک وہ قطرہ آب جو خشیت الہی سے مومن کی آنکھ سے ٹپکتا ہے"۔