Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Sach Kya Hai?

Sach Kya Hai?

سچ کیا ہے؟

حال ہی میں سوشل میڈیا پر چند جذباتی احباب کی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں وہ پاکستانی خواتین کو صلاح دے رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد وطنِ عزیز کو چھوڑ جائیں کیونکہ یہاں مردوں کے بھیس میں درندے گھوم رہے ہیں جو ان کو قتل، ریپ یا زخمی کر دیں گے۔ گویا پاکستان ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں عورتوں کے خلاف جرائم حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور دیگر ممالک میں راوی چَین ہی چَین لکھتا ہے۔

اس غوغائے فلک شگاف کو معصوم بچی ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل سے مہمیز ملی ہے۔ دانش مندانہ رویہ یہ ہے کہ ٹھنڈے دل و دماغ سے اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے اور ان کا مدلل تجزیہ کیا جائے۔ بلاشبہ پاکستانی عورت بہت سے خطرات کا سامنا کر رہی ہے، اِدھر بے شمار جرائم رپورٹ نہیں ہو پاتے سو اعدادو شمار کا حصہ نہیں بن پاتے۔ البتہ یاد رہے کہ برطانیہ میں جیک دا رِپر اور امریکہ میں ٹیڈ بَنڈی جیسے سیریل کلر رہے ہیں جو درجنوں سینکڑوں نہتی لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر اذیت ناک موت سے ہم کنار کرتے تھے۔

آج بھی بیلجیم کے قحبہ خانوں سے لے کر جرمنی کے براتھل ہاؤسز میں مشرقی یورپ سے لے کر جنوبی امریکہ تک سے تعلق رکھنے والی بچیاں جنسی استحصال کا شکار ہیں۔ مغربی ممالک کی سڑکوں پارکوں میں روزانہ ریپ، دست درازی اور قتل کے بے شمار کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ جس بربریت کا سامنا ثنا یوسف کو کرنا پڑا ویسی بربریت کا سامنا روزانہ دنیا کے بے شمار ممالک کی معصوم بچیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ یہ واقعات تواتر سے بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ البتہ ان سے پاکستان میں ہونے والے جرائم کو ہرگز جواز نہیں ملتا۔

ثنا کا قاتل ایک ذہنی مریض ہے، ایسے ذہنی مریض بھارت سے لے کر برازیل تک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ دماغی امراض کے ماہرین خوب جانتے ہیں کہ ان امراض کا تعلق کسی خاص قومیت سے نہیں بلکہ یہ کسی بھی شخص کی ذہنی کجی سے جنم لیتے ہیں۔ ایسا شخص موزمبیق سے تعلق رکھ سکتا ہے تو گریناڈا سے بھی۔ یہ کسی طور ان جرائم کا جواز نہیں بلکہ ان کی ماہیت کھوجنے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ بے شک ایسے بہیمانہ جرائم انسانیت کے چہرے پر طمانچہ ہیں۔

تشدد کی شرح

عالمی اوسط: تقریباً 30% خواتین نے قریبی ساتھی سے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا۔

پاکستان میں تقریباً 34% شادی شدہ / غیر شادی شدہ خواتین نے جسمانی، جنسی یا جذباتی تشدد کا تجربہ کیا۔ یہ اوسط ہے۔ کئی ممالک میں یہ شرح خاصی بڑھ کر ہے جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ یوں پاکستانی اوسط غیر معمولی نہیں، البتہ 1% خواتین پر بھی جسمانی تشدد ناقابل قبول ہے۔

جنوبی ایشیا: 35% خواتین نے زندگی میں کبھی نہ کبھی شریک حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا۔

افریقہ: 33% خواتین نے زندگی میں کبھی نہ کبھی شریک حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ: 31% خواتین نے زندگی میں کبھی نہ کبھی شریک حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا۔

یورپ: 22% خواتین نے زندگی میں کبھی نہ کبھی شریک حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا۔

امریکہ: 25% خواتین نے زندگی میں کبھی نہ کبھی شریک حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا۔

اگرچہ پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں، جیسے ویمن پروٹیکشن بل (2006) اور انسدادِ خواتین مخالف قوانین (2011) لیکن ان پر عملدرآمد کمزور ہے۔

چند ذہنی مریضوں کے جرائم کا انطباق پورے معاشرے پر نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر مردوں کی وسیع اکثریت خواتین کا احترام کرتی ہے، پبلک آفیسز میں ان کو ترجیح دی جاتی ہے، باپ بھائی بیٹے شوہر اپنی خواتین کی فلاح کے لیے مشقت کی چکی میں شب و روز پِستے ہیں، بیواؤں یتیم بچیوں کا سہارا بنتے ہیں، ان کی شادیاں کرواتے ہیں، اپنی بہن بیٹیوں کو خوش دیکھ کر نہال ہو جاتے ہیں۔ ہماری سرکاری اور پرائیویٹ ملازمتوں اور کاروبار میں بے شمار بچیاں بلا خوف و خطر شامل ہو رہی ہیں۔ ہر شاپنگ سینٹر، تعلیمی ادارے، بینک، دکانوں اور دفاتر میں خواتین صبح شام کام میں منہمک ہیں، ایسا چند دہائی پہلے تک ممکن نہ تھا۔ عورتیں تعلیم اور طب کے شعبوں تک محدود تھیں۔ یقیناً ہمارے سارے مرد درندے نہیں، ہرگز نہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali