Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Darakht Parinde Aur Hamari Zindagi

Darakht Parinde Aur Hamari Zindagi

درخت پرندے اور ہماری زندگی

درخت جن پہ پرندوں کے گھر نہیں ہوتے
دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے

اس شعر میں فطرت کے ایک گہرئے استعارئے کے ذریعے زندگی کی ایک اہم سچائی اجاگر کی گئی ہے۔ آسمان کو چھوتے اور باتیں کرتے درختوں کی بلندی اکثر ہمیں متاثر کرتی ہے۔ لیکن کیا ہر اونچا اور سایہ درا درخت قابل رشک بھی ہوتا ہے؟ درخت کی عظمت اس کی اونچائی سے نہیں اس کے سائے میں تھکے مسافروں کے سکون سے ہوتی ہے۔ جو کڑی دھوپ میں ٹھنڈا سایہ اور بارش میں پناہ بن جائے۔ بلندی اپنی جگہ مگر فائدہ نہ ہو تو درخت محض لکڑی اور پتوں کا ایک ڈھانچہ ہے۔ بلندی کوئی تمغہ یا سند نہیں ہوتی جب تک اس سے کسی اور کو پناہ نہ ملے۔ قد وہی بلند ہے جو سر کو جھکا دئے اور چراغ وہی جو اندھیروں میں روشنی دئے اور جو جل کر اوروں کو بھی جلا کر پھونک نہ دئے۔

روشنی میں چاند سی ٹھنڈک ہونی چاہیے نہ کے سورج سی تپش جو برداشت نہ ہو پائے۔ اچھی اور مثبت سوچ کی حدود نہیں ہوتیں ان کا تو معیار ہوتا ہے۔ یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ محض ظاہری قدوقامت یا طاقت کسی شے یا شخص کی عظمت کی ضمانت نہیں ہوتی۔ جیسے درخت چاہے جتنا بھی بلند ہو اگر سایہ نہ دئے اور پرندئے وہاں امان نہ پائیں تو وہ بے معنی ہے۔ اسی طرح بے فائدہ انسان بھی قد وقامت، عہدئے، دولت یا شہرت سے معتبر نہیں ہو پاتا۔

قد کاٹھ سے نہ تولو کسی کی عظمت کو
کئی جھکے ہوئے بندئے بھی فلک چومتے ہیں

کہتے ہیں کہ ایک گھنے جنگل میں ایک بوڑھا زرافہ رہتا تھا جس کی گردن سب سے لمبی اور جسم سب سے اونچا تھا۔ وہ ہمیشہ خود کو بہت خاص سمجھتا تھا اور اکثر دوسرے جانوروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا تھا۔ جب کوئی چھوٹا جانور اس سے بات کرنے آتا تو وہ سر اوپر کرکے کہتا "تم لوگ میری گردن کے برابر بھی نہیں ہو، تم لوگ مجھے کیا سکھا سکتے ہو"؟ جنگل کے سب جانور اس کے غرور سے پریشان تھے۔ ایک دن جنگل میں شدید آندھی آئی۔ تیز ہواؤں اور طوفان نے ہر چیز کو تہس نہس کر دیا۔ سب جانور اپنی جان بچانے کے لیے زمین کے اندر، درختوں کے نیچے یا بلوں میں چھپنے لگے۔ لیکن زرافہ، جس کی گردن بہت اونچی تھی، کہیں چھپ نہیں سکا۔ طوفان کی شدت سے درخت کی بڑی شاخ ٹوٹ کر اس پر گری اور وہ بری طرح زخمی ہوگیا۔ اب اسے مدد کی ضرورت تھی لیکن اس کے رویے کی وجہ سے کوئی بھی جانور اس کے پاس نہیں آنا چاہتا تھا کیونکہ وہ سب اس کے تکبر سے دل برداشتہ ہو چکے تھے۔

تب ایک چھوٹے سے کچھوے نے ہمت کی اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا زرافہ کے پاس آیا۔ اس نے زرافہ کو دلاسہ دیا اور دوسرے جانوروں کو بھی مدد کے لیے بلایا۔ سب نے مل کر زرافہ کی دیکھ بھال کی اس کے زخم صاف کیے اور اسے خوراک لاکر دی۔ زرافہ نے پہلی بار اپنے آنسو پونچھے اور کہا آج میں نے سیکھا کہ اونچائی سے کسی کی عزت نہیں بڑھتی بلکہ دوسروں کا احترام کرنے سے دل بڑا ہوتا ہے۔ کبھی بھی اپنے قد، طاقت یا حیثیت پر غرور نہ کرو کیونکہ جو دل سے بڑا ہوتا ہے، وہی اصل بڑا ہوتا ہے۔ اونچائی نہیں افادیت معتبر ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بےسایہ درخت اور بےاثر انسان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ عظمت اور بڑائی کے لیے اونچائی نہیں افادیت اہمیت رکھتی ہے۔ ایسا درخت بنیں جو بےشک اونچا نہ ہو مہربان ضرور ہو۔ معتبر وہی ہے جو سایہ دے جسے پرندئے اپنی پناہ گاو سمجھیں۔

بنے نہ جس پہ کبھی آشیانہ کسی پرندئے کا
وہ شاخ کتنی بھی سرسبز ہو، بے کار ہے

ہماری ذاتی زندگی میں بھی یہی اصول صادق آتے ہیں۔ بہت سے "بلند قامت" لوگ ملتے ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں والے، علم والے، دولت والے مگر کیا یہ سب معتبر بھی ہوتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ معتبر وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ جو کسی کا سہارا بنتا ہے۔ جس کی موجودگی میں لوگ خود کو محفوظ اور پرسکون محسوس کرتے ہیں۔ جو علم، محبت، وقت یا احساس بانٹنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتا ہو۔ یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم کیسے انسان بننا چاہتے ہیں۔ صرف کہانی کے زرافے کی طرح اونچا یا پھر کچھوئے کی طرح مفید اور مددگار؟

ہمارے اباجی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اس دنیا کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ایسے درخت بنیں جن پر پرندئے اپنے گھر یہ سوچ کر بنائیں کہ وہ محفوظ ہیں اور جن کے گھنے سائے تلے مسافر سکون کا سانس لے سکیں۔ بلندی کا کمال اونچائی ہی نہیں ہوتی سایہ، سکون اور امن و حفاظت بھی ہو تب جا کر بات بنتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دوسروں کے لیے فائدہ مند بنیں جیسے ایک ہی درخت سایہ، پھل، پناہ گاہ، ہوتا ہے اور آخر کار اس کی لکڑی بھی انسان کے لیے کارآمد اور مفید ہوتی ہے۔ اپنی ذات عہدئے یا دولت کی نمائش سے ہٹ کر انسانیت، ہمدردی اور خدمت کو نصب العین بنائیں کیونکہ لوگ ہمارئے رویے یاد رکھتے ہیں ہمارے چہرئے نہیں دیکھتے۔

اپنوں کے لیے تپتے بیابان صحرا میں سایہ دار درخت تب ہی بن سکتے ہیں جب ان کی ہر پریشانی میں ان کا ساتھ دیں۔ ان کی بات سنیں، ان دل کی ڈھارس اور سہارا بنیں۔ درخت کی طرح خاموش اور بردبار مگر فائدہ مند اور بابرکت بنیں۔ اپنے علم اور وسائل کو دوسروں کی ترقی اور تربیت کے لیے استعمال کریں۔ علم پھیلانے سے زندہ رہتا ہے ورنہ یہ انسان کے ساتھ ہی دفن ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کا دیا ہوا علم اور تربیت کسی دوسرئے کے خوابوں کی تکمیل کا باعث ہو۔ اللہ کی عبادت کا ہر راستہ انسانیت کی خدمت سے ہی ہو کر گزرتا ہے اور یہی لوگوں کے دلوں ہمیشہ زندہ رہنے کا راز ہے۔

دکھائے دل جو کسی کا وہ آدمی کیا ہے
کسی کے کام نہ آئے وہ زندگی کیا ہے

مقصد حیات کا حصول صرف خدمت انسانیت میں پوشیدہ ہے۔ محض طاقتور، اونچا یا بڑا ہونا کافی نہیں ہوتا۔ اصل انسانی خوبی اس میں ہے کہ آپ دوسروں کے لیے کتنے کارآمد ہیں۔ خدمت خلق یا خدمت انسانیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کرنا، اس میں انسان ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح شامل ہے۔ خدمت انسانیت میں بنیادی بات یہ ہے کہ یہ محض خدمت کے جذبہ سے ہو کوئی ذاتی غرض، شہرت کا کصول، دکھلاوا اور نام نمود یا داد تحسین، لوگوں کی واہ واہ مقصود نہ ہو۔ یہ خدمت مالی طور پر، بدنی طور پر ااور اخلاقی و روحانی طور انجام دینا جس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا ہو کسی عبادت سے کم نہیں ہے۔

آپکی ایک مسکراہٹ بھی کسی کے دکھی دل کو سکون بخش سکتی ہے۔ آپکا ایک لفظ بھی کسی کو نئی زندگی دئے سکتا ہے۔ آپکی ایک نظر بھی کسی دل میں امید کے چراغ روشن کرسکتی ہے۔ عید الضحیٰ اور قربانی کے دن قریب ہیں اس عید پر اپنے حلال رزق سے خریدے جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنی اناء ضد، تکبر، غصہ، بغض، منافقت، کینہ، بدگمانی، جھوٹ، دکھاوا، جیسی برائیوں کو بھی ذبح ضرور کریں تاکہ قربانی کا اصل حق ادا ہوسکے۔ یہی دراصل بڑائی ہے کہ لوگوں کو آپ کی ذات سے امن، سکون اور خوشی میسر آسکے۔ کیونکہ لوگ آپکی طاقت، بڑائی یا اونچائی سے نہیں بلکہ محبت، ایثار اور سخاوت سے آپکی عزت کرتے ہیں۔ پرندئے ہمیشہ اونچے نہیں بلکہ سایہ دار اور پھل دار درخت پر ٹھکانہ بناتے ہیں۔

یہی ہے عبادت یہی دین وایماں
کہ کام دنیا میں انساں کے انساں

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam