Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Yaa Wohi Hai Ko Etebar Kya

Yaa Wohi Hai Ko Etebar Kya

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

مشہور ہونے والے اس واقعے کو ابتدائی طور پر انسانی نفسیات اور ذہن کے اپنے بدن پر کنٹرول کی کیس اسٹڈی کے طور پر لیا گیا تھا۔ بعدازاں یہ واقعہ فکشن ثابت ہوا، البتہ اس سے مماثل کئی حقیقی واقعات کتب میں درج ہیں۔

امریکہ میں ایک سائنس دان اپنا ایک نظریہ اور مفروضہ آزمانا چاہتا تھا۔

اسے ایک ایسے رضاکار کی ضرورت تھی جسے موت کی سزا سنائی جا چُکی ہو۔ آخرکار اسے ایک مجرم ملا جسے برقی کرسی پر بِٹھا کر موت کی اندھی وادی میں دھکیل دیا جانا تھا۔ سائنس دان نے مجرم کو پیش کش کی "کیا تم ایک ایسے سائنسی تجربے میں شریک ہونے کو تیار ہو جو تمھیں بالکل تکلیف نہیں دے گا۔ برقی کرسی کی موت بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔ تم اس اذیت سے بچ جاؤ گے اور تمھارا نام بھی اس تجربے کی وجہ سے کتابوں میں امر ہو جائے گا۔ اس تجربے میں دل کی دھڑکن کو انتہائی سست کیا جائے گا اور خون کو آہستہ آہستہ جسم سے بہنے دیا جائے گا یہاں تک کہ آخری بوند تک نکل جائے گی۔ "سائنس دان نے وضاحت کی کہ زندہ بچنے کا امکان شاید صفر کے قریب ہے، مگر موت بے درد اور بغیر تکلیف کے ہوگی۔

مجرم نے سوچ سمجھ کر رضامندی ظاہر کیر دی کیونکہ اسے محسوس ہوا کہ اس طرح مرنا برقی کرسی پر جھٹکے کھا کر مرنے سے بہتر ہے۔

قیدی کو ایک اسٹریچر پر لٹا کر مضبوطی سے باندھ دیا گیا تاکہ وہ ہل سکے اور نہ ہی اردگرد دیکھ سکے۔

ڈاکٹر نے اس کی کلائی پر ایک معمولی سا کٹ لگایا اور اس کے نیچے ایک چھوٹا سا ایلومینیم کا پیالہ رکھ دیا۔

کٹ صرف جلد کی بالائی سطح تک تھا لیکن مجرم کو یقین دلایا گیا کہ اس کی کلائی کی ایک مرکزی رگ پر کٹ لگایا گیا ہے۔

کلائی کے قریب ایک برتن رکھ دیا گیا جس میں مائع کیمیکل بھرا تھا اور اس پر ایک چھوٹا سا والو لگا تھا جو قطرہ قطرہ بہاؤ کو کنٹرول کرتا تھا۔

مجرم ہر قطرے کی آواز سن سکتا تھا اور گن سکتا تھا۔ تجربے کے دوران اسے یقین ہوگیا کہ اس کا خون بہہ رہا ہے۔ حالاں کہ وہ کیمیائی محلول بہ رہا تھا۔

آہستہ سے سائنس دان نے والو کو مزید کَس دیا تاکہ قطروں کا اخراج آہستہ ہو جائے اور قیدی کویقین ہو جائے کہ اس کا خون ختم ہوتا جا رہا ہے۔

چند لمحوں میں مجرم کا چہرہ زرد پڑ گیا اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔

جب اس کی مایوسی انتہا کو پہنچ گئی تو سائنس دان نے والو کو مکمل طور پر بند کر دیا۔

لمحے ٹھہر گئے، وقت تھم گیا، تاوقتیکہ مجرم کا دل آہستہ آہستہ بند ہوگیا۔ بالآخر وہ مر گیا۔

{اس تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ جو کچھ ہم محسوس کرتے ہیں، چاہے مثبت ہو یا منفی، وہ ہمارے پورے ذہنی اور جسمانی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔

جب لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ کوئی مہلک وائرس ان کے بدن میں داخل ہوگیا ہے تو کئی لوگ صرف خوف سے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ جدید میڈیا کو ہر لمحہ نئی اور چونکا دینے والی خبر چاہیے ہوتی ہے۔ اگر خبر نہ ہو تو وہ ناخبر کو خبر بنا دیتا ہے۔ توجہ حاصل کرنے کے لیے منفی خبروں کو مرکزی جگہ دی جاتی ہے۔ ایک گاؤں میں ہونے والے ایک قتل کی خبر کو اس طرح اٹھایا جاتا ہے جیسے ہر سُو قتلِ عام جاری ہے۔ جب ہمیں میڈیا سے روز وشب خوف ناک خبریں ملتی ہیں تو ہمارا جسم مسلسل خوف میں مبتلا رہتا ہے اور ہماری قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے۔

ہم نے اکثر اپنے اِردگرد دیکھا ہے کہ ایک بچہ موت کے منہ میں جاتے جاتے، ہلاکت خیز بیماری سے بھی بچ گیا۔ بچے اکثر سنگین حالات میں بھی زندہ بچ جاتے ہیں، کیونکہ ان کے ذہن میں موت کا ایساخوف نہیں ہوتا جیسا بالغوں کے اذہان میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بھی سنگین بیماری میں مبتلا مریض کو اس کی بیماری کا مکمل طور پر ادراک نہیں کرواتے، تاکہ مریض کی نفسیات پر اس کے بُرے اثرات مرتب نہ ہوں اور وہ ہمت نہ چھوڑ بیٹھے۔ اگر آدمی ہمت چھوڑ بیٹھے تو دوا بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔ صحت مند جسم کے لیے صحت مند ذہن ضروری ہے، سو حسبِ ضرورت خبروں، بالخصوص مثبت خبروں کی جُست جو کریں۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed