Social Media, Fake News, Zimmedari Ka Muzahira Karen
سوشل میڈیا، فیک نیوز، ذمہ داری کا مظاہرہ کریں

پرنٹ میڈیا کے عروج کے دور میں خبر کی صحت کو خاص ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ اس سے اخبار/جریدے کی شہرت بھی وابستہ ہوتی ہے۔ چند برس پہلے تک کسی خبر کے درست ہونے کے لیے یہ کہ دینا کافی ہوتا تھا" یہ خبر اخبار میں شائع ہوئی ہے"۔ جھوٹے الزامات اور گم راہ کُن خبروں کا تب بھی چلن تھا مگر محدود۔ محاسبے کا نظام موجود تھا جو کَڑی نظر رکھتا تھا۔ البتہ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد زیادہ ویوز کی خاطر سنسنی خیز مصالحہ لگی خبروں کا چلن نہ صرف عام ہوا بلکہ عوامی توجہ نے اسے قبولیت بھی دِلا دی۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا کا ایک اور پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ فحش مواد نہ صرف بچوں اور گھرانوں کی عام دست رس میں آ گیا بلکہ یہ شرفا کے گھروں میں دستک اور صدائیں دینے لگا" مُجھے دیکھو"۔ بازاری زبان لُچوں لفنگوں کی تھی، سفید پوش اس زبان اور ماحول کی پلیدی سے اپنا دامن بچا کر چلتے تھے۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے بازاری زبان کی گھروں کے پُختہ و ناپُختہ اذہان تک رسائی ہوگئی۔ وہ زبان جو لُچے استعمال کرتے تھے عام گھرانوں میں بھی سُنی، لکھی، پڑھی اور بولی جانے لگی۔
پورا کرہ ارض اس امتحان کا سامنا کر رہا ہے جہاں آزادی اظہار اور یاوہ گوئی و اخلاق کے مقبول معیارات سے رُوگردانی کے بیچ باریک لکیر دُھندلا رہی ہے۔ پاکستان میں متعدد گھریلو جرائم کے واقعات ابتدائی طور پر سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں سنسنی خیز انداز میں رپورٹ ہوئے، لیکن بعد ازاں تحقیقات سے ان کی حقیقت مختلف ثابت ہوئی۔ یہ واقعات نہ صرف غلط معلومات کے پھیلاؤ کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے خبریں شیئر کرنے کے خطرات کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔
پاکستان میں معصوم بچیوں کے زیادتی و قتل کے اندوہ ناک واقعات حساس شہریوں کے جگر چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ البتہ بلا تحقیق غلط خبروں کا پھیلاؤ ظلم کے حقیقی واقعات کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے۔ ڈسکہ میں نوبیاہتا دلہن کے ہاتھوں شوہر کے قتل کے واقعہ کو پدرسری معاشرے کے کارندوں نے رائے عامہ کو اپنے حق میں استعمال کیا، تازہ صورت حال میں وہ ساری واردات مشکوک ہو چُکی ہے، نوبیاہتا اور اس کے مبینہ آشنا پر الزام کم زور پڑ چُکا ہے۔
اسی طرح اسلام آباد میں ٹک ٹاکرکے قتل کو غیرت کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر طوفان بپا ہے۔ البتہ جب تک مکمل تحقیق و تفتیش نہیں ہو جاتی حتمی طور پر کُچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چند دیگر واقعات جن پر سوشل میڈیا خوب ہل چل ہوئی، بعد ازاں ان کے حتمی نتائج ابتدائی قیاس آرائیوں سے مختلف نکلے۔ یوں خودساختہ واقعات تلےحقیقی واقعات کی سنگینی گَھٹ جاتی ہے۔
1- لاہور کے کالج میں مبینہ زیادتی کا واقعہ (2024)
اکتوبر 2024 میں لاہور کے ایک نجی کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس کے بعد طلبہ نے احتجاج شروع کر دیا۔ تاہم، کالج انتظامیہ اور متاثرہ طالبہ کے والدین نے اس واقعے کی تردید کی اور بتایا کہ طالبہ گھر میں گرنے سے زخمی ہوئی تھی۔ پنجاب حکومت نے اس واقعے کو "منصوبہ بند سازش" قرار دیا، جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (FIA) نے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کی تحقیقات شروع کیں۔
2۔ لاہور میں پولیس اہلکار پر جھوٹا زیادتی کا الزام (2025)
مارچ 2025 میں لاہور میں ایک خاتون نے پولیس اہلکار پر اپنی بیٹی اور بھانجی کے ساتھ زیادتی کا الزام لگایا، جس پر پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کیا۔ تاہم، بعد ازاں متاثرہ خواتین نے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے سے انکار کیا اور عدالت میں صلح نامہ پیش کیا، جس میں اعتراف کیا گیا کہ پولیس اہلکار بے قصور ہے۔
3۔ دادو میں بم دھماکوں کی جھوٹی خبریں (2025)
مارچ 2025 میں دادو شہر میں بم دھماکوں کی جھوٹی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں، جس سے شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس نے 34 سوشل میڈیا صارفین کے خلاف مقدمات درج کیے اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے۔ پولیس نے عوام کو خبردار کیا کہ بغیر تصدیق کے خبریں شیئر کرنا جرم ہے۔
پاکستان میں جنسی زیادتی کے جھوٹے الزامات کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں متاثرہ فریقین نے بعد ازاں الزامات واپس لے لیے یا صلح کر لی۔ ایسے واقعات نہ صرف عدالتی نظام پر دباؤ ڈالتے ہیں بلکہ اصل متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کو بھی مشکل بنا دیتے۔
یہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے خبریں شیئر کرنا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ دوستوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کریں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

