Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Adabi Therapi Ka Tasawur

Adabi Therapi Ka Tasawur

"ادبی تھراپی" کا تصور

ہمارے ابا جی کی عادت تھی کہ ہر روز ہم سب بچوں کو کہانیاں سنایا کرتے تھے کبھی کوئی شعر، نظم، مسدس، دعا، واقعہ سناتے جو بہت دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ نصیحت آموز بھی ہوتا۔ وہ کہانیاں مجھے آج تک یاد ہیں اور میں اپنے بچوں کو سناتا بھی ہوں اور اپنے مضامین اور کالموں کا حصہ بھی بناتا ہوں۔ میرے کالمز میں کوئی نہ کوئی کہانی، واقعہ یا اشعار ضرور شامل ہوتے ہیں۔

آج جب "ادبی تھراپی" کا لفظ سننے میں آرہا ہے تو مجھے یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے اباجی کتنے بڑے ماہر نفسیات تھے۔ اس دور میں ہمیں ادبی تھراپی کا کوئی تصور نہ تھا۔ لیکن وہ ہماری "ادبی تھراپی" ہر روز باقاعدگی سے کرتے تھے۔ ان کی سنائی گئی ہر کہانی یا نظم میں پوشیدہ پیغام کسی "ادبی تھراپی" سے کم نہ تھا۔ عام آدمی کے لیے یہ لفظ شاید نیا ہو لیکن فزیکل تھراپی کے بعد "ادبی تھراپی" کا جدید تصور اب دیگر علاج کی طرح اہم ہوچکا ہے اور سننے اور پڑھنے میں بھی آرہا ہے۔

فزیو تھراپی کی طرح ادبی تھراپی کے بھی کئی شعبے ہیں جیسے کہانی تھراپی، شاعری تھراپی، نثر تھراپی وغیرہ۔ ایک محبت بھرا شعر، ایک جذباتی فقرہ یاچند پر اثر جادوئی لفظ انسان کے جسم میں سنسنی پیدا کردیتے ہیں ایک نعرہ ہار کو جیت میں بدل دیتا ہے۔ "ادبی تھراپی" کے بےپناہ فوائد سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ "ادبی تھراپی" ہوتی کیا ہے؟

مجھے "ادبی تھراپی" کی اہمیت کا احساس اس وقت ہوا جب میں نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب "من کی دنیا" پڑھی اور اپنے آپ میں عجیب سی تبدیلی محسوس ہوئی۔ پھر جب مشہور ناول "امراوجان ادا" پڑھا تو اس کی کردار نگاری نے بہت متاثر کیا اور مظلومیت، سماجی ناہمواری، خواتین کے مسائل اور ان کی جذباتی جدوجہد نے قارئین کو بھی مختلف سطح پر متاثر کیا ہے اور لوگوں کی بےبسی بے چارگی کا احسا س بھی ذہن نشین ہوا۔ مرزا ہادی رسوا نے اس ناول میں نفسیاتی گہرائی پیدا کی ہے۔ یہ ناول اپنی زندگی کے دکھوں کو قبول کرکے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جسے "ادبی تھراپی" سمجھا جاتا ہے۔

نظیر اکبر آبادی کو پڑھا تو احساس ہوا کہ ان کی شاعری آج بھی "ادبی تھراپی" کا ذریعہ ہے۔ نظیر ان کی تفریحی شاعری ہمیشہ ذہنی سکون کا باعث بنتی ہے۔ مزاحیہ اور عوامی انداز اداسی اور تنہائی میں مبتلا افراد کے لیے ایک جذباتی علاج ہوتا ہے۔ "آدمی نامہ" میں وہ انسانی زندگی کی فانی حقیقت کو بیان کرکے ایگو اور فانی دنیا کے لالچ سے نجات کا درس دیتے ہیں۔ آج یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ جیسے جسمانی سکون کے لیے فزیکل تھراپی کی اہمیت ہے ایسے ہی ذہنی اور روحانی سکون کے لیے "ادبی تھراپی" بھی لازمی جزو ہے۔

اردو ادب میں بےشمار لوگوں نے اپنے کلام اور تحریر کو "ادبی تھراپی" کا ذریعہ بنایا ہے۔ گو سعدیؒ، رومی، بلھے شاہ، وارث شاہ اور خوجہ فریدؒ جیسے شعراء ادبی تھراپی کا ذریعہ ہیں ان کے کلام میں روحانی سکون قناعت اور دنیاوی الجھنوں سے نجات کا درس موجود ہے لیکن حضرت علامہ اقبالؒ کو ان کے اشعار میں فکری بیداری، خودی کی پہچان، امید، حوصلہ، غلامی سے نجات، فکری آزادی، عرفان ذات اور روحانی سکون جیسے عناصر کی موجودگی انہیں بہترین ادبی معالج ثابت کرتی ہے۔ شاہین کا استعارہ نوجوانوں کے لیے ادبی تھراپی کی منفرد مثال ہے۔

"ادبی تھراپی" کا نام نیا ضرور لگتا ہے مگر یہ ایک بہت قدیم نفسیاتی طریقہ علاج ہے۔ جس میں ذہن سازی کے لیے ادب، کہانیوں، شاعری اور دیگر تحریری مواد کے ذریعے کسی فرد یا افراد کے ذہنی اور جذباتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ خاص طور پر ذہنی دباؤ، اضطراب، افسردگی، مایوسی، تنہائی سے دوری اور ذاتی ترقی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ ان قیدیوں، پناہ گزینوں اور جنگ زدہ افراد کے ساتھ ساتھ بوڑھوں، بچوں اور نوعمرجوانوں ااور خواتین کے لیے بےحد فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جو جذباتی مسائل کا شکار ہوں۔ بیمار، معذور اور عمر رسیدہ افراد جو تنہائی اور مایوسی محسوس کرتے ہوں۔ جبکہ سیاسی اور سماجی تحریکوں میں "ادبی تھراپی" اپنا منفرد کردار ادا کرتی ہے۔

"ادبی تھراپی" کیسے کی جاتی ہے؟ یہ سوال فوراََ ذہن میں آتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک عام طور پر "ادبی تھراپی" تین مراحل میں کی جاتی ہے۔ پہلا مرحلہ مطالعہ کے ذریعے یعنی مریض کو ایسی کتابیں، نعرئے، کہانیاں یا نظمیں پڑھنے اور سننے کو دی جاتی ہیں جو اس کے مسئلے سے متعلق ہوں۔ دوسرا مرحلہ عکاسی یعنی پڑھی گئی تحریر پر غور و فکر کرایا جاتا ہے تاکہ قاری اپنی صورت حال سمجھ کر اس سے خود کو جوڑ سکے۔ تیسرا مرحلہ اظہار کو سمجھا جاتا ہے یعنی مریض اپنے جذبات کو کسی تخلیقی یا غیر تخلیقی شکل میں اظہار کرے مثلاََ ڈائری لکھنے، خط لکھنے، مضمون لکھنے کسی مباحثے یا مجلس یا محفل میں بول کر بیان کر سکے۔

"ادبی تھراپی" کے ذریعے خود شناسی میں مدد کی جاتی ہے کہ وہ کہانیوں، تحریروں، شاعری کے ذریعے خود کو بہتر سمجھ سکتا ہے۔ پڑھنے سے ذہن کو سکون ملتا ہے اور پریشانی میں کمی ہوتی ہے۔ مختلف کرداروں کے تجربات پڑھ کر دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے جو ہمدروی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ "ادبی تھراپی" تنہائی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کتابوں، کہانیوں اور شاعری میں ملنے والے خیالات احساس دلاتی ہیں کہ وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک پوری دنیا ہے۔ جبکہ ادب ہی تخلیقی سوچ کو جلا بخشتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار لاتا ہے جو ذہنی صحت کے لیے مثبت اثر رکھتا ہے۔ آج انٹرنیٹ کے دور میں تنہائی بڑھتی جارہی ہے اور کتاب پڑھنے کا لطف کہیں کھو گیا ہے۔ ایسے میں "ادبی تھراپی" کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھتی جارہی ہے۔ سکرین سے کتاب کی جانب واپسی مشکل ضرور ہوتی ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔

"ادبی تھراپی" کا یہ طریقہ والدین کے بعد نفسیاتی معالجین، لائبریرین، دانشور اور تعلیم کے ماہرین بھی استعمال کرتے ہیں۔ آپ بھی اپنی زندگی میں اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ کوئی خاص کتاب یا صنف ادب جو آپ کو سکون دیتی ہو ضرور پڑھیں۔ شوق مطالعہ "ادبی تھراپی" کی شروعات بن سکتا ہے۔ پاکستان میں آڈیو بکس اور بک کلب کے ذریعے بھی "ادبی تھراپی" کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے کچھ ماہر نفسیات اور دانشور جیسے ممتاز مفتی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور کئی بزرگ صوفیانہ اور روحانی ادب پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ یہ تحریریں بھی ذہنی سکون اور خود شناسی میں مدد دیتی ہیں۔

دنیاوی لحاظ سے معروف اردو افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی تحریریں بھی "ادبی تھراپی" کی عمدہ مثال ہیں، خاص طور پر ان کے افسانے "ٹھنڈا گوشت" ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، وغیرہ نہ صرف تقسیم ہند کے متاثرین کے جذبات کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ کئی قارئین کو ان کے اپنے زخموں کو سمجھنے اور قبول کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے ہی "راجہ گدھ" بانو قدسیہ کا ایک شاہکار ناول ہے جو ناصرف اردو ادب میں منفر مقام رکھتا ہے بلکہ "ادبی تھراپی" کی ایک زبردست مثال ہے۔ یہ ناول انسانی نفسیات، حلال و حرام کے فلسفے اور روحانی و جذباتی پیچیدگیوں کی وضاحت کرتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے پڑھنے والے اپنا دکھ اور اسکا مداوا تلاش کر لیتے ہیں۔ یہ ناول کئی لوگوں کی سوچ بدلنے کا سبب بنا ہے۔

ڈاکٹر غلام جیلانی برق برصغیر کے ان چند دانشوروں میں سے تھےجنہوں نے تاریخ، فلسفہ اور انسانی نفسیات پر گہرے تجزیے کئے ان کی کتاب "من کی دنیا" ذہنی کشمکش کے شکار افراد کے لیے کسی نہ کسی سطح پر بہترین "ادبی تھراپی" کا کام دیتی ہے۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے بطور ادبی معالج اس کتاب میں خود شناسی اور فکری آزادی کو سادہ زبان میں بیان کیا ہے۔ آج بھی لوگ ان کی کتاب "دو اسلام" کو فکری علاج سمجھتے ہیں جبکہ مجھ جیسے کچھ لوگ "من کی دنیا" کو ذہنی سکون کے لیے پڑھتے ہیں۔ کیونکہ "من کی دنیا" ان سب لوگوں کے لیے بطور "ادبی تھراپی" ایک عمدہ تحریر ہے جو ذہنی الجھنوں اور سوچ کی کشمکش کے شکار ہیں اور خود کو بہتر سمجھنا چاہتے ہیں۔

سوالات اٹھانے اور سوچنے کی جرات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو نفسیات، فلسفہ اورروحانیت کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو مذہب، سائنس اور منطق کے باہمی تعلق پر غور کرنا چاہتے ہیں۔ جو نئی فکری راہیں تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ میرے کالم پڑھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ میرے ہر کالم میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا مقصد ادبی تھراپی" ہی ہوتا ہےچاہے وہ تحریر سے ہو یا اشعار سے ہو یا پھر اقوال زریں کے حوالے سے ہی کیوں نہ ہو؟ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں قومی یکجہاتی اور اتحاد باہمی کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر "ادبی تھراپی" کی آج سے زیادہ ضرورت پہلے کبھی نہ تھی۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam