Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Jo Hum Sunna Chahte Hain Wohi Sach Hai?

Jo Hum Sunna Chahte Hain Wohi Sach Hai?

جو ہم سننا چاہتے ہیں وہی سچ ہے؟

کہتے ہیں کہ سچ کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے جو عجیب ہونے کے ساتھ ساتھ وقت اور سوچ کے ساتھ ساتھ اپنی سمت بدلتی رہتی ہے۔ بظاہر تو انسانی خواہش سچ کہنے اور سننے کی ہی ہوتی ہے۔ لیکن سچ کیونکہ اکثر بہت کڑوا ہوتا ہے اس لیے ہر شخص اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتا ہے۔ اسی لیے سچا آدمی معاشرے میں تنہا رہ جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ سچ بول رہا ہے لیکن سب سمجھتے ہیں کہ وہ سچ کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ سچ کا وزن بہت بھاری ہوتا ہے اور اسے اٹھانا اور برداشت کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔

سچ ایک ایسے آئینے یا شیشے کی طرح ہوتا ہے جو وہی دکھاتا ہے جو ہوتا ہے لیکن ہم وہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمارا دل چاہتا ہے۔ آئینہ آپکی خواہش پر نہ تو آپ کے سر پر بال ہی اگا سکتا ہے اور نہ ہی آپکے سیاہ رنگ کو سفید کرسکتا ہے۔ اسی لیے آئینے کو شفاف مگر بےرحم سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ہم اپنی ناتمام خواہشوں کے اسیر اس آئینے پر دھند کے پردے ڈال کر چاہتے ہیں کہ وہ ہماری مرضی کی تصویر دکھائے کیونکہ سچ کی کڑواہٹ محسوس کرنے کا حوصلہ ہر کسی میں نہیں ہوتا۔

دوسرے ہماری نظریں اور سماعتیں بھی جھوٹ در جھوٹ کی اس قدر عادی ہو چکی ہیں کہ اب تو سچ پر جھوٹ کا گمان ہوتا ہے۔ اسٹالن نے کہا تھا کہ "ہر سچ کا ایک وقت ہوتا ہے اگر سچ وقت پر نہ بولا جائے تو وہ سچ نہیں رہتا بلکہ جھوٹ بن جاتا ہے" گویا کہ سچ کی بھی ایک عمر یا ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے۔

میرے ایک دوست بڑے اچھے کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم ہمیشہ سچ پر مبنی ہوتے تھے کچھ عرصہ قبل انہوں نے لکھنا بند کردیا تو میں نے پوچھا بھائی! ایسا کیوں؟ تو کہنے لگے یار! میں صرف سچ لکھتا ہوں جبکہ جھوٹ میں لکھ نہیں سکتا اور سچ لوگوں کو پسند نہیں آتا۔ درحقیت لوگ بظاہر وہ سچ سننا پسند کرتے ہیں جو ان کے نظریات، سوچ اور فائدئے سے متصادم نہ ہو ان کے لیے سچ وہی ہے جو ان کے اندر سوال نہ اٹھائے انہیں آئینہ نہ دکھائے یا انہیں تبدیل ہونے پر مجبور نہ کرئے۔ دوستوں کی ناراضگیاں بڑھنے کے خدشات بڑھنے لگے سو کالم نگاری ہی چھوڑ دی ہےکیونکہ سچائی کا بوجھ اب اٹھانا مشکل ہوگیا ہے۔ جب پورے بازار میں ہی جھوٹ بک رہا ہو تو سچ کے خریدار کہاں سے لاوں؟

پھر کہنے لگے شاید میرے سچ بولنے، سننے اور لکھنے کی عمر اب گزر گئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حقیقت ہماری مرضی کی تصویر دکھائے ورنہ ہم آنکھیں موڑ لیتے ہیں۔ سچ جب ہمارے خوابوں کو چکنا چور کرتا ہے تو ہم اسے جھوٹ کا نام دے دیتے ہیں۔ بہادری تو یہ ہے کہ ہم آئینے پر نظر آنے والے ہر داغ کو دیکھنے اور قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کریں کیونکہ سچ ہماری خواہشات کو غلام نہیں وہ تو آزاد پنچھی کی طرح اپنی راہ کا مسافر ہوتا ہے۔

ہمارئے دوست محمد سعید چشتی مرحوم جو ایک سرکاری افسر، وکیل، شاعر، دانشور اور بڑی عمدہ سوچ کے حامل انسان تھے ان کا قول تھا کہ سچ وہ ہوتا ہے جسے مان لیا جائے۔ کسی بات کو تسلیم کر لینےاور مان لینے کو اس وقت تک سچ ہی سمجھا جاتا ہے جب تک اس کی ایکسپائری ڈیٹ نہیں آجاتی۔ آج سے چند دھائیوں قبل تک جو دعوے سچ سمجھے جاتے تھے آج جدید سائنس نے انہیں سب سے بڑے جھوٹ ثابت کردیا ہے۔

ہمارا وہ دوست کہا کرتا تھا کہ آج کا جھوٹ کل کا سچ اور آج کا سچ کل کا جھوٹ ہوسکتا ہے۔ یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم کبھی زمین کو گول اور پھر کبھی اسے بیضوی قرار دے دیتے ہیں۔ دنیا گول ہے یہ تب بھی سچ سمجھا جاتا تھا لیکن اس کا بیضوی ہونا آج بھی بڑا سچ ہے۔ جوں جوں سائنس اور ریسرچ آگے بڑھتی ہے ماضی کے سچ جھوٹ نظر آنے لگتے ہیں۔ گویا اکثر سچ وقت اور ضروت کے محتاج ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو ہم دیکھتے ہیں وہ ہمیشہ حقیقت یا سچ نہیں ہوتا۔

انسان بھی عجیب فطرت لے کر آیا ہے وہ سچ کو سچ تب مانتا ہے جب وہ اس کے دل کی سرگوشیوں اور خواہشات سے ہم آہنگ ہو۔ یا پھر جو بات اس کے ارمانوں اور تمناوں کی تکمیل سے میل کھائے تو خوشی خوشی قبول کر لیتا ہے اور سچ کا بول بالا قرار دیتا ہے۔ مگر جو سچ اس کی دنیا اور زندگی کو لرزا کر رکھ دے اس کی آنکھوں میں گرد بھر دے اسے رد کردیتا ہے۔ یوں سچ جو بےنیاز ہوتا ہے انسان کی خواہشات کی کسوٹی پر پرکھا جانے لگتا ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سچ بولنے کے لیے کھری زبان، سچ سننے کے لیے بڑا دل اور سچ لکھنے کے لیے قلم بڑا چاہیے کیونکہ کڑوی حقیت اور سچائی ہمارے خوبصورت اور میٹھے خوابوں کوتوڑنے کا ہنر رکھتی ہیں۔

ہر وہ سچ جو زخموں کا چیر دئے جو آسانیوں میں چھپے ظلم کو بےنقاب کردئے یا ان کے جھوٹے اور مصنوعی سہاروں کو ہلا کر رکھ دے اسے رد کردیا جاتا ہے۔ کیونکہ لوگ سچ کے نہیں اپنے سچ کے عاشق ہوتے ہیں، وہ سچ جو انہیں خود کو بدلنے پر مجبور نہ کرئے۔ سچ بولنے والا انسان اور سچ دکھانے والا آئینہ ہمیشہ تنہا رہ جاتا ہے۔ اپنی انا اور ہٹ دھرمی سے ذرا ہٹ کر کسی سچ کو قبول کرنا بہت بڑے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سچے انسان کے جھوٹ میں کوئی اچھا مقصد ہو سکتا ہے لیکن جھوٹے انسان کا سچ بھی صرف آگ لگانے کے لیے ہوتا ہے۔

سیکھ نہیں پایا میں میٹھے جھوٹ کا ہنر
کڑوئے سچ نے کئی شخص چھین لیے مجھ سے

مجھے ایک قاری نے لکھا کہ جاوید صاحب آپ کے کالم بہت اچھے مگر سچ پر مبنی ہوتے ہیں اس لیے بہت سے لوگ تنقید بھی کرتے ہیں اور آپ کا سچ برداشت نہیں کرپاتے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ تھوڑا بہت ان کی مرضی کا لکھ کر تھوڑا سا جھوٹ بھی لکھ دیں تو سب خوش ہوجائیں گے ان کی دل آزاری بھی نہیں ہوگی۔ میں نے اسے جواب دیا کہ میں تنقید یا سچ لکھنے پر برا بھلا سننے سے بدمزہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مجھے غصہ آتا ہے میں سفید پانی کو دودھ کہہ کر لوگوں کو خوش تو کر سکتا ہوں مگر دودھ کا ذائقہ تو پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ حقائق پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ صرف ایک جھوٹ پچھلے تمام سچ کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ جو الفاظ اور تحریریں میرے کالم یا مضمون میں پڑھا کریں ان کو اپنے اردگرد دیکھا کریں اگر میں لکھتا ہوں کہ "معاشرہ ملاوٹ کی لپیٹ میں ہے" اور اگر آپ کو ایسا نظر بھی آئے تو یہ سچ ہے اور میں سچ لکھ رہا ہوں کیونکہ میں وہی لکھتا ہوں جو اپنے اردگرد دیکھتا ہوں۔ جبکہ اکثر لوگ اب اس بات کا دفاع نہیں کرتے جو صیح ہے بلکہ وہ اس بات کا دفاع کرتے ہیں جو انہیں پسند ہے۔ یعنی سچائی اور درستی کی بجائے ذاتی پسند اور مفادات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

جانبداری، تعصب، ذاتی مفاد، جذباتی وابستگی، گروہی سوچ ہی اپنے خلاف کسی دلیل کو کبھی سننا یا قبول کرنا پسند نہیں کرنے دیتی۔ میری تحریروں سے اگر ایک شخص بھی سمجھ کر قبول کرلے تو یہ میری جیت ہوگی۔ میرے کالم کا کام معاشرئے کے کھڑے اور ٹھہرے ہوئے ساکت پانی میں ایک کنکر پھینکنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا اس کنکرکے گرنے سے پھیلنے والے لہروں کے گول گول دائرئے بڑی دور تک پھیلتے ہوئے بڑے ہوتے جاتے ہیں اور ایک مرتبہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ ضرور کرتے ہیں۔ پھر ہماری بے حسی اور عدم توجہی کی باعث خود بخود اپنی موت آپ مر جاتے ہیں تو میں پھر ایک پتھر پھینک دیتا ہوں اور آواز اٹھانے کے اس سلسلے کو رکنے نہیں دیتا۔ جی ہاں ! یہ دور تک پھیلتے دائرے ہی دراصل سچ ہوتے ہیں۔ سچ کا ساتھ دیں سچ کو تنہا نہ ہونے دیں، سچ کو رکنے نہ دیں ورنہ جھوٹ اس قدر پھیلے گا کہ وہی سچ لگنے لگے گا۔ اپنے دن کی ابتدا ہمیشہ سچ سے کریں۔

ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنام عظمت کردار آو سچ بولیں

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam