Pasand, Muhabbat Aur Nafrat
پسند، محبت اور نفرت

میرے کالمز کے ایک مستقل قاری نے ایک سوال لکھ کر بھجوایا ہے۔ جب بھی کوئی بھی قاری جب میرے کالمز پر کوئی تبصرہ کرتا ہے یا سوال اٹھاتا ہے تو مجھے یہ خوشگوار احساس ہوتا ہے کہ میرے کالمز ناصرف لوگ پڑھ رہے ہیں بلکہ اپنے تبصرے اور تجزیے سے بھی نواز کر میری حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ان کا سوال روزنامہ سرزمین لاہور میں میرے ایک محبت کے بارے لکھے گئے کالم سے متعلق ہے۔
ان کا سوال ہے کہ جاوید بھائی! آپ نے محبت کی تعریف اور اسکے معنی تو خوب بیان کئے ہیں لیکن ہمارے ذہنوں میں کئی دوسرے سوالات اٹھا دیے ہیں ذرا یہ وضاحت بھی کردیں کہ "پسند اور محبت میں کیا فرق ہے اور پسندیدہ انسان کے بغیر رہنا اور ناپسندیدہ انسان کے ساتھ رہنا آپ کی نظر میں ان دونوں میں سے زیادہ تکلیف دہ عمل کیا ہو سکتا ہے؟" آپ کی نظر میں محبت اور پسند ناپسند کے درمیان تعلق کیا ہے؟ کیا محبت کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمارے نظریات اور پسند یکساں ہوں؟ وہ کہتے ہیں کہ میرا سوال اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ قدرتی محبت کے بارے میں نہیں ہے جو اس نے خونی رشتوں میں رکھی ہے جیسے ماں باپ بہن بھائی اور اولاد سے محبت قدرتی امر ہیں بلکہ میرا سوال ان سے ہٹ کر کی جانے والی اور ہوجانے والی محبتوں اور پسند ناپسند سے ہے؟
مجھے پہلے پہلے تو یہ سوال کچھ عجیب لگا لیکن پھر اس کی گہرائی کا اندازہ ہوا کہ واقعی پسند اور محبت میں تعلق بھی ہے اور ان دونوں میں فرق بھی بہت بڑا ہے۔ یہ سوال زندگی کی گہرائیوں کو چھونے والا ہے۔ جواب دینے سے پہلے مجھے ایک دوست کی محبت اور پسند کے بارے میں کی گئی تعریف یاد آگئی ہے وہ کہتے ہیں کہ پسند اور محبت دونوں اچھے جذبے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ ایک پھول آپکو پسند آتا ہے تو آپکی خواہش ہوتی ہے کہ اسے فوری توڑ لیا جائے یا خرید کر کسی کالر یا گلدان یا جوڑے میں سجا دیا جائے اور اس کی خوبصورتی اور خوشبو سے وقتی فائدہ اٹھا کر ضائع کردیں جبکہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی پھول سے آپکو محبت ہے تو اس پھول کے ساتھ ساتھ اسکے پودے کی بھی آبیاری اور حفاظت کی جائے اور اسے دیکھ دیکھ کر آپکے دل کو سکون ملے۔ اس کی خوبصورتی اور خوشبو کی خواہش ہر وقت آپکے دل میں مچلے اور آپ کی یادوں میں ہمیشہ رہے اس کے مرجھانے اور جھڑنے کا دکھ محسوس ہو۔ یہاں تک کہ آپ اس کے بیج سنبھال کر رکھ لیں اور ہر سال اس کے پودے لگاتے رہیں۔
پسند، محبت اور نفرت انسانی جذبات کی گہری اور پیچیدہ کیفیات کا نام ہے جو ہماری زندگی کے رشتوں اور تعلق کو شکل دیتی ہیں۔ یاد رہے کہ پسند، ناپسند، انسانی محبت اور نفرت انسانی ذہنی ارتقا، شعور اور سوچ سے جڑے ہوتے ہیں جوں جوں ہمارا شعور بڑھتا ہے ان میں تبدیلی آتی ہے۔ ایک نوجوان جسے پسند یا ناپسند، محبت یا نفرت بیس سال کی عمر میں سمجھتا ہے وہی سب کچھ تیس یا چالیس سال کی عمر میں اس کی سوچ کی باعث یکسر بدل بھی جاتی ہے۔ گو اس موضوع پر پہلے ہی بےشمار لکھا جا چکا ہے پھر بھی اپنے قاری کو اپنی سوچ کے چند لفظوں سے مطمین کرنے کی کوشش ضرور کرونگا۔
کہتے ہیں کہ محبت ایک فطری جذبہ ہے جو کسی مخصوص پسند یا ناپسند پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کے دل کی گہرائیوں میں جنم لیتا ہے اور کئی بار بغیر کسی وجہ کے بھی وجود میں آجاتا ہے۔ محبت میں پسند اور ناپسند کی اہمیت تو ہو سکتی ہے لیکن یہ اس کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ پسند اور ناپسند کا تعلق زیادہ تر کسی کی شخصیت، عادات، نظریات یا شکل و صورت سے ہوتا ہے۔ ہم ان چیزوں کو پسند کرتے ہیں جو ہمارے نظریات یا مزاج سے مطابقت رکھتی ہیں یا ہماری سوچ سے میل کھاتی ہیں اور وہ چیزیں ناپسندکرتے ہیں جو ہمیں کسی نہ کسی طور پر پریشان کرتی ہیں یا تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ لیکن محبت کی نوعیت قطعی مختلف ہوتی ہے کیونکہ یہ دل کے کسی گوشے میں اس وقت جڑ پکڑ لیتی ہے جب انسان کی عقل اس پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔
محبت کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ ہماری پسند ناپسند کو بےمعنی بنا دیتی ہے۔ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں انسان دوسروں کی خامیوں کو قبول کرلیتا ہے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے۔ یہ پائیدار جذبہ جو پسند سے شروع ہوسکتا ہے لیکن وقت، قربانی اور باہمی رفاقت سے گہر ا ہوتا جاتا ہے۔ محبت میں قبولیت اور خلوص بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ جذباتی سکون اور خوشی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ محبت یکطرفہ اور دو طرفہ بھی ہو سکتی ہے۔
پسند ایک ابتدائی جذبہ ہوتا ہے جو کسی شخص، چیز یا عمل کی جانب مثبت جھکاو اور کشش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عموماََ سطحی یا وقتی ہو سکتا ہے اور ضروری نہیں کے ہمیشہ گہرا ہی ہو۔ پسندیدگی کا برقرار رہنا مشکل ہوتا ہے اور پسندیدگی کے معیار وقت اور چیزوں کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ البتہ کچھ پسند یدگی دائمی بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے کسی کو چنبیلی کے پھول پسند ہیں تو وہ ہمیشہ پسند ہی رہیں گے۔ جبکہ ناپسند کا مطلب کسی چیز، عمل یا شخص کو پسند نہ کرنا یا ناپسندیدگی کا اظہار کرنا یا کسی چیز کے خلاف ذاتی یا عمومی عدم رغبت کا ظاہر ہونا ناپسند دیدگی ہو تی ہے۔
پسند کی طرح ناپسند بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدل سکتی ہے اور عارضی بھی ہو سکتی ہے۔ البتہ پسند کی طرح بعض ناپسند چیزیں اور عادات و شخصیات دائمی ناپسند ہی رہتی ہیں جیسے کچھ لوگوں کو شور ناپسند ہوتا ہے کچھ لوگ زیادہ بولنا ناپسند کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ کھانے پینے کی اشیاء ناپسند کرتے ہیں۔ کچھ چیزیں اور عادتیں انفرادی ہی نہیں اجتماعی طور پر پسند نہیں کی جاتیں جیسے جھوٹ بولنا، ہیرا پھیری کرنا وغیرہ۔
نفرت محبت کا الٹ ہوتی ہے۔ یہ منفی جذبہ ہے جو کسی شخص یا چیز کے بارے میں شدید ناپسندیدگی یا مخالفت ظاہر کرتا ہے۔ نفرت اکثر مایوسی دھوکے یا غلط فہمی کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے اور دل و دماغ کو زہر آلود کردیتی ہے۔ بعض اوقات کسی سے بہت زیادہ محبت دوسروں سے نفرت کا باعث بن جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محبت اور نفرت دونوں ایک حد تک شدت رکھتے ہیں اور کبھی کبھار ایک دوسرے میں بدل بھی سکتے ہیں۔ کیونکہ نفرت خود قابل نفرت ہوتی ہے۔
پسندیدہ انسان کے بغیر رہنا ایک گہرا اور خاموش دکھ دیتا ہے۔ یہ ایک خلا کی مانند ہوتا ہے۔ جہاں یادیں، خواہشیں اور ادھورے خواب مسلسل دل کو بےچین رکھتے ہیں لیکن اس میں آزادی ہوتی ہے کہ انسان خود کو کسی اور سمت میں لگا کر وقت کے ساتھ خود کو بدل یا سنبھال سکتا ہے۔ پسند کیونکہ وقتی امر ہے اس لیے جلد بدل بھی سکتی ہے۔ پسندیدہ انسان کے بغیر جینا مشکل ضرور ہوتا ہے مگر ممکن ہوتا ہے کیونکہ انسان وقت کے ساتھ خود کو سنبھالنا سیکھ لیتا ہے، تکلیف دہ یادوں کو بھولانا یا ان کے ساتھ ہی جینا سیکھ لیتا ہے۔ زندگی کی سمت کو کسی اور جانب لگا کر پسند بدلنے کی بھی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
البتہ ناپسندیدہ انسان کے ساتھ زندگی گزارنا مسلسل ذہنی اور جذباتی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ ہر دن ایک آزمائش محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ جذباتی طور پر مطمین نہ ہونے کے باوجود ساتھ نبھانے کی مجبوری ہوتی ہے۔ اس میں آزادی نہیں ہوتی اور وقت کے ساتھ یہ گھٹن، مایوسی اور حتی کہ نفرت میں بھی بدل سکتی ہے۔ اگر دیکھا جاے تو ناپسندیدہ انسان کے ساتھ رہنا واقعی مشکل ہوتا ہے اور یہ بڑے لوگوں کا کام ہوتا ہے کہ تمام تر ناپسندیدگی کے باوجود اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ ایسے لوگ جو صبر، قربانی اور برداشت کی انتہا کو پہنچ چکے ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے بڑھ کر کسی بڑے مقصد، خاندانی نظام، یا دوسرں کی خوشیوں اور عزت کو مقدم رکھتے ہیں۔ وہ ہر روز اپنے جذبات، خواہشات اور سکون کو پس پشت ڈال کر رشتے نبھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سے رشتے بظاہر قائم رہتے ہیں لیکن اندر سے خالی ہوتے ہیں اور شاید اسی لیے بعض لوگ اندر ہی اندر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی خوشیوں سے زیادہ دوسروں کی توقعات پر پورا تانا چاہتے ہیں۔
جی ہاں! صبر، قربانی اور مجبوری یہ تینوں ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں لیکن ہر ایک کی نوعیت اور اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو صبر اور قربانی طاقت کی علامت ہیں جبکہ مجبوری کمزوری کی نشانی ہوتی ہے جہاں انسان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا یا حا لات اسے کسی خاص سمت دھکیل دیتے ہیں۔ صبر اور قربانی میں انسانی اختیار شامل ہوتا ہے جبکہ مجبوری میں بے بسی ہوتی ہے۔ مجبوری میں کیا گیا صبر یا دی گئی قربانی اکثر تکلیف دہ ہوتی ہے کیونکہ یہ مرضی سے نہیں بلکہ حالات کی سختی کی وجہ سے دینی پڑتی ے۔ اس لیے اگر کوئی صبر اور قربانی کو اپنی طاقت بنالے تو مجبوری اور بے بسی سے نکل کر اپنے حالات بدلنے پر قادر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اگر قربانی دل سے دی جائے تو یہ بوجھ نہیں تسکین کا باعث بن جاتی ہے۔

