Lathi Aur Burhapa
لاٹھی اور بڑھاپا

میرے ایک دوست اور ہمسائے جو میرے نماز اور مسجد کے ساتھی بھی ہیں۔ وہ بڑے عرصے سے بیمار بھی ہیں۔ انہیں چلتے چلتے یا پھر اٹھتے بیٹھتے چکر آتے ہیں۔ اکثر اوقات وہ گر بھی پڑتے ہیں۔ اکثر انہیں کسی شخص یا کسی دیوار کا سہارا لیکر اپنے آپ کو گرنے سے بچانا پڑتا ہے۔ اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں نماز مسجد میں ہی پڑھنے کی خواہش اکثر انہیں غیر متوقع مسائل سے دوچار کر دیتی ہے۔ میں نے ان کی صحت اور کمزوری کو دیکھتے ہوئے کئی مرتبہ مشورہ دیا ہے کہ وہ لاٹھی کا استعمال کرنا شروع کریں۔ لیکن ان کی خوداداری اور حوصلہ انہیں لاٹھی کا سہارا نہیں لینے دیتا۔ بلکہ وہ اپنے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ ان کے سہارے ہی اپنی ضرورت پوری کرنے کو بہتر اور قابل فخر سمجھتے ہیں۔
ان سے اکثر لاٹھی کی افادیت کے بارے میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اسی گفتگو کے دوران مجھے لاٹھی اور بڑھاپے کے پرانے ساتھ کا خیال آیا تو مجھے اپنے والد صاحب یاد آگئے جو ستاسی سال کی عمر میں بھی ہمارے کہنے اور زور دینے کے باوجود لاٹھی لینا یا پکڑنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لاٹھی پکڑ نے سے مجھے محتاجی کا احساس ہوتا ہے لاٹھی کمزوری اور بےبسی کی علامت ہے اور میں لاٹھی جیسے عارضی سہاروں کا محتاج نہیں ہونا چاہتا اس لاٹھی پکڑنے سے میرا خود پر سے بھروسہ ٹوٹ جائے گا۔ یہ عارضی سہارے انسان کو دوسروں کا محتاج بنا دیتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے ہمیشہ لاٹھی انسانی تنہائی کی علامت محسوس ہوتی ہے۔ اللہ کے بعد میری ہمت، حوصلہ اور اولاد کی موجودگی ہی میرا سہارا ہیں۔ بیساکھیاں اور لاٹھی صرف معذوروں کے لیے ہوتی ہیں جبکہ میں تو اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہو سکتا ہوں۔
ہمارے داداجان مرحوم نے مختلف قسم کی کئی لاٹھیاں گھر کے ایک کونے میں رکھی ہوئی تھیں جو مجھے زندگی میں کبھی استعمال ہوتے نظر نہ آسکیں۔ بڑھاپے کے باوجود دادا جان اور دادی جان کو کبھی بھی لاٹھی کے سہارئےچلتے نہ دیکھا۔ ایک مرتبہ داداجان سے پوچھا کہ یہ لاٹھیاں کیوں رکھ رکھی ہیں تو کہنے لگے لاٹھی صرف ایک لکڑی کے ڈنڈے کا نام نہیں ہوتا یہ سہارے اور حوصلے اور عزم کا نام ہوتا ہے یہ لاٹھیاں بلاوجہ کے دشمنوں کے لیے رکھی ہیں۔ میں نے پوچھا بلاوجہ کے دشمن کون ہوتے ہیں؟ تو کہنے لگے چور چکار، سانپ بچھو، کتا، یا کوئی بھی نقصان پہنچانے والا جانور وغیرہ بلاوجہ کے دشمن ہی تو ہوتے ہیں اور تو اور بڑھاپے میں بھی لاٹھی ہی کی مدد اور ضرورت سب سے زیادہ پڑتی ہے۔۔
میں ہنس کر بولا بڑے ابا جی! پھر تو بڑھاپا بھی بلاوجہ کا دشمن ہی ہوا تو وہ کہنے لگے بڑھاپا دشمن نہیں یہ تو اللہ کی عطا کردہ نعمت ہوتا ہے جو قسمت والوں کو صرف اس لیے ملتا ہے کہ وہ اپنی بخشش کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگ سکیں اپنی غلطیوں اور کوہتایوں کا ازلہ کرسکیں بڑھاپے جیسا ساتھ نبھانے والا دوست سب کو بھلا کب ملتا ہے؟ بڑھاپا زندگی کا وہ خوش قسمت لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنی نسلوں کی کامیابیوں کو دیکھ کر خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی بھر کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچتا دیکھ کر اپنی زندگی بھر کی جدوجہد اور محنت کا پھل پاتا ہے۔
بزرگ سہارے سے زیادہ اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے لاٹھی پکڑتے ہیں۔ پھر جب ہمارے گھر میں ایک مرتبہ سانپ نکل آیا تو پہلی مرتبہ اسے مارنے کے لیے لاٹھی کا استعمال اور بلاوجہ دشمن کا مطلب سمجھ میں آیا۔ داداجان کی ہدایت تھی کہ گھر میں ایک دو مضبوط بانس کی لاٹھیاں ضرور موجود ہونی چاہیں۔ ایک مرتبہ دادی جان چلنے پھرنے سے قاصر ہوئیں تو سب نے لاٹھی کے سہارے چلنے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے صاف انکار کردیا اور بیٹیوں اور بہووں کا سہار لیناہی مناسب سمجھا۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ لاٹھی تو وہ پکڑے جس کی کوئی اولاد نہ ہو میرے تو سات بچے ہر وقت میرے ساتھ ہیں۔ مجھے بھلا لاٹھی کے سہارے کی کیا ضرورت ہے؟
ہمارے معاشرے میں بڑھاپے کو اکثر بےبسی اور بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ بزرگ اسے نعمت خداوندی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ عمر انسان کی دانشمندی اور تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے۔ بزرگوں کے ساتھ بہتر رویہ ان کی ضرورتوں کو سمجھنا اور انہیں سماجی طور پر بحال رکھنا ہی ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں جو انہیں لاٹھیوں کی ضرورت سے آزاد کر دیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بزرگوں کی تنہائی، غربت اور نظر اندازی جیسے مسائل کبھی کبھی انہیں لاٹھی کا سہار الینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ لاٹھی سہارا نہیں ان کی تنہائی کا ساتھی اور دوست ہوتی ہے۔ لاٹھی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسان کو بڑھاپے میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
والدین، دادا، دادی اور نانا نانی جیسے رشتوں کا احترام اور ان کے تجربات سے سیکھنا نہ ہماری ذمہ داری ہے بلکہ ہماری نسلوں کی تربیت کا ایک اہم جزو بھی ہے۔ ہماری جانب سے ان کی زندگی بھر خدمات کا اعتراف ان لیے باعث تسکین اور فخر ہوتا ہے جو بزرگوں کو لاٹھی کے سہارے اور تنہائی کی اذیت سے نجات دیتا ہے۔ بڑھاپا زندگی کے اس سبق کا مجموعہ ہے جو ایک انسان نے اپنی جوانی سے لے کر بڑھاپے تک سیکھا ہوتا ہے۔ لاٹھی اور بڑھاپے کی مثال ہمیں یہ بھی سیکھاتی ہے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی عمر کے ہر مرحلے کو قبول کرنے کانام ہے۔ یہ وقت ہے سکون، دعا اور اپنے پیچھے ایک ایسی میراث چھوڑنے کا جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن سکے۔
دور جدید میں ہماری زندگی میں بہت تیزی آگئی ہے ہماری مصروفیات اور ہمارے ہاتھوں میں موجود موبائل فون ہمیں بزرگوں کے لیے بات کرنے کا بھی وقت نہیں نکالنے دیتا۔ پورے گھر والوں کے ہاتھوں میں چلتے موبائل بزرگوں کی تنہائی میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ جو ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ جبکہ چھوٹی سی خوشی، تھوڑا سا پیار بھرا لہجہ، ہلکی سی مسکراہٹ ہی سے وہ نہال ہو جاتے ہیں۔ انہیں لاٹھی کا سہارا نہیں اختیار دیں جی ہاں! سننے کا اختیار، کہنے کا اختیار، ڈانٹنے کا اختیار، پیار کرنے اور بات چیت کرنے کا اختیار ہماری عدم توجہی اور سرد رویوں سے وہ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب شاید وقت ان کا نہیں رہا اور وہ خود کو تنہائی کے خول میں بند کرلیتے ہیں اور لاٹھی پکڑ لیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ بڑھاپا زندگی کا وہ مرحلہ ہے جہاں جسمانی توانائی کمزور پڑنے لگتی ہے لیکن تجربے اور حکمت کا خزانہ اپنی معراج پر پہنچ جاتا ہے۔ اس عمر میں لاٹھی محض سہارا نہیں بلکہ ایک وفادار ساتھی، ایک دوست اور زندگی کا لازمی حصہ بن جاتی ہے۔ لکڑی کا یہ ٹکڑا جسے لاٹھی کہتے ہیں بڑھاپے کی علامت بھی ہے اور اس حقیقت کی نمائندہ بھی ہے کہ انسان اپنی عمر کے آخری اور کمزور حصے میں دوبارہ کسی سہارا دینے والے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ وہ مضبوط ہاتھ جو کبھی کسی دوسرے کو سہارا دیا کرتے تھے اب خود کسی سہارے کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ لاٹھی اور بڑھاپا ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہی سمجھے جاتے ہیں۔
بڑھاپے میں لاٹھی ایک جسمانی سہار اتو ہے ہی مگر اس سے بڑھ کر یہ ایک یاد دہانی ہے کہ ہمیں اپنے بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے اور لاٹھی کی طرح ان کی خدمت کرکے ان کا سہارا بننا چاہیے۔ تاکہ وہ زندگی کے اس مرحلے کے قیمتی لمحات عزت اور سکون سے گزار سکیں۔ ایک ایسے وقت میں جب جسم کمزور ہو چکا ہوتا ہے اور قدم لرزنے لگتے ہیں، لاٹھی انسان کو اس یقین کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ کچھ معاشرتی موضوع چھیڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے میرے آج کے کالم کا موضوع بڑا مشکل اور منفرد ضرور ہے لیکن یہ اس لیے لکھنا ضروری ہو چکا ہے کہ میں خود ستر سال کی عمر کے کے آخری حصہ میں ہوں اور اپنی عمر کے لوگوں کی نمائندگی کر نا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
ہمیں معاشرتی طور پر اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ بڑھاپے کے مسائل صرف انفرادی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ لاٹھی جو ہم بزرگوں کی کمزوری کا نشان سمجھی جاتی ہے درحقیقت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں ان بزرگوں کی عزت کرنی چاہیے ان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کا بہترین طریقہ ہے کہ ہم انہیں وقت دے کر تنہائی کا احساس نہ ہونے دیں۔ اگر ہم بزرگوں کو ان کی لاٹھی کے سہارے اکیلا چھوڑ دیں گے تو یہ ہماری اخلاقی ناکامی ہوگی۔ ہمیں ان کے لیے خود ایک لاٹھی بننا ہوگا تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری اور سب سے قیمتی لمحات عزت سکون اور فخر کے ساتھ گزار سکیں۔

