Ziada Muawza Aur Kam Fasla
زیادہ معاوضہ اور کم فاصلہ

میرے یوں تو بہت سے دوست میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر دو دوستوں سے مجھے محبت اور خلوص کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا۔ کہتےہیں کہ "میں ٹھیک ہوں" یہ تو ہم ہر کسی کو کہہ سکتے ہیں لیکن "میں پریشان ہوں" یہ بات کہنے کے لیے کسی بہت خاص شخص کی ضرورت پڑتی ہے۔ زندگی میں کچھ ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو گرنے نہیں دیتے۔ یہ دونوں خاص دوست پوری زندگی ہمیشہ مدد اور رہنما ئی کا پیکر بنے رہے ہیں۔ اتفاقا دونوں ہی دوست پکے "شیخ" ہیں یعنی شیخ صبح صادق اور شیخ ندیم اشرف ایک چینوٹی شیخ ہیں اور دوسرئے قصوری شیخ ہیں۔
کہتے ہیں کہ شیخوں کی دوستی بھی قسمت والوں کو ملتی ہے۔ شیخ صبح صادق تو کئی سال قبل اللہ کو پیارئے ہو چکے پھر بھی کبھی کبھی خوابوں میں آکر بھی نصیحت اور ہدایت کرتے رہتے ہیں جبکہ شیخ ندیم اشرف نہ صرف حیات ہیں بلکہ اللہ کے فضل سے روز صبح کوئی نہ کوئی نصیحت والی بات کے ساتھ نیک دعاوں اور محبتوں سے سرفراز فرماتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز فرمائے اور ہماری باہمی محبت اور خلوص کا یہ شاندار ہمیشہ سفر جاری رہے۔
آج صبح ان کی جانب سے نصیحت آموز تحریر موصول ہوئی ہے کہ ایک پرانی حویلی میں ایک بلی اور کچھ چوہے رہا کرتے تھے۔ بلی آہستہ آہستہ چوہوں کی نسل کشی کرتی رہی حتی کہ صرف ایک چوہا بچ گیا۔ بلی بہت دن اس آخری چوہے کے بل کے آس پاس گھومتی رہی مگر چوہا بل سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ آخر ایک دن ڈرتے ڈرتے چوہے نے بل میں سے جھانکا تو بلی سجدے میں گر گئی اور آہ و فغاں شروع کر دی۔ یا خدا میں نے بہت معصوموں کا خون بہایا ہے۔ میں بہت گنہگار ہوں مجھے معاف کردے۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ بھوک سے مر جاؤں گی مگر کسی بے گناہ کا خون نہیں بہاؤں گی۔ روتے روتے آنکھیں کھولیں اور چوہے سے کہا کہ تو بھی مجھے معاف کر دے۔ میں نے توبہ کر لی اب آئندہ میں تمہاری طرف دیکھوں گی بھی نہیں۔ تم آرام سے باہر نکل آؤ میں کچھ بھی نہیں کہوں گی۔
چوہے نے کہا۔ بڑی بی بات تو ٹھیک ہے مگر اعتبار مشکل ہے۔ میں بھوک سے نڈھال ہوں یہ نہ ہو میں نکل آوں اور پھر میری ہڈیاں بھی نہ بچیں۔ بلی نے کہا بھروسہ کر لو میں وعدہ کر چکی ہوں بلکہ تمہیں بھوک لگی ہے تو میں تمہیں چاولوں کا گودام دکھاتی ہوں۔ چوہا نکلنے میں پس و پیش کر رہا تھا تو بلی نے کہا۔ اچھا ایک کام کرو۔ اپنے بھروسے کے لئے تم اس بل سے نکل کر سامنے والی بل میں جاو میں آنکھیں بند کر لوں گی۔ جب تم یقین کر لو تو میں تم کو چاولوں کے گودام لے چلوں گی۔ چوہے نے بلی کو دیکھا۔ پھر سامنے والے بل کو دیکھا اور پھر چشم تصور سے بطریق منام، چاولوں کے گودام کو دیکھا تو آہستہ سے گویا ہوا۔ بی اماں میرے پرکھوں نے مجھے ایک وصیت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا وہ کام کبھی نہ کرنا جس میں فاصلہ کم ہو انعام ذیادہ ہو یا جس میں محنت کم ہو منافع ذیادہ ہو۔ کہتے ہیں کہ دھوکہ دینے کے ہزار طریقے ہیں لیکن سب سے گھٹیا طریقہ محبت اور ہمدردی کا دکھاؤ کرنا ہوتا ہے۔
گو یہ کہانی بظاہر بڑی چھوٹی سی ہےلیکن اپنے اندر بڑی گہری رکھتی ہے۔ محنت کم اور معاوضہ زیادہ کا یہ اصول معیشت، اخلاقیات اور سماجی توازن کے حوالے سے بہت گہری معنویت رکھتا ہے۔ جب محنت کم ہو اور معاوضہ زیادہ تو کئی خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ لالچ ہمیشہ بےقراری اور ناانصافی کو جنم دیتا ہے جو بالا ٓخر اس کی نعمتوں کے زوال کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ اصول اگرچہ ہر جگہ لاگو نہیں ہوتا لیکن عمومی طور پر ایک صحت مند اور منصفانہ سماج کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ محنت اور معاوضے میں توازن قائم رہے ورنہ جان کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بھوک اور سنہرے خوابوں کی وجہ سے شارٹ کٹ انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن جاتا ہے۔ اباجی کہا کرتے تھے کہ لالچ میں آکر کبھی کوئی چیز مارکیٹ سے کم قیمت پر مت خریدو کیونکہ یا تو وہ چوری اور دھوکہ دہی کی ہے یا پھر بیچنے والا اس قدر مجبور ہے کہ اس کی ضرورت کسی معاوضے کی محتاج نہیں رہی اور جبکہ کسی کی ضرورت سے فائدہ اٹھانا بڑا ظلم ہوتا ہے۔ لیکن کہتے ہیں کہ جب تک لالچی زندہ ہیں ٹھگ کبھی بھوکے نہیں مرتے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں ڈبل شاہ جیسے بےشمار کردار سامنے آتے رہتے ہیں۔ جو معصوم لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کر دیتے ہیں۔
ذرا غور کریں کہ یہ اس بوڑھی بلی کی طرح یہ انسانی اسمگلرز یورپ اور مغرب کی چکا چوند روشنیاں اور سنہرے خواب دکھا کر ہمیں کیسے کیسے لالچ دیتے ہیں کہ ہم اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ڈنکی لگانے کے لیے بلا سوچے سمجھے اپنی جمع پونجی ان کے حوالے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ جسمانی مشقت سے کم معاوضے میں ناجائز طریقہ سے بارڈر کراس کرنا بہت آسان لگتا ضرور ہے مگر ہوتا ہرگز نہیں۔
ناجانے کتنے ہی ماوں کے لال لانچوں سے جاتے ہوئے سمند روں کی نذر ہوجاتے ہیں اور کتنے ہی بدنصیب کنٹینرز میں ہی دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں اور ناجانے کتنے نوجوان جنگلوں، پہاڑوں اور صحراوں کے سفر کے دوران معذور ہو جاتے ہیں۔ کتنے ہی غریب گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ مرنے والا صرف ایک فرد نہیں ہوتا بلکہ اس سے جڑئے سینکڑوں خاندان سوگ میں ڈوب جاتے ہیں لیکن یہ سلسلہ روکنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ آج تو اس خطرناک سفر میں خواتین اور بچوں کے نام بھی شامل ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ انسان کو انسان دھوکہ نہیں دیتا بلکہ انسان کو اس کی امیدیں، خواہشات اور لالچ دھوکہ دئے جاتی ہیں جو وہ دوسروں سے وابستہ رکھتا ہے۔
میں جب چھ سال قبل بینک ملازمت سے رئٹائر ہوا تو میں نے ملازمت کے لیے کئی ویب سائٹ پر اپنی سی وی بجھوا دی۔ چند دن بعد مجھے ایک کال موصول ہوئی کہ مجھے ایک آئل کمپنی نے جاب کے لیے منتخب کر لیا ہے۔ جس کے فائنل انٹرویو کے لیے سندھ کے ایک اندورن شہر میں بلایا گیا تھا۔ لیکن جب انہوں نے مجھے تنخواہ اور مراعات کی تفصیل بتائی تو میں پریشان ہوگیا۔ یہ مراعات اور تنخواہ میری قابلیت، تجربے، تعلیم سے بہت زیادہ تھیں بلکہ یوں سمجھیں کہ میری اوقات سے بھی بہت بڑی پیشکش کی جارہی تھی جو میری سمجھ میں نہیں آسکی اور میں نے معذرت کرلی کیونکہ مجھے محنت کام اور معاوضہ بہت زیادہ لگا تھا۔ آئے دن اس طرح کے جھانسے دیکر لوگوں کو لوٹا جارہا ہے۔ یہی نہیں کئی واقعات کاروبار میں رقم لگانے کا جھانسہ دیکر لوٹنے کے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ جب جب ہم بلا کسی محنت یا کم محنت کے بدلے زیادہ معاوضہ لینا چاہتے ہیں اپنی جان اور مال کو خطرئے میں ڈال دیتے ہیں۔
گذشتہ روز رحیم یار خان جانے کا اتفاق ہوا جونہی اس ضلع میں داخل ہوتے ہیں تو انتظامیہ کی جانب سے بڑئے بڑئے بورڈ آویزاں دکھائی دیتے ہیں جو لوگوں کو خبردار کر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں آپ ہنی ٹریپ تو نہیں ہو رہے یا کہیں آپ سستی گاڑی، جانور، ٹریکٹر خریدنے تو نہیں جارہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو محتاط ہو جائیں اور رک جائیں دراصل آپ اغوا ہونے جارہے ہیں۔ محبت اور سستی چیزوں کا لالچ آپکی جان لے سکتا ہے۔ یقیناََ محبت اور مالی فائدئے کا حصول انسانی خواہش ضرور ہوتا ہے لیکن یہ سب انسانی جان کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔
وصال محبوب کی کشش اپنی جگہ مگر زندگی کی اہمیت اپنی جگہ ہوتی ہے۔ آئے دن ہنی ٹریپ کے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ صرف لالچ ہی نہیں محبت بھی انسان کو سوچنے سمجھنے سے محروم کر دیتی ہے۔ یہ سلسلہ بڑا پرانہ ہے لیکن ہمار ا لالچ ہمیں بار بار اس حرص کے جال میں پھنسا دیتا ہے۔ زندگی میں ہر موقع کا فائدہ اٹھاؤ مگر کسی کو دھوکہ دے کر نہیں کسی کا بھروسہ توڑ کر نہیں۔
اشفاق احمد خان مرحوم کہتے ہیں کہ ایک بات زندگی بھر یاد رکھنا کسی کو دھوکہ نہ دینا دھوکہ میں بڑی جان ہوتی ہے یہ کبھی نہیں مرتا گھوم کے ایک دن واپس آپ کے پاس ہی آجاتا ہے کیونکہ اس کو اپنے ٹھکانے سے بہت محبت ہوتی ہے۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ "روئے زمین پر اکثریت میں ایسے لوگ ہیں جو دکھ تکلیف، اذیت، فریب اور دھوکہ تو انسانوں کو دیتے ہیں اور معافی اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں"۔ سوشل میڈیا پر آجکل مختلف سستی اشیاء کے اشتہارات عام سی بات ہے۔ ہر روز ایک نیا دھوکہ ہمارے لالچ کو آواز دئے رہا ہوتا ہے۔ اس لیے احتیاط کی ضرورت ہے بس چوہے والے فاصلے اور معاوضے کے فارمولے کو ذہن نشین کر لیں تو بچت ہو سکتی ہے۔