Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Buzurgon Ka Aalmi Din

Buzurgon Ka Aalmi Din

بزرگوں کا عالمی دن

مجھے گذشتہ روز اسلام آباد سے ایک دوست نے ایک ایسی تقریب کا دعوت نامہ بھجوایا ہے جو بزرگوں کے عالمی دن کے موقع پر وہاں یکم اکتوبر کو حکومت پاکستان کی جانب سے منعقد کی جارہی تھی۔ دعوتی کارڈ دیکھ کر احساس ہوا کہ اب واقعی دوست مجھے بھی بزرگ سمجھنے لگے ہیں۔

میں تقریب کے لیے اتنی دور تو نہیں جاسکتا تھا اپنے ایک پرانے ساتھی دوست کو بھجوا دیا جو اتفاق سے آجکل اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے واپسی بڑے غصہ اور ناراضگی کا اظہار کیا اور کہنے لگے یار مذاق نہ کرو اور یہ کارڈ کسی بزرگ کو بھجواو میں تو ابھی جوان ہوں بھلا ستر سال کی عمر میں کوئی کیسے بوڑھا یا بزرگ ہو سکتا ہے؟ ان کے خیال میں چلتا پھرتا اور صحت مند آدمی کبھی بوڑھا اور بزرگ نہیں ہوتا۔ پھر کہنے لگے یہ بزرگوں کا عالمی دن آخر ہوتا کیا ہے اور کیوں منایا جاتا ہے؟

مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ مجھ سمیت بہت سے لوگ اس دن منانے کے مقصد اور اہمیت سے ہی مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے۔ ہمیں کوئی بھی دن منانے سے قبل اس دن کی نسبت سے آگاہی فراہم کرنا ازحد ضروری ہے اور یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ بزرگی کسی عمر کی پابند نہیں ہوتی۔ کسی بھی خطے میں بسنے والے بزرگوں کے چہرئے کی جھریاں اپنے اندر بے پناہ خوشیاں اور غم سموئے ہوتی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ بزرگوں کی زندگی کے تجربات و مشاہدات سے مستفید ہو کر ہی اپنا مستقبل سنوارا جا سکتا ہے۔ درحقیقت ہمارے گھر کے بزرگ ہی ہمارے گھر کی رونق ہوتے ہیں۔ درحقیقت بڑھاپا زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے جب انسان اپنے ماضی کی طرف دیکھ کر یہ سوچتا ہے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور اگر اسے محسوس ہوا کہ اس کی اہمیت اور ضروت پہلےسے زیادہ ہوگئی ہے تو وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد پورا ہوگیا ہے۔

کسی بھی معاشرئے میں بزرگ افراد انتہائی اہم اور قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ اپنی تاریخ، ثقافت، روایات اور خاندانی اقدار کے امین سمجھے جاتے ہیں۔ بزرگ تپتے صحرا میں کسی سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں جن کے سائے میں ہماری نئی نسل تربیت پاتی ہے۔ ان کے دم سے ہی خاندان آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ بڑھاپا اور بزرگی ایک ایسا فطری عمل ہے جس سے ہم سب نے گزرنا ہے۔ اسی لیے ہمیں اپنے بزرگوں کی قدر اور عزت و تکریم کرنا لازم ہے تاکہ کل ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جاسکے۔

شاید اسی احساس کو اجاگر کرنے کے لیے پوری دنیا میں"انٹرنیشنل ڈے آف اولڈر پرسنز" یکم اکتوبر کو منایا جاتا ہے تاکہ بزرگ افراد کی اہمیت، ان کی تکالیف، ضروریات اور حقوق کی جانب پوری دنیا کی توجہ دلائی جاسکے۔ اس کی ابتداء 1991ء میں کی گئی تھی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے چودہ دسمبر انیس سو نوے میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد یہ دن منانے کا اعلان کیا تھا۔

اس دن کو منانے کا مقصد بزرگ افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات کے حل اور معاشرے میں ان کے مقام پر روشنی ڈالنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک میں مختلف تقاریب، سیمینار اور ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ معمر افراد کی دیکھ بھال اور ان کے حقوق سے متعلق آگاہی حاصل کرسکیں۔ یہ دن ان بزرگوں کی لائف اچیومنٹ سروسز کا اعتراف اور انکو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بھی منایا جاتا ہے۔ بزرگوں کے لیے سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کا اعادہ بھی اس دن کا تقاضا ہوتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا پانچ سے چھ فیصد آبادی بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے جو تقریباََ ڈیڑھ کروڑ کے قریب بنتی ہے اور خیال یہ کیا جاتا ہے کہ 2050 تک یہ پندرہ سے سولہ فیصد تک جا پہنچے گی۔ پاکستان میں بزرگوں کی تعداد دنیا کی نسبت بہت کم ہے کیونکہ یہاں کی اوسط عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ ہمارے یہ بزرگ صرف ایک دن ہی نہیں بلکہ پورے سال ہر ہر وقت ہماری توجہ چاہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کہتے ہیں کہ ہر چھ میں سے ایک بزرگ کو کسی نہ کسی صورت میں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نہایت الارمنگ ہے۔ بزرگوں سے بدسلوکی کی روک تھام کا شعور اجاگر کرنے میں یہ عالمی دن خصوصی طور پر اہم خیال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی بدسلوکی پر احتجاج بھی نہیں کر سکتے۔ اعداد وشمار کے مطابق کورونا وائرس کے دوران بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بدسلوکی کے یہ واقعات اب پاکستان میں بھی دیکھنے آرہے ہیں بلکہ ان میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ گو دنیا کے تمام معاشروں میں بزرگوں کی دیکھ بھال اور فلاح وبہبود کو اہم گردانا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس سلسلے میں بنکوں میں خصوصی کاونٹر اور ریلوے میں بزرگوں کے لیے ٹکٹ میں رعایت دی گئی ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر دفتر، پارک، بس اڈوں، ہوٹل، ائیرپورٹ، ہسپتال کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی میں ان کے سفید بالوں کا احترام نظر آنا چاہیے۔ ان کے علاج معالجہ، خوراک، کے ساتھ ساتھ ان کی روزمرہ کی مصروفیات کی فراہمی بھی حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہداری ہے۔

ہمارے روئیے سے ان کے لیے محبت کا اظہار ان کے لیے بےپناہ خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن ابھی بھی پاکستانی بزرگوں کے لیے خدمات کے شعبے کو تیزی سے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ایسی خدمات جوان کی زندگی کو بہتر بنا سکے اور انہیں اپنی زندگی پر فخر محسوس ہو۔ اگر ہم ہر دفتر مییں انہیں بیٹھنے کے لیے کرسی ہی فراہم کردیں تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ ان کی بات سننا اور ان پر توجہ دینا ہماری فرض ہے جو دینی لحاظ سے بھی بڑے ثواب کا باعث ہوتا ہے۔ بزرگوں کو اکثر تنہائی کی شکایت ہوتی ہے اس لیے ان کو اپنے رویے سے تنہائی کا احساس نہ ہونے دیں۔ ان سےان کی دلچسپی کی گفتگو کریں۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ بچے اور بزرگ سب کے مشترکہ ہوتے ہیں اس لیے یہ سب محبت اور شفقت کے حقدار ہوتے ہیں۔

اسلام میں والدین کے ساتھ ساتھ تمام بزرگوں کو بڑی اہمیت اور خاص مقام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے بزرگوں کو جھڑکنے اور ان سے بدسلوکی کو سخت ناپسند عمل قرار دیا ہے اور قرآن پاک مین فرمایا ہے کہ "تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آو اور اگر تمہارے سامنے دونوں یا ان میں سے ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو، انہیں جھڑکنا نہیں اور ان کے ساتھ نرم دلی و عجزو انکساری سے پیش آنا " دین اسلام بزرگوں کے احترام اور اکرام کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔

ہمارے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ "ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیر وبرکت ہے پس وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرئے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرےیا ان سے گستاخی سے پیش آئے"۔ ہمیں اسلامی معاشرے کے اس ادب واحترام کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہماری نسل نو کو اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارا آج کا بزرگوں کا احترام ہی کل ہمارے لیے عزت وتکریم کا باعث بنے گا۔ بزرگوں اور معذور افراد کے لیے المسجد الحرام میں بھی سہولیات سے آرستہ موزوں مقامات مختص کئے گئے ہیں۔ ان کو وہیل چیئرز کے ساتھ ساتھ طواف کے لیے سیلف ڈرائیونگ الیکٹرک چئیرز بھی دستیاب کی گئی ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے ائیر پورٹ اور ہوائی جہاز میں بھی ان کے لیے خصوصی انتظامات دیکھنے میں آتے ہیں۔

ہماری پاکستانی حکومت کو بھی ان قیمتی اثاثوں کی دیکھ بھال کے لیے اور خدمت کے ساتھ ساتھ مصروفیت کے لیے ایک جامع اور طویل مدتی منصوبہ سازی کی ضرورت ہے تاکہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں بزرگوں کے تجربے اور ان کی صلاحیتوں سے صیح معنیٰ میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔ آئیں بزرگوں کے اس عالمی دن پر عہد کریں کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلامی تعلیمات اور انسانی آداب کے مطابق اپنے بزرگوں کا اخترام اورعزت کرنے کو روزمرہ زندگی میں اپنا شعاربنائیں گے۔ ان کو اپنا قیمتی وقت دے کر احساس دلائیں گے کہ وہ ہر وقت ہماری توجہ کا مرکز ہیں اور ان کے بغیر ہماری زندگی کے رنگ مکمل نہیں ہوتے۔ تاکہ وہ بھی زندگی کے اس مرحلے عملی زندگی کا حصہ رہیں اور ماضی میں جو کام وہ بےپناہ مصروفیات کی وجہ سے نہیں کر سکے اور جن کے کرنے کی خواہش وطلب موجود تھی لیکن کسی طور ان کو انجام نہ دے سکے اب انہیں زندہ دلی سے کرنے کی کوشش ضرور کریں کیونکہ یہ وقت بڑی مشکل سے اور قسمت والوں کو ہی ملتا ہے۔ اس قیمتی سرمائے کی حفاظت اور ان کو مصروف رکھنے کے لیے کے لیے ہماری این جی اوز کا کردار بہت اہم ہے۔

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar