Aman Ka Paigham Koi Nayi Jang Nahi Hogi
امن کا پیغام "کوئی نئی جنگ نہیں ہوگی"
میں آج کی سب سے بڑی خبر امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ہے۔ ایک طویل کیمپین اور سخت مقابلے کے بعد ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں سنتالیسویں صدر کے طور پر واپسی کا ہنگامہ برپا ہو چکا ہے۔ ان کی واپسی نےان کے بارے میں عالمی میڈیا کی تمام تر پیشین گوئیوں، تجزیوں اور تبصروں پر نہ صرف پانی پھیر دیا ہے۔ بلکہ ان کی تاریخی کامیابی پردنیا بھر میں حیرت اور خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ایک طویل جدجہد کے بعد وہ بالآخر جیت ہی گئے۔ کیونکہ خیال یہی کیا جارہا تھا کہ مقابلہ نہایت کانٹے دار، نیک ٹو نیک یا ففٹی ففٹی کی پوزیشن پر ہوگا لیکن سارے اندازے، سروئے اور تخمینے غلط ثابت ہوئے اور ری پبلکن ایک بڑے مارجن سے جیت گئے بلکہ ایوان بالا سینٹ میں بھی برتری حاصل کرلی ہے جبکہ ری پبلکن کے گورنرز کی تعداد بھی بڑ ھ گئی ہے۔۔ بڑے بڑے تجزیہ نگاران نتائج پر حیرت زدہ ہیں گو ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملاہیرس نےدیر سے آنے کے باوجود بلاشبہ خوب مقابلہ کیا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران فیورٹ کا درجہ بھی حاصل کر لیا لیکن سیاست میں کچھ بھی حرف آخرنہیں ہوتا اور یہ سیاست ہے جو لمحہ لمحہ بدلتی ہے۔ اس میں نمبروں کی گیم کسی بھی لمحے کسی کی جیت یا ہار کا باعث بن جاتی ہے اور یہی ہوا ہے کہ صدارتی انتخابات میں کامیابی ڈونلڈ ٹرمپ کا مقدر بن گئی۔ اب جب کہ ٹرمپ ایک بار پھر سپر پاور امریکا کے منصب صدارت پر فائز ہونے کے لیے جیت کی خوشی منا رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان سمیت پوری دنیا ان کی واپسی اور عالمی سیاست اور امن پر ان کے اثرات کے حوالے سے مثبت کردار کی توقع کر رہی ہے۔ اپنے پہلے دور صدارت میں ٹرمپ نے "امریکہ فرسٹ " کا نعرہ بلند کرکے اپنی خارجہ پالیسی کا واضح اعلان کیا تھا۔ اس مرتبہ بھی جیت کے بعد سب سے پہلے خطاب میں امریکہ ہی اول دکھائی دے رہا ہے۔ ان کے نزدیک امریکہ کا مفا د سب سے پہلے ہے۔ اس لیے امریکہ کی معیشت ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ جبکہ اس مرتبہ امن کا پیغام " کوئی نئی جنگ نہیں ہوگی " کا نعرہ لے کر میدان میں آنے والے ٹرمپ کے لیے بڑا امتحان مشرق وسطیٰ غزہ اور یوکرین کی جنگوں کا خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ نئی جنگیں شروع نہیں کرنے کی بجائے جنگوں کو ختم کریں گے۔ جبکہ ٹرمپ نے تارکین وطن کے حوالے سے بھی قوانین میں مزید سختی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے پہلے دور صدارت میں ٹرمپ کو کورونا کے باعث معاشی مشکلات، بے روزگاری اور دیگر مسائل کے لیے علاوہ اپنے مواخذے کی کاروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے اس مرتبہ ان کا امریکہ کی معیشت میں بہتری پر توجہ دینے کا اعلان بھی سامنے آرہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ایک مضبوط، محفوظ اور خوشحال امریکہ کے لیے کام کریں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سپر پاور امریکہ کے انتخابات کے نتائج پوری دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن وقت کیا کروٹ لیتا ہے اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ بہر حال جنگ سے نفرت اور امن کی بات کرنا ایک مثبت بات ہے اور کسی نئی جنگ کے نہ کرنے کا اعلان بھی بہت خوش آئندنظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اب نئی بلندیوں تک پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ ان کے ووٹروں کی بڑی تعداد امن پسند شہریوں اور خصوصا" غزہ کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی باعث ان سے ہمدردی رکھنے والے ووٹرز پر بھی مشتمل ہے۔ سوشل میڈیا کا کردار بھی اس الیکشن میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ شاید اسی لیے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جیت کا سہرا اسپیس ایکس کے مالک ایلون مسک کے سر سجا دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد فلوریڈا میں عوام سے خطاب میں ایلن مسک کی نمائیاں مالی مدد پر ٹیسلا اور اسپیس کے سی ای او کی تعریف کی ہے اور کہا کہ ہمارے درمیان آج رات ایک نیا ستارہ موجود ہے اور ایک نئے ستارے ایلون مسک نے جنم لیا ہے وہ ایک حیرت انگیز انسان ہیں جنہوں نے دو ہفتے تک فلاڈیلفیا، پینسیلونا سمیت سوئنگ ریاستوں میں انتخابی مہم چلائی جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ایلون مسک نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے ان کی جیت کو "کرسٹل کلیر " قرار دیا ہے۔ چین نے کہا کہ ہم امریکی عوام کے انتخاب کا حترام کرتے ہیں جبکہ حماس کے عہدیداروں کےردعمل کے مطابق ڈیموکریٹس کی شکست غزہ پر ان کے مجرمانہ موقف کی قیمت ہےان کی تماتر امیدیں فوری جنگ بندی سے وابستہ ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے سربراہان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ الیکشن جیتنے پر مبار کباد پیش کی ہے اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اس بات کی علامت اور پیغام ہے کہ پوری دنیا کی طرح امریکی عوام بھی جنگ سے نفرت کرتے ہیں اور امن کے خواہشمند ہیں۔ گو کملا ہیرس کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان یا پریس کانفرنس تو نہیں کی گئی تاہم گذشتہ روز کملا ہیرس نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے فون پر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخاب جیتنے پر مبارکباد دی اور امید ظاہر کی کہ " امید ہے کہ ٹرمپ تمام امریکیوں کے صدر ہوں گے " انہوں نے بات چیت کے دوران اقتدار کی پرامن منتقلی پر زور دیا ہے۔ امید ہے کہ کملا پہرس جلد عوام سے خطاب بھی کریں گیں۔ ابتدائی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق امریکی ووٹرز جمہوریت اور معیشت کے بارے میں سب سے زیادہ فکر مند ہیں۔ جبکہ دنیا امن کی خواہش لیکر یہ امیدیں رکھتی ہیں کہ ٹرمپ کے آنے سے امن کی راہ کھل سکے گی اور بااثر سپر پاور دنیا کی جنگوں رروکنے اور دنیا بھر تنازعات دور کرانے میں اپنا مضبوط کرادر ضرور ادا کرے ٔ گی۔ ٹرمپ کی اس بڑی اور تاریخی جیت اور ووٹوں کی بڑی تعداد میں ان بنیادی عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ٹرمپ نے پچھلے چار سال کے دوران لگاتار جدجہد کی ہے جبکہ کملا ہیرس کو صرف چند ماہ پہلے نامزد کیا گیا اور شاید وہ اپنی انتخابی مہم پوری طرح نہیں کر پائیں یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ کی تاریخ میں عورت کبھی صدر نہیں بن سکی۔ دوسرے ان کی حکومت کے تسلسل اور ڈیموکریٹس کی کارکردگی نے بھی ان کے ووٹ کو متاثر کیا جبکہ ٹرمپ کو ایک جانب تو پاکستانیوں سمیت مسلمانوں کی حمایت اور ہمدردی غزہ اور فلسطین کی وجہ سے ملی ہے۔ عام امریکی جنگوں کی بجائے اپنی معیشت پر زیادہ حکومتی توجہ چاہتا ہے۔ اس جیت کو ایک جانب تو جمہوریت کی فتح قرار دیا جارہا ہے دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہونگے جنہیں کسی بھی مقدمے میں مجرم قرار دیا جاچکا ہے اور اب بھی کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان پر مقدمات، جیل کی سزا اور قلاتلانہ حملے سے زخمی ہونے کی وجہ سے امریکی عوام کی ہمدردی کا ووٹ بھی ملا ہے۔ بظاہر اس سنسنی خیز کامیابی کے بعد مستقبل میں غیر روائتی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ بہت محتاط رویہ اپنا کر سابقہ غلطیوں کو نہیں دوہرائیں گے اور عوامی امیدوں اور امنگوں کے مطابق وہ اس مرتبہ ایک ہر دلعزیز، مختلف، منفرد اور محتاط شخصیت کے طور پر سامنے آئیں گے۔ امریکی عوام کا ان پر یہ بڑا اعتماد انہیں بہتر ین جمہوری رویےاپنانے اور کچھ بڑا کرنے پر مجبور کر دئے گا؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے شاید پہلا امتحان پہلے سے جاری فلسطین اور یوکرین کی جنگیں ہیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اقتدار میں آتے ہی فوری جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اور ان بڑے تنازعات کا حل نکال پائیں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات سب جانتے ہیں کہ ان کے کسی فیصلے یا قدم کی پیشن گوئی کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے لیکن ان جنگوں کا خاتمہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ان جنگوں سے نجات پوری دنیا کے لیے بہت اہم ہے جو آج امریکی معیشت اور ساکھ کی بحالی میں بھی بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ کو بٹ کوئین کرنسی کا درالحکومت بنانے میں مدد کریں گے اسی لیے ان کی کامیابی کےبعد بدھ کی صبح سے ڈالر کے استحکام کے ساتھ ساتھ بٹ کوئین کی قیمت میں ایک بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس سے کرپٹو کرنسی میں دلچسپی رکھنے والے افراد ضرور خوش ہوں گے۔ بہر حال دنیا ان کی جانب سے عالمی امن اور خوشحالی کی بہت اچھی امیدیں قائم کئے ہوئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ امریکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے امن کی نوید بن سکیں گے؟ کیونکہ ہیرو وہ ہوتا ہے جو جنگ کا خاتمہ کرے ٔ اور امن قائم کرکے انسانوں کی تکالیف دور کرے ٔ۔