Tuesday, 25 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ismat Usama
  4. Mah e Ramzan Aur Muhafizeen e Pakistan

Mah e Ramzan Aur Muhafizeen e Pakistan

ماہ رمضان اور محافظین پاکستان

وطنِ عزیز پاکستان ستائیس رمضان المبارک کو معرضِ وجود میں آیا تھا، اس لحاظ سے پاکستان کو رمضان المبارک سے خاص نسبت حاصل ہے۔ کلمہء طیبہ کی بنیاد پر بننے والی یہ ریاست لاکھوں مسلمانوں کی ایمان افروز قربانیوں کا ثمر ہے اسی لئے وطن عزیز کفار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ یہود و ہنود ہروقت اس کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ بھی ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو، تم ثابت قدم رہو، ایک دوسرے کو تھامے رہو اور جہاد کے لئے تیار رہو اور اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم مراد کو پہنچو۔ (سورہ آل عمران 200)۔

اور فرمایا: جو لوگ ایمان لائے اور گھر چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے، اللہ کے ہاں ان کے لئے بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔ (سورہء توبہ، آیت 20)۔

سورہء صف آیت 4 میں ارشاد فرمایا: بے شک اللہ ان کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

رمضان میں جب عامۃ المسلمین اپنے گھروں کے آرام دہ ماحول میں عبادات، تراویح، سحر وافطار میں مصروف ہوتے ہیں۔ پاک فوج کے جوان دور دراز علاقوں میں، موسم کی شدت سے بے نیاز، دن رات کی طوالت میں سرحدوں پر پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی پہاڑی علاقے میں دہشت گردوں سے برسرِ پیکار ہوتے ہیں اور کبھی کسی خفیہ دشمن کی بھیانک سازش کو ناکام بنارہے ہوتے ہیں۔ سیاچن کے برفانی گلیشیئرز جہاں درجہ حرارت منفی پچاس تک گرجاتا ہے، پاک فوج کی جرات و شجاعت اور استقامت کے گواہ ہیں۔ کہیں سبی جیسے گرم علاقوں میں جہاں عام لوگ ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوجاتے ہیں، پاک فوج کے جوان موٹے کپڑے کے یونیفارم پہنے وزنی اسلحہ اٹھائے قوم کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں۔

ملک و قوم کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیاری، ہر طرح کے نامساعد حالات کا مقابلہ کرنا اور پہرے کے دوران روزے رکھنا بہت عزم و ہمت کے کام ہیں۔ بعض اوقات انھیں سحر و افطار کے لئے مناسب اہتمام بھی میسر نہیں ہوتا لیکن وہ سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھنے کے لئے جانیں لڑا رہے ہوتے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے ہروقت تیار رہنا، سرحدوں کا پہرہ دیتے رہنا اسلامی اصطلاح میں "رباط" کہلاتا ہے۔ رباط کی اہمیت و فضیلت بہت زیادہ ہے کیوں کہ اس پر ملک و قوم کے امن وسکون کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر سرحدیں محفوظ نہ ہوں، کسی دشمن کے حملے کا خطرہ منڈلاتا رہے، شہری آبادیاں امن وسکون کی حالت میں نہ ہوں تو عوام کے لئے عبادات کرنے مساجد کو جانا، حصول علم کے لئے طالب علموں کا گھروں سے نکلنا، کاروبار کرنا، رزق کمانے کے لئے جانا بھی دشوار ہوجائے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: اللہ کے راستے میں ایک دن کا رباط ایک مہینے کے مسلسل روزے اور تمام شب عبادت میں گذارنے سے زیادہ افضل ہے۔ (بحوالہ بخاری شریف)۔

ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ہر ایک مرنے والے کا عمل مرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا بجز مرابطہ کے (وہ فوجی جو کسی مسلمان ملک کی سرحد کی حفاظت پر مامور ہو)، اس کا عمل قیامت تک بڑھتا ہی رہتا ہے اور قبر میں حساب و کتاب والوں سے مامون اور محفوظ رہتا ہے۔ (بحوالہ ابوداؤد)۔

حضور اکرم ﷺ جب ہجرت کے بعد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ تشریف لائے اور یہاں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تواس ریاست کے دفاع کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے۔ آپ نے اردگرد کے قبائل سے معاہدے بھی کئے اور کفار مکہ سے جنگ کے خطرے کے پیش نظر اپنے وقت کے مطابق میسر وسائل جمع کرکے بہترین فوج بھی تیار کی۔ اس فوج کی نفری تعداد میں دشمن سے کم سہی مگر ایمان، جذبہء جہاد اور شوق شہادت سے سرشار تھی۔ یہ فوج جب میدان جہاد میں نکلتی تھی تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد و نصرت کی خاطر آسمانوں سے فرشتے بھیج دیتا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست کے تحفظ کی خاطر ایک مضبوط فوج تیار رکھنا سنت نبوی ہے۔ وطن عزیز پاکستان دراصل ریاست طیبہ ہے اور ریاست مدینہ سے مماثلت رکھتا ہے۔

بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد "کاکول ملٹری اکیڈمی" قائم فرمائی۔ آپ نے 23 جنوری 1948ء کو کراچی میں بحریہ کے جہاز "دلاور" کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: آپ اپنی تعداد کم ہونے پر نہ جائیے، اس کمی کو آپ کو اپنی ہمت واستقلال اور بے لوث فرض شناسی سے پورا کرنا پڑے گا کیوں کہ اصل چیز زندگی نہیں ہے بلکہ ہمت، صبرو تحمل اور عزم صمیم ہیں جو زندگی کو بنادیتے ہیں۔ پاکستان کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی جگہ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے۔ (روزنامہ نئی بات 21 اگست 2024ء)۔

پاکستان کی افواج ریاست پاکستان کی محافظ ہیں اور اب تک جتنی بھی جنگیں دشمن نے ہم پر مسلط کی ہیں، پاک فوج کے جوانوں نے اپنا خون پسینہ بہا کر دشمن کو پسپا کیا ہے اور قائد کے فرمان کی لاج رکھی ہے۔

پاسبان حرم کے ہو، دین کی بقا ہو تم
حیدران دم قدم، عشق میں فنا ہوتم

کبھی بھی جو نہ مٹ سکے، بدر کی دعا ہو تم
جنون حق پہ مر مٹے، رب کے وہ جواں ہو تم!

1999ء کی کارگل جنگ کے دوران ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاک فوج کے کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر نے دلیری کے ایسے جوہر دکھائے کہ بھارتی فوج نے بھی ان کی شجاعت کا اعتراف کیا اور شہید کا جسدِ خاکی اس نوٹ کے ساتھ لوٹایا کہ یہ جوان بہت بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہوا ہے!

"ایمان، تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ" کا نصب العین رکھنے والی پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے پانچ فروری یوم یکجہتیء کشمیر کے موقع پر مظفرآباد دورے کے دوران خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کشمیر کی خاطر ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں، دس جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو لڑیں گے۔ بلاشبہ کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہوگا!

ان کے یہ الفاظ مظلوم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاک فوج میں یہ رواج نہیں کہ روزہ ہے تو آرام کریں بلکہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں سحری و افطاری کے دوران ہمیں ٹھونس ٹھونس کر کھلایا جاتا تھا، رمضان میں ہماری روٹین تبدیل ہوجاتی تھی۔ ہم پوری رات جاگ کر ٹریننگ کرتے اور دن میں کچھ آرام کرتے۔ ایک بار روزوں میں ہم سبی میں سڑک بنارہے تھے۔ وہاں پینے کا پانی صاف نہیں ملتا تھا تو بس روح افزاء کا ایک ٹب بنالیتے تھے۔ عیدالفطر بھی وہیں اپنے افسران کے ساتھ مناتے تھے۔

پاک فوج کی قربانیوں کی گواہی حال ہی میں ڈپٹی کمشنر وزیرستان نے ان الفاظ میں دی کہ یہ پاک فوج اور فرنٹئیر کور کی قربانیوں کا ثمر ہے جس کے سبب وزیرستان میں امن وامان قائم ہوا اور مقامی تاجروں نے چلغوزے کی تجارت سے چودہ ارب روپے کا منافع کمایا ہے۔

جہاد فی سبیل اللہ کے دوران نماز کی پابندی کی تاکید ہے البتہ شریعت نے بعض مقامات پر روزے میں تخفیف کی اجازت دی ہے جب لڑنے کے لئے سپاہیوں کو جسمانی طاقت درکار ہو۔

حضرت سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے فتح مکہ کے دوران مکہ کی جانب سفر کیا تو ہم روزے سے تھے۔ ہم نے راستے میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو، تمہارا افطار کرلینا تمہارے لئے زیادہ طاقت کا باعث ہوگا۔

اس ارشاد میں ہمارے لئے رخصت تھی تو ہم میں سے کچھ نے روزہ مکمل کیا اور کچھ نے افطار کرلیا۔ پھر ایک اور مقام پر ہم نے پڑاؤ ڈالا تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم صبح دشمن سے مقابلہ کروگے تو روزہ چھوڑنا تمہارے لئے زیادہ طاقت کا باعث ہوگا۔

تو ہم نے روزہ چھوڑ دیا۔ (صحیح مسلم، 1120 بحوالہ ویب سائٹ islamqa.info)

نوٹ: حالت جنگ ختم ہونے پر یا آپریشن مکمل ہونے کے بعد رمضان کے قضا روزے رکھے جائیں گے، البتہ کفارہ نہیں دینا ہوگا۔ (بحوالہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن)۔

پاک فوج اس وقت بھی کئی چیلنجز سے برسرِ پیکار ہے خصوصاً فتنہ الخوارج کے ساتھ شدید جھڑپیں پیش آرہی ہیں۔ خوارج بشمول کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے جنگجو نہ تو آئین پاکستان کو مانتے ہیں اور نہ اسلامی شریعت کو بلکہ وہ پاکستان کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں، اس لئے پاکستانی مسلمانوں پر خود کش حملوں کے علاوہ پاک فوج کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ مذید برآں، بلوچستان میں بیرونی اشاروں پر حالات خراب کرنے والی تنظیموں BLA اور BLF کے ساتھ پراکسی وار میں بھی پاک فوج نے کامیابی حاصل کی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف سید عاصم منیر نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے ہم انھیں پاکستانی نہیں مانتے۔ (خطاب 6 ستمبر 2024ء)۔

حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا۔ (صحیح بخاری)۔

2018ء میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے جید علماء کرام نے "پیغام پاکستان" کے نام سے متفقہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ پاکستان کے اندر خودکش حملے حرام ہیں۔ فتوی میں افواج پاکستان کے خلاف ہر طرح کی عسکری کارروائیوں کو بھی حرام قرار دیا گیا۔

ملکی دفاع صرف فوج کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ محافظین وطن کا ساتھ دیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران باقاعدہ بیرونی طاقتوں کے ایماء پر "ففتھ جنریشن وار" پاکستان پر مسلط کردی گئی ہے جس کے تحت قومی و ریاستی اداروں بشمول پاک فوج کو بدنام کیا جارہا ہے۔ فیک نیوز اور سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے سے نوجوانوں کے اذہان کو زہر آلود کیا جارہا ہے۔ جھوٹی خبریں اس تواتر کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں کہ سادہ عوام انھیں درست سمجھنے لگیں۔ اسی طرح کی ٹیکٹکس ملک شام اور عراق میں آزما کے وہاں خانہ جنگی کروائی گئی تھی تاکہ عوام اور ادارے آپس میں لڑ کرکے کمزور ہو جائیں اور بین الاقوامی طاقتوں کو وہاں مداخلت کا موقع مل جائے۔ پاکستان میں سانحہ نو مئی اسی طرح کے فیک پروپیگنڈہ کا نتیجہ تھا۔

عوام میں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ جھوٹ بولنا، بغیر تحقیق کئے خبریں پھیلانا، فیک پروپیگنڈہ کرنا، افواج کے علاوہ ریاست پاکستان سے بھی غداری کے زمرہ میں آتا ہے۔

ہمارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص (روزہ رکھ کر) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا اور جہالت کی بات نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی بھوک پیاس کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری شریف)۔

پاک فوج ان گنت شہداء، غازیوں اور کئی ایسے گمنام سپاہیوں کی امین ہے جن کے ناموں سے دنیا واقف نہیں ہے مگر وہ اپنے لہو سے پاکستان کی حفاظت کرکے اسے ناقابل تسخیر بنارہے ہیں۔ 17 ستمبر 2006ء کو ایسا ہی ایک دن تھا جب واہگہ بارڈر پر بھارت نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستان کے حوالے کیا، اس میں ایک ڈھانچہ نما قیدی بھی تھا جس کے بدن پر بھارتی جیل میں سہے گئے مظالم کی داستان لکھی ہوئی تھی اور اس کی زبان کٹی ہوئی تھی۔ وہ نہ جانے کس طرح لاہور سے آزاد کشمیر رجمنٹ پہنچ گیا۔ ایک افسر کے سامنے جاکے زوردار سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر شکستہ سی لکھائی میں لکھا "سپاہی مقبول حسین ڈیوٹی پر آگیا ہے"۔

فوجی افسران نے پرانی فائلوں کی مدد سے تحقیق کی تو حیران رہ گئے اسے بھارت نے 65ء کی جنگ میں گرفتار کیا تھا اور پھر دن رات ناقابل بیان تشدد کا نشانہ بناتے رہے، اسے مجبور کرتے کہ کہو "پاکستان مردہ باد" مگر تشدد کے باوجود سپاہی مقبول حسین کی زبان سے بس یہی نکلتا کہ پاکستان زندہ باد! یہ عمل اتنی بار ہوا کہ تنگ آکر ہندو سپاہیوں نے اس کی زبان ہی کاٹ دی مگر وہ اپنے زخمی بدن سے رستے لہو کے ساتھ قید خانے کی دیوار پر لکھ دیتا "پاکستان زندہ باد"۔ اس فدایانہ جذبے کو کوئی کیسے شکست دے سکتا ہے!

آئیے رمضان المبارک میں بحیثیت قوم عہد کریں کہ افواج پاکستان کا ساتھ دے کر قوم و وطن کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنائیں گے۔ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے کیوں کہ یہ کلمہء طیبہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا ہے۔

میرا دل تیری محبت کا ہے جاں بخش دیار
میرا سینہ تیری حرمت کا ہے سنگین حصار

میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار
میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہء تن

اے میرے پیارے وطن!
پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!

Check Also

Chitral Aur Gilgit Baltistan Ke Glaciers

By Rehmat Aziz Khan