Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Riyasat Bahawalpur Mein Ramzan Shareef

Riyasat Bahawalpur Mein Ramzan Shareef

ریاست بہاولپور میں رمضان شریف

ڈیرہ نواب صاحب ریاست بہاولپور کا دارلخلافہ تھا یہ برصغیر کی واحد اسلامی ریاست تھی جہاں پر اسلامی روایات ریاست مدینہ کی امین تھیں یہ چھوٹا سا قصبہ آج بھی صادق گڑھ پیلس کے ارد گرد آباد ہے۔ یہاں رمضان شریف کا استقبال شعبان سے ہی شروع کر دیا جات اور شوال کے اختتام تک یہ ماحول بر قرار رہتا تھا۔ پورے ماہ ریاست کا ماحول یکسر بدل جاتا اور ہر طرف ایک مذہبی جھلک نظر آتی تھی۔ رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے ریاستی سطح پر محل کے اندر اہتمام ہوتا اور رمضان کی آمد کا اعلان صادق گڑھ پیلس سے تین چار بار سائرن بجا کر کیا جاتا اور گولے چلاے جاتے پھر مسجدیں بھر جاتیں اور لوگوں کے تمام معمولات بدل جاتے۔

رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس میں انسان ان لوگوں کی بھوک کو محسوس کرتا ہے جو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترستے ہیں یہ ایسا مہینہ ہے جو تحمل، برد باری، قربانی، ہمدردی، محبت اور برداشت کا درس دیتا ہے ریاست بہاولپور میں رمضان شریف سے قبل ہی اشیاء خوردونوش کی قیمتیں خود بخود کم ہو جاتیں نواب صاحب کے ملازمین اور علاقے بھر کے معذوروں، مسکینوں اور بیواوں کو عید پر خصوصی مالی مدد فراہم کی جاتی تھی۔

سحری کی ابتدا پھر سائرن سے ہوتی اور پھر شہر کے نوجوانوں کی ٹولیاں گلی گلی محلہ محلہ نعتیں پڑھتے ہوےگزرتیں اور لوگوں کو سحری کے لیے بیدار کرتیں یہ نعت خوان بڑے اچھے گھرانوں کے نوجوان ہوتے تھے اور ثواب کی غرض سے ان ٹولیوں کا حصہ بن جاتے تھےمیں خود بھی ان کا حصہ رہا۔ سرائیکی نعتیں وہاں بے حد مقبول تھیں نوجوان گھروں سے نکل کر ان ٹولیوں کا ساتھ دیتے ان ٹولیوں کے پیچھے پیچھے مشہور گانموں میراثی اپنا ڈھول لیکر آوازیں دیتا ہوا گزرتا تو پورا شہر جاگ اُٹھتا اور بازار کھل جاتے دہی اور دودھ کے خریدار بازار میں آجاتے یہاں کی ربڑی سے سحری کرنا بے حد پسند کیا جاتا تھا جو لوگ سر شام لیکر گھروں میں رکھ لیتے کیونکہ یہ گرمی میں بھی خراب نہیں ہوتی۔

سحری کے اختتام تک نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہتا اور ایک دفعہ پھر سائرن کی آواز بار بار گونجتی تو لوگ کھانا پینا بند کر دیتے اور ان سب کا رخ مساجد کی جانب ہوجاتا۔ اس وقت لاوڈ اسپیکر نہیں ہوتے تھے لیکن لوگوں کی آوازوں میں بڑا دم ہوتا تھا باآواز بلند آذان سنائی دیتی اور صبح کی نمازکے بعد ایک بار پھر کچھ دیر نعتوں کا سلسلہ جاری رہتا جو سلام پڑھ کر اختتام کو پہنچتا۔ دن بھر بازار سنسان نظر آتے احترام رمضان پر بڑی سختی سے عمل ہوتا خاص بات یہ تھی کے یہاں کے بالمیکی، مینگوال ہندو اور عیسائی بھی مسلمانوں سے یکجہاتی کے لیے مکمل احترام میں ساتھ دیتے تھے کوئی ہوٹل کھلا نہ ہوتا۔

نماز عصر کے بعد بازاروں میں رونق شروع ہوجاتی اور افطار کے لیے خریداری ہوتی۔ عصر کے بعد مختلف گلیوں اور محلوں میں آواز گونجتی "بالو بچوں خیرات گہن ونجو" یعنی بچوں آو اور خیرات لے جاو خیرات لینے کو کوئی عار نہ سمجھتا بلکہ ثواب سمجھا جاتا سب امیر وغریب بچے جاتے اوراپنی اپنی برتنوں میں خیرات لیکر آتے اس طرح ہر گھرمیں رمضان شریف کی برکات پہنچ جاتیں جو اتنی زیادہ ہوتی تھیں کہ پورا گھر افظاری کر لیتا تھا یہ سلسلہ پورے رمضان شریف گھر گھر جاری رہتا تھا۔ پھر افطاری کی تقریبات شروع ہوجاتیں یہ افطاریاں مخصوص لوگوں کے لیے نہیں ہوتی تھیں بلکہ تمام محلہ اور شہر مدعو ہوتا لیکن سادگی کا بے حد خیال رکھا جاتا بے جا اخرجات سے پرہیز کیا جاتا افطار کی اطلاع پاکر وہاں جانا بے حد ضروری ہوتا تھا ورنہ میزبان گلہ کرتا تھا۔

افطاری میں نمک، کھجور، جلیبی، پکوڑے اور میٹھا شربت پیش کیا جاتا اور کھانے میں سادہ چاول کی صرف ایک ڈش ہوتی۔ نواب صاحب اور صاحب حیثیت لوگ غربا و مساکین کے لیے اپنے دروازے کھول دیتے اور بڑی خاموشی سے ان تک امداد پہنچائی جاتی تھی۔ پورے رمضان کے دوران نعت خوانی کی مجالس جاری رہتی تھیں قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا تھا جسکے اثرات پورے سال محسوس کیے جاتے۔

دوسرے عشرے میں زکوۃ و خیرات کا سلسلہ اور بھی بڑھ جاتا اور باری باری ہر گھر میں افطاری کا اہتمام ہوتا اور جس کے لیے کسی دعوت نامے کی ضرورت نہ تھی دوسرا عشرہ اسلیے بڑی اہمیت کا حامل ہوتا تھا کہ اس دوران تمام مساجد کی سا لانہ صفائی اور چونا سفیدی، رنگ وروغن کیا جاتا اور مرمت کا اہتمام کیا جاتا جس سے پورا ماحول رنگوں کی بہار میں نہا جاتا تھا اس ماہ کی ہر ساعت نور اور برکتوں سے پر ہو جاتی اور سحری کا مزہ، افطاری کا انتظار، قرآن کی تلاوت، نعتوں کی بہار، رروزے کا یہ نور اپنی روحانی و جسمانی برکات کے ساتھ بس چند دن کا مہمان ہوتا ہے آخری عشرہ کے آغاز سے ہی رمضان شریف کی الوداعی تقریبات شروع ہوجاتیں۔

نعت خوان الوداعی جذبات کا اظہار کرتے اور باربار یہ نعت پڑھی جاتی "الودعی دا ماہ رمضان اے ارمان ہے بہوں ارمان اے" یعنی اب رمضان شریف کے الودع کا وقت آرہا ہےاس سے جدائی کا بہت افسوس ہے! مساجد میں ختم قرآن کی تقریب میں مٹھائی بانٹی جاتی اور اجتماعی دعا ہوتی آخری طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی خواہش میں شبینہ کا اہتمام ہوتا اور پورا شہر اس ختم قرآن اور محفل نعت میں شرکت کرتا تھا اور لوگ جمعۃ الودع کے روز گڑا گڑا کر اور رو رو کر رمضان شریف کو الودع کہتے ان کے چہرے آنسوں سے لبریز ہوتے تھے۔ یہاں رواج تھا کہ آخری عشرے میں لوگ اپنے سے ناراض اور روٹھے ہوے لوگوں کو مناتے اور عید سے پہلے ایک دوسرے سے معافی مانگ لیتے تھے سب سے بڑھ کر اس میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے آپس میں روٹھے لوگوں کی صلح کرانے میں سب لوگ خصوصی بزرگ اور خاندانوں کے بڑے اس میں اپنا کردار ادا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ روزے ناراضگی ختم کرنے سے ہی قبول ہوں گے۔

چاند رات میں عجب سماں ہوتا لوگ اپنی بیٹیوں، رشتہ داروں، دوستوں اور عزیزوں کے گھر چوڑیاں، مہندی سویاں، چینی، دودھ اور میوہ تحفہ کے طور بھجواتے تاکہ عید کی صبح ہر گھر میں سویاں پک جائیں۔ خواتین ایک دوسرے کے گھر جاکر مہندی لگانے کا اہتمام کرتیں لوگ رات کے اندھیرے میں غریب اور مستحق لوگوں کے گھروں میں فطرانہ اور زکوۃ تقسیم کرتے تاکہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو پاے اور صبح ان کی عید نماز بھی قبول ہو جاے۔

ڈیرہ نواب صاحب کی عید بہت شاندار ہوتی تھی جس کا اعلان سائرن بجا کر اور توپ کے گولے چلا کر کیا جاتا یہاں کی عید گاہ میں شامیانے لگ جاتے اور قالین بچھ جاتے تھے پورے شہر کو رنگ و نور سے جگمگ کر دیا جاتا سڑکیں پھولوں اور استقبالی جھنڈیوں سے سجا دی جاتیں تھیں کیونکہ نواب امیر آف بہاولپور یہاں نماز پڑھتے پوری ریاست کے لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے یہا ں پہنچتے اور عید گاہ کا وسیع ترین گراونڈ کھچاکھچ بھر جاتا نواب صاحب کے استقبال پر انہیں شاندار گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا جس میں گھڑ سوار دستے اور پیدل افواج شامل ہوتیں شاہی فوجی بینڈ دھنیں بجا کر ایک عجب سماں باندھ دیتا تھا جس سے لوگوں کی خوشیاں اور بھی دوبالا ہو جاتیں تھیں بازاروں میں بے پناہ رش ہوتا تھا۔ نواب بہاولپور عید نماز کے بعد یہاں کے یتیم خانے پہنچتے اور یتیم بچوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شامل ہوتے انہیں تحائف دیے جاتے۔

رمضان شریف اب بھی ہر سال آتا ہےعید یں بھی ہمیشہ مناتے ہیں ہم روزے بھی رکھتے ہیں نمازیں بھی پڑھتے ہیں خیرات و زکوۃ بھی ادا کرتے ہیں لیکن یہ سب روایات اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں وہ رونق اور خشوع وخضو اور وہ آنسو پھر سے دیکھنے کو دل کرتا ہے۔ اب وہ نعتوں کی ٹولیاں، جگانے والے لوگ، روٹھوں کو منانےاور صلح کرانے والے بزرگ اور بڑے کہیں نظر نہیں آتے اشیاء خور و نوش کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں بلکہ بڑھ جاتی ہیں۔ چاند رات کو بازاروں میں تو رش ہوتا ہے مگر فطرانہ اور زکوۃ چپکے چپکے پہنچانے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے عید نماز کے بعد اب بازاروں کی رونق کہیں کھو گئی ہے۔ اب سب کچھ ڈیجیٹل ہوتا چلا جارہا ہے رمضان اور عید پورا گھر ٹیلی وئژن اور موبائل پر گزارتا ہے ہماری روائتی اور حقیقی خوشیاں کہیں گم ہوگئی ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari