Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ismat Usama
  4. Maa Ki Azmat Ko Salam

Maa Ki Azmat Ko Salam

ماں کی عظمت کو سلام

"ماں" ایک ایسا لفظ ہے جسے ادا کرتے ہی منہ میں مٹھاس گھل جاتی ہے۔ ماں کا لمس، بچے کے لئے زندگی اور سکون کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ماں سے بات کرکے دل ہلکا ہوجاتا ہے، اس لئے کہ ماں تو نام ہی ممتا اور خلوص کا ہے۔ ماں اپنی اولاد کے لئے ہر طرح کی تکلیف برداشت کرتی ہے۔ انتہائی اذیت ناک مرحلے سے گزر کر بچے کو جنم دیتی ہے اور بعض اوقات خود جان کی بازی ہار جاتی ہے۔

زندہ رہے تو جسم و جان کی سب توانائیوں کو بچوں کی پرورش میں صرف کر دیتی ہے۔ اردو ادب کا مقولہ ہے کہ اگر موسم گرم ہو تو دو میں سے ایک بات نہیں ہوگی، یا تو وہاں ماں نہیں ہوگی یا پھر وہاں دھوپ نہیں ہوگی! ۔ چھوٹے بچے کی پیدائش اور پرورش کے مراحل کٹھن بھی ہوتے ہیں اور جاں گداز بھی۔ اولاد کو پالنے کے لئے ماں اپنا سکھ چین، نیند، خواہشات سب کچھ قربان کر دیتی ہے

کسی شاعر نے لکھا:

ماں وہ چراغ ہے جو کبھی بجھتا نہیں
دھوپ میں بھی چھاؤں سا سکوں ملتا وہیں

لب پہ آئے جو دعا، سب سے پہلے نام تیرا
تُو جو نہ ہو، خالی لگے ہر اک بسیرا

نیند میں بھی خواب تیرے سائے سے روشن
تیری گود، جیسے ہو جنت کا دامن

دن بھر کی تھکن جب بدن پر سوار ہو
تیری آواز میں چھپا سکون بے شمار ہو

تو کھانا کھلائے تو ذائقے بدل جائیں
تیرے ہاتھ کی خوشبو سے دل بہل جائیں

تو نے ہر درد چھپایا مسکرا کے
ہم کو ہنسایا خود اشک بہا کے

تیرا ہونا، میرے ہونے کی دلیل ہے
میری ماں تو رحمتِ ربِ جلیل ہے!

ماں اپنے بچوں کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے حل کے لئے کوشاں رہتی ہےاور راتوں کو اٹھ اٹھ کے رب کریم سے دعائیں مانگتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ: جب وقت آپ کے خوابوں کو تہس نہس کر رہا ہوتا ہے تو آپ کی ماں اپنے مصلے پر، اپنی دعاؤں میں اسے دوبارہ تعمیر کر رہی ہوتی ہے!

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو ہر شعبۂ زندگی میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو اسلام نے بہت اہمیت دی ہے، خاص طور پر ماں کے مقام کو نہایت بلند و بالا قرار دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں بار بار والدین کی اطاعت و خدمت کی تاکید کی گئی ہے۔

قیامت سے پہلے کے زمانے کی جن نشانیوں کی نشان دہی حضور اکرم ﷺ نے فرمائی، اُن میں سے ایک بڑی نشانی "ماؤں کی نافرمانی" ہے۔

علاماتِ قیامت جو احادیث میں بیان فرمائی گئی ہیں، ان میں سے ایک علامت یہ ہے کہ لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی (بحوالہ مسلم شریف)۔

اس کی وضاحت علمائے کرام نے اس طرح فرمائی ہے کہ اولاد ماں پر حکم چلائے گی، ماں کی حیثیت ملازمہ جیسی ہوگی کہ بس وہ سب کے کام کرتی رہے مگر اسے کوئی عزت و وقار حاصل نہیں ہوگا، اولاد نافرمان ہوجائے گی۔

یہ حدیث نہ صرف قربِ قیامت کی نشانیوں کو ظاہر کرتی ہے، بلکہ ہمارے معاشرتی زوال کی ایک اہم وجہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ آج کے دور میں، مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر نوجوان طبقہ والدین، بالخصوص ماں کی نافرمانی، بدتمیزی اور بے ادبی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ موبائل فون، سوشل میڈیا اور دوستوں کی محفلوں نے ماں کی محبت، خدمت اور دعاؤں کی اہمیت کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اسلامی معاشرہ تبھی پنپ سکتا ہے جب اس کی بنیاد ادب، خدمت اور محبت پر ہو اور ماں کے ساتھ حسنِ سلوک سب سے بلند عمل ہے۔ نافرمانی صرف زبانی کلامی گستاخی نہیں، بلکہ ماں کی بات کو اہمیت نہ دینا، وقت نہ دینا اور اس کے حقوق ادا نہ کرنا بھی نافرمانی میں شامل ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و احترام سے بات کرنا"۔ (سورۃ الإسراء: 23)۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ گناہوں میں سے جس گناہ کو چاہیں معاف فرما دیتے ہیں مگر والدین کی نافرمانی کو معاف نہیں فرماتے بلکہ اس جرم کی سزا مرنے سے پہلے دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)۔

ایک صحابی حضور ﷺ کے پاس آئے اور جہاد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا آپ کی والدہ زندہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کی خدمت میں لگے رہو کیوں کہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے۔ (سنن نسائی، ابن ماجہ)۔

آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ سدھر جائے، نسلیں سنور جائیں اور اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو تو ہمیں ماں کے مقام کو پہچاننا ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں، ماں کے ساتھ اپنا رویہ بہتر بنائیں، خواہ وہ اپنی ماں ہو یا اپنے بچوں کی ماں، اسے سکون اور عافیت کا ماحول فراہم کریں۔

بڑھاپے میں والدین بعض اوقات بچوں جیسے ہوجاتے ہیں۔ چھوٹی سی بات پر خوش اور چھوٹی سی بات پر دکھی ہوجاتے ہیں۔ جسمانی قوتیں اور اعضاء ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ بیماریوں کی وجہ سے والدین چڑچڑے یا زود رنج ہو جاتے ہیں، ایک ہی بات کو بار بار دہرانے لگتے ہیں، اونچا سننے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ضعف العمری کی وجہ سے ذہنی صلاحیتوں اور عقل میں کمی آجاتی ہے، بات سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں ایسے وقت میں انھیں بچوں کی طرح شفقت اور محبت درکار ہوتی ہے۔ جس طرح ایک چھوٹا بچہ ضد کرتا ہے، تنگ کرتا ہے، توجہ مانگتا ہے، اسی طرح بڑھاپے میں مائیں ہوجاتی ہیں لیکن یہی موقع ہوتا ہے ان کی محبت کے قرض کو لوٹایا جائے، ان سے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت دیا جائے، ان کی صحت کی دیکھ بھال کی جائے۔

نجانے وہ کیسی اولادیں ہیں جو اپنی جنتوں سے غافل ہوجاتی ہیں؟ نجانے وہ کیسے خون ہیں جو والدین سے نمو پاکر بھی سفید کے سفید رہتے ہیں؟ نجانے وہ کیسے پتھر دل ہیں جنھیں والدین کی تکالیف کا احساس نہیں ہوتا؟ نجانے وہ کیسی مصروفیات ہیں جن کی وجہ سے اولادوں نے اپنا پہلا گھر "رحم مادر" فراموش کردیا ہے؟ ماؤں سے غافل اور ان کو اولڈ ہومز میں چھوڑنے والی اولادیں یاد رکھیں کہ آج جو کچھ وہ بوئیں گی، کل وہی کچھ کاٹیں گی۔

Check Also

Dhoka Dar Dhoka

By Naveed Khalid Tarar