Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Qissa Baap, Beti Aur Aik Dawat Ka

Qissa Baap, Beti Aur Aik Dawat Ka

قصّہ باپ، بیٹی اور ایک دعوت کا

ایک قصبے میں ایک سادہ لوح آدمی اپنی بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ وسیع القلب اور سخی آدمی تھا، ہر خوشی میں لوگوں کو شریک کرتا اور دوسروں کی خوشی میں خوش رہتا۔ اس کی تجوری ضرورت مندوں کے لیے کھُلی رہتی اور وہ غرض مندوں کی مدد کے لیے آمادہ رہتا۔ اس کی بیٹی اپنے باپ کی دریا دلی پر جہاں خوش ہوتی وہاں پر اس بات پر کُڑھتی رہتی کہ لوگ اس کے باپ کی چاپلوسی کرکے اس سے پیسے اینٹھتے رہتے۔

ایک مرتبہ ایک ترکیب بیٹی کے ذہن میں آئی۔

خوشی کے ایک موقع پر اُس آدمی نے ایک بچھڑا ذبح کیا اور اس کا بار بی کیو تیار کرنے کے لیے آگ سُلگائی۔ جب انگارے دہک گئے تو اُس نے اپنی بیٹی کو آواز دی۔

"پیاری بِٹیا جا، سب رشتے داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کو بلا لا۔ سب ہمارے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں۔ آج خوشی کی خبر آئی ہے، اس میں سب کو شریک کر لیتے ہیں"۔

بیٹی نے دروازے سے باہر قدم رکھا اور گلی میں دور جا کر آواز لگائی۔

"لوگو، مدد کرو، ہمارے گھر میں آگ لگ گئی ہے، وہ دیکھو دھواں اُٹھ رہا ہے۔ جلدی کرو ہماری مدد کرو"۔

یہ سن کر چند لوگ ہی لپکتے ہوئے مدد کو آئے، دیگر نے بچی کی پُکار کو یوں نظر انداز کیا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔

وہ جو مدد کو آئے، انہیں گھر میں دعوت کا سامان دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔ انہیں بچی نے اصرار کرکے دعوت میں شریک کر لیا۔ جب باپ باغیچے میں سُلگتے بار بی کیو کو بیچ میں چھوڑ کر اندر آیا تو مہمانوں میں چند اجنبیوں کو دیکھ کر حیران ہوا لیکن خاموش رہا۔ ہمسائے میں رہتے بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کو نہ دیکھ کر وہ بیٹی سے پوچھنے کو تھا لیکن مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی۔ رات گئے تک مہمانوں نے کھانا کھایا، محفل جمی اور جشن کا سماں رہا۔

جب شور و غوغا تھما اور مہمان اطمینان سے کھانا کھا کر اور خوش گپیاں کرکے رُخصت ہو گئے تو باپ نے حیرانی سے اپنی بیٹی سے پُوچھا۔

"بِٹیا میں ان میں سے اکثر مہمانوں کو پہچانتا بھی نہیں تھا۔ چند لوگ تو زندگی میں پہلی بار دیکھے۔ ہمارے بہت سے پڑوسی دوست اور رشتے دار کہاں ہیں، وہ کیوں نہیں آئے؟"۔

بیٹی نے مسکرا کر نرم اور محبت بھرے لہجے میں گزشتہ روداد سُنا کر اپنے عزیز باپ سے کہا۔

"ابا جان، یہ لوگ دعوت کے شوق میں نہیں آئے تھے، یہ ہمیں مصیبت میں دیکھ کر بغیر کسی غرض کے، اپنی اچھی فطرت اور ہم درد مزاج کے باعث، ہماری مدد کو آئے تھے۔ یہی وہ قیمتی اورمخلص لوگ ہیں جو ہمیں پریشانی میں دیکھ کر لپکے آئے اور یہی لوگ ہماری خوشی میں شرکت کے اصل حق دار ہیں"۔

باپ نے بیٹی کی بات سُن کر تائید میں سر ہلایا اور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔

(ماخوذ)

اس سبق کو گرہ میں باندھ لیں کہ بھلے آپ بے غرض ہو کر لوگوں کی مدد کریں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کریں مگر ڈوبتے جہاز سے کسی ایسی مددگار کشتی میں قدم نہ رکھیں جس میں سوراخ ہو۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz