Talent, Rehnumai Aur Hosla Afzai
ٹیلنٹ، رہنمائی اور حوصلہ افزائی
قومی ہیرو ارشد ندیم وطن واپسی پر اپنے آبائی علاقے میاں چنوں اپنے آبائی گاوں پہنچے تو سب سے پہلے اپنے استاد رشید احمد ساقی کے ڈیرہ پر حاضری دی جہاں ان کے استاد محترم نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ کہتے ہیں کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ انسانی زندگی کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ یہ ستون جو زندگی کو معنی اور مفہوم کے حسین رنگوں سے نکھار دیتا ہے اور اعتماد کی سربلندیوں تک لے جاتا ہے۔
کوئی بھی ٹیلنٹ رہنمائی کے بغیر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ ہر کامیاب انسان کی زندگی کے پس پردہ اس کے استادوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بے شک ارشد ندیم کی کامیابی جہاں ماں باپ کی دعاوں کا نتیجہ ہے وہیں ان کے استاد رشید احمد ساقی اور کوچ سلمان بٹ کی مرہون منت بھی ہے۔ یہ استاد بادشاہ تو نہیں ہوتے مگر بادشاہ گر ضرور ہوتے ہیں۔ قدرت نے ان میں تربیت کی خداداد صلاحیت عطا کی ہوتی ہیں اور وہ اپنی پوری زندگی دوسروں کی کامیابیوں کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔
ہر شہر اور قصبے میں ہر ہر شعبہ زندگی میں یہ کردار ادا کرنے والے بہت سے عظیم استاد ہوتے ہیں جو خود تو گمنام ہی رہتے ہیں مگر ان کی تربیت کی بدولت بےشمار لوگ شہرت کی بلندیاں حاصل کر لیتے ہیں۔ پیرس کے میدان میں اپنے استاد سے گلے مل کر روتے ہوئے ارشد ندیم کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں اسکے استادوں کا کتنا بڑا کردار ہے۔ یہ گولڈ میڈل صرف اس نے نہیں جیتا بلکہ اسے جیتنے کے لیے بےشمار لوگوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں۔ ارشد ندیم نے اپنی اس جیت کو اپنے استاد اور کوچ کے نام کرکے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ کوئی کامیابی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی اور ٹیلنٹ رہنمائی کے بغیر بےکار ہوتا ہے۔
ایسا ہی ایک استاد اور کوچ کوٹ ادو شہر میں ہوا کرتا تھا جس نے اپنی پوری زندگی شوٹنگ بال کے کھیل کے لیے وقف کر دی اور کوٹ ادو کی کہکشاں والی بال ٹیم سے نیشنل اور انٹرنیشنل کھلاڑی پیدا کرکے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کر لیا۔ ان کھلاڑیوں کے نام تو دنیا میں مشہور ہو چکے ہیں لیکن وہ خود گمنامی کی دنیا میں کہیں کھو چکا ہے۔ شاید ہی اس شہر میں کسی کو اسکی جدوجہد اور قربانیوں کے بارے میں معلوم ہو؟ وہ کہتا تھا کہ ٹیلنٹ ایک ایسا پتھر ہوتا ہے جسے استاد یا رہنما تراش کر ہیرا بنا دیتا ہے۔ رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے بےشمار ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔ ہمیں صرف ٹیلنٹ نہیں اچھے تربیت کرنے والے کو چ بھی درکار ہیں۔
یہ پچاس کی دہائی کی بات ہے میرے ابا جی جب فوج سے فارغ ہوکر کوٹ ادو واپس آئے تو انہوں نے سوشل سرگرمیوں کا پھر سے آغاز کیا۔ اس وقت تک پاکستان میں سوشل ویلفیر کا محکمہ قائم نہیں ہوا تھا تو اباجی نے سوشل ویلفیر اوگنائزیشن پاکستان قائم کی جس کے سرپرست شہزادہ سعید الرشید عباسی تھے جو نواب آف بہاولپور کے فرزند تھے اور پھر اسی اورگنائزیشن کے تحت کوٹ ادو میں کہکشاں والی بال کلب کا قیام عمل میں آیا۔
کھیلوں کے بارے میں اس وقت تک وہاں کے لوگوں میں کوئی خاص شعور اور شوق نہیں تھا۔ اباجی نے تحصیل آفس کے پیچھے ریت کے میدان میں گروانڈ بنوا کر اس کھیل کا آغاز کیا وہاں اردگرد کے ہمسائے نواب سلیم خان صاحب اور عطا محمد نمبردار صاحب نے بڑا تعاون کیا۔ اس طرح شہر بھر کے نوجوانوں کے لیے ایک عمدہ تفریح میسر آگئی۔ کہکشاں والی بال کلب کے زیر اہتمام جب پہلا ٹورنامنٹ منعقد ہوا تو شہزادہ سعید الرشید عباسی صاحب خود ڈیرہ نواب صاحب سے وہاں تشریف لے گئے اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات تقسیم فرمائے۔
یوں تو بہت سے لوگ کہکشاں والی بال کلب کے بانیوں میں شامل تھے لیکن ان ہی میں سے ایک چھوٹے سے قد اور پتلی دبلی جسامت والا بجلی پہلوان سب سے آگے آگے ہوتا تھا۔ وہ شاید پہلا ایسا کھلاڑی بھی تھا جو والی بال کھیلنا جانتا تھا اور دوسروں کو تربیت دینے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا۔ ماضی میں پہلوانی کا شوق ہوا کرتا تھا اس لیے ممکن ہےکچھ داؤ پیچ بھی جانتا ہو مگر اپنی پھرتی کی وجہ سے مشہور وہ بجلی پہلوان ہی تھا۔ اس وقت وہ جنون کی حد تک والی بال کا شیدائی اور ایک تجربہ کار کھلاڑی شمار ہوتا تھا۔
کہتے ہیں کہ وہ دن بھر برف کا پھٹا لگا کر برف بیچتا تھا اور مزدوری کرتا تھا۔ جی ہاں میں نے خود اسے شہر میں برف فروخت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ دن بھر مزدوری سے چار پیسے کما کر شام ہوتے ہی والی بال گراونڈ پہنچ جاتا اور آپس میں دو ٹیمیں بناتا پھر آپس میں شرط لگا کر خوب زور شور سے کھیلتا۔ شہر کے لوگوں کے لیے اس وقت یہ واحد تفریح تھی اس لیے گروانڈ کے گرد جمع ہو کر ان کھلاڑیوں کو داد دیتے۔ بجلی پہلوان کھیلتا کم مگر بولتا بہت تھا۔ گراونڈ میں اسکی آواز گونجتی رہتی۔ اس وقت بجلی پہلوان اور ارشاد خان مٹھائی والے کا بڑا مقابلہ ہوتا تھا۔
بہر حال بجلی پہلوان کی محنت رنگ لائی اور کہکشاں والی بال کلب نے پاکستان بھر میں نام پیدا کر لیا ہر ٹورنامنٹ میں اپنی ٹیم لے جانا اور خرچ برداشت کرنا بجلی پہلوان کے لیے بے حد مشکل ہوتا تھا مگر وہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے آگے آگے ہوتا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب سرفرازخان کی صلاحیتیں اجاگر ہوئیں اور بجلی پہلوان کو ایک مضبوط نیشنل لیول کا نیٹ مین ساتھی مل گیا جو پاکستان بھر کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار ہوتاتھا۔ بجلی پہلوان کا مشن تھا کہ کوٹ ادو سے کہکشاں والی بال کلب کے کھلاڑی نا صرف نام پیدا کریں بلکہ علاقے کے ہر ٹورنامنٹ کو جیتا جاسکے۔
بجلی پہلوان اپنی خوش اخلاقی اور محبت کی باعث بڑوں اور بچوں میں اپنا الگ مقام رکھتا تھا جسے سب کھلاڑی احترام سے دیکھتے تھے۔ اپنے پستہ قد کے باوجود وہ بہترین سنٹر کھیلتا تھا۔ اس کی زندگی کا صرف ایک ہی مشن تھا کہ والی بال کو فروغ دیا جائے اور ایسے بڑے کھلاڑی تیار کئے جائیں جو پاکستان کی نمائندگی کر سکیں۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ٹیکنیک کو اپنا کر شوٹنگ بال کو جدید خطوط پر کھیلنے کی ترغیب دیتا۔ کہتے ہیں وہ والی بال کے نئے قوانین اور قواعد کے بارے میں کھلاڑیوں کو آگاہ رکھتا۔ نئی ٹیکنیک سے روشناس کراتا۔
آخر کار اس کی محنت رنگ لائی اور سرفراز خان، نثار قریشی، لطیف افضال جیسے نامور کھلاڑی اس کلب کی جانب سے کھیلتے ہوئے ناصرف پاکستان بلکہ عالمی مقابلوں تک جا پہنچے۔ لطیف افضال تو ہندوستان کے خلاف بھی شوٹنگ کھیل کر کامیاب ہوا۔ مگر تب تک بجلی پہلوان دنیا سے جاچکا تھا۔ کہکشاں والی کلب کے یہ کھلاڑی بھی دنیا میں نہیں رہے مگر ان کا نام ہمیشہ لیا جاتا ہے۔
اگر ہم نے دنیا میں کھیلوں کی دنیا میں نمائیاں مقام حاصل کرنا ہے تو یہ بجلی پہلوان اور سلمان بٹ جیسے لوگوں کی کاوشوں سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ آج کے دور میں نو جوانوں کو گراونڈ تک لانا اور انہیں اس جانب راغب کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ اکثر فٹ بال یا ہاکی کےگراونڈ کے باہر کھڑے کوچز کی پریشانی اور بےچینی دیکھ کر محسوس یہی ہوتا ہے کہ اس کا کھلاڑی سے زیادہ زور لگ رہا ہے۔
جی ہاں! میں نے یہ دیکھا ہے کہ ہر شہر میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو جنون کی حد تک مختلف کھیلوں کے فروغ کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ میں بےشمار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسی مشن میں وقف کردی کہ وہ اپنا فن آگے بڑھا سکیں اور جو کام وہ خود نہ کرسکے اپنے شاگردوں سے پورا کرالیں۔ ان کی بے لوث کوششیں اور جدوجہد یہ ہوتی ہے کہ ان کے علاقے اور شہر سے کوئی ایسا کھلاڑی یا اتھلیٹ ضرور پیدا ہو جو ملکی اور عالمی سطح پر ان کے شہر اور گاوں کا نام فخر سے بلند کر سکے۔ انہی شخصیات کی وجہ سے کوئی ایک مخصوص کھیل اس علاقے کی شناخت بن جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کھلاڑیوں کی سرپرستی اور کوچنگ بھی ایک خداداد صلاحیت ہے جو قدرت کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ دنیا میں اگر ریکارڈ بنانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں تو یقیناََ کچھ لوگ دنیا یہ ریکارڈ بنوانے کے لیے ہی آتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی اسی کام کے لیے وقف ہو جاتی ہے کہ ان کا شاگرد دنیا میں کوئی مقام حاصل کر لے۔ دنیا کے ہر کامیاب کھلاڑی کے پیچھے اسکے کوچ کی اس سے بھی زیادہ کوشش اور جدوجہد شامل ہوتی ہے۔ ناجانے کتنے ہی بجلی پہلوان اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں تو ایک کھلاڑی تیار ہوتا ہے۔
ارشد ندیم کو جو پذیرائی پاکستانی عوام نے دی ہے وہ یقیناََ اس کا حق ہے لیکن اس موقع پر اسکے استاد اور کوچ کی خدمات کا اعتراف بے حد ضروری ہے۔ ارشد کے ساتھ ساتھ ان کی رہنمائی کرنے والوں کو بھی اعزازت سے نوازنا چاہیے جنہوں نے اس ٹیلنٹ کو تلاش کیا اور یہاں تک پہنچنے میں رہنمائی کی ہے۔ کوئی بھی ٹیلنٹ رہنمائی کے بغیر اس طرح کے ریکارڈ نہیں بنا سکتا۔ اپنے اپنے علاقے میں بجلی پہلوان جیسے عظیم لوگوں کو تلاش کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو ٹیلنٹ تلاش کرتے ہیں اور ان کی تربیت ورہنمائی ااس ٹیلنٹ سے ورلڈ ریکارڈ بنواتی ہے۔