Qareena e Khursheed
قرینہء خورشید

موت آدمی کے ساتھ پیدا ہوتی ہے اور اُس کے ساتھ ہی مرجاتی ہے، موت عمر بھرآدمی کا پیچھا کرتی ہے یہاں تک کہ بالآخر اُسے جالیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موت کا خوف آدمی کے تحت الشعور اور شعور میں تاحیات سفر کرتا ہے۔ آدمی عمر بھر اس اندوہ ناک حقیقت سے فرار اختیار کرتا رہتا ہے، کبھی اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے تو کبھی خدائی کو۔ غالبؔ اسے غم کا نجات دہندہ قرار دیتا ہے، تو ندیمؔ اسے سمندر سے تشبیہ دیتا ہے، ساغرؔ اسے زندگی کی کڑی قرار دیتا ہے، توشیداؔ اس میں شفا تلاش کرتا ہے۔ البتہ فرائڈ موت کا ایک اور رُخ دریافت کرتے ہوئے پکار اٹھتا ہے "کُل حیات کا مطمح نظر موت ہے"۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ مَوت آدمی کی تخلیقی جبلت میں وہ تحریک پیدا کرتی ہے جو کئی قابلِ ذکر فنّی تخلیقات کا موجب بنتی ہے۔
بہت سے قدیم و جدید فلاسفہ کا خیال ہے کہ موت کا خوف ادب کے علاوہ دیگر فنوں کے جذبہ تخلیق کو انگیخت کرتا ہے۔ آدمی کی جنسی جبلت کے سوتے بھی خوفِ قضا سے پھوٹتے ہیں کہ اِس کے پس پردہ نوع بشرکی اپنی نسل کی بڑھوتری کی خواہش کارفرما ہوتی ہے۔ آدمی اپنی آیندہ نسل کی صورت میں اپنا دوام دیکھتا ہے اور اپنی بقا کی علامت دیکھتا ہے۔ آرتھرشوپنہار تو ایک قدم بڑھ کر بول اٹھتا ہے"اگر موت نہ ہوتی تو شاید ہی کوئی فلسفہ وجود رکھتا"۔ ناوجود اور وجود، معدوم اور موجود، نیستی اور ہستی کے مابین مکالمے کی صورت گری فن و فن پارے کی شکل میں ہوتی ہے۔ کرک گارڈ کے فلسفے سے لے کر جولیان بارنز کے فکشن تک، منیر نیاری کے اشعار سے لے کر تارڑ کے ناولوں تک میں موت زندگی کی بو ُ سونگھتی پھرتی ہے۔
زمین کے اندھے اندھیرے میں مدفون کو کوئی مردہ کہتا ہے تو کوئی بیج سمجھتا ہے۔
یوں ازل سے تخلیق کار موت سے معاملہ کرتے آئے ہیں۔ ایک لڑی ہے، طویل لڑی ہے خَلَّاق کی۔ اقبال خورشید بھی ان میں شامل ہیں۔ اقبال کے بیش تر افسانوں پر موت کی پرچھائی پڑتی ہے، کہیں ایک سایہ، ایک شائبہ اپنی جھلک دکھلاتا ہے تو کہیں عزرائیل اپنے پنکھ پھڑپھڑاتا سامنے آجاتا ہے۔ زندگی کا سَوریا، سورج عروج پکڑتا ہے تو قضا کے زوال کے وعدے سے، سَوریاست، غروبِ آفتاب۔
البتہ اقبال خورشید پیمبر مرگ و فنا نہیں بلکہ حقیقت کا نقاش ہے۔ موت ایک حقیقت ہے، جیسے حیات ایک حقیقت ہے، رات ایک حقیقت ہے، جیسے سحر ایک حقیقت ہے، سو ہر ادیب کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کیا دکھانا چاہتا ہے، اُسے رعنائی، شادابی، دل آویزی اور خوشبو بھاتے ہیں یا وہ پژمردگی، اُداسی، دل گرفتگی اور تنہائی کا شیدا ہے اور اُسے تالاب والے بنگلوں کی بہ نسبت جوہڑ کے گرد جھونپڑیاں اپنی اور متوجہ کرتی ہیں۔ قرینِ انصاف و توازن تو یہ ہوگا کہ وہ ہر دو جانب کی نقش گری کرے، بلکہ شش جہات کا عکاس ہو۔ اس میں روشنی کو کتنی جگہ دینی ہے اور اندھے گھپ اندھیرے کو کتنی، یہ اُس کے دل و دماغ ونظر کے تال میل سے طے پاتا ہے۔
فلسفہِ وجودیت کے نمایاں مفکر ژاں پال سارتر اور البرٹ کامیو اس فکرکے قائل تھے کہ موت زندگی کا جزو لاینفک ہے جو وجود کو معنی دیتی ہے۔ فنا کی آگاہی فرد کے اندر حقیقت کے قریب تر زندگی گزارنے کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ رواقی طرزِ نظر کا ممتاز فلسفی مارکوس اور یلیوس اور اس فکرکے پیرو دیگر مفکرین اس امر کے قائل تھے کہ موت زندگی کا قدرتی حصہ ہے۔ اس سے خوف کھانے کے بجائے اسے قبول کرنا ہی دانش مندی کا تقاضا ہے۔ ہندو مت اور بدھ مت کے فلسفہِ آواگون میں موت کو ایک جیون سے دوسرے جیون میں انتقال کا ایک مرحلہ کہا گیا ہے۔ ایپی کیورس جیسا نکتہ سنج نکتہ آرا ہوتا ہے "موت سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ جب یہ آئے گی تو ہم نہ ہوں گے"۔
گویا جب موت ہوگی تو زندگی نہ ہوگی اور جب زندگی ہوگی تو موت نہ ہوگی۔ یہ موت سے رومان ہے، اس کا خوف ہے یا اس کی ناگزیریت کا احساس ہے جو اقبال خورشید نے اپنے افسانوں کے مجموعے کا انتساب "موت کے نام" کیا ہے۔ ایک اہم نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ موت کی پرچھائی کے باوجود اقبال کے اس موضوع سے متعلقہ چند افسانے سرمئی، سیاہ نہیں، ان میں سے بیش تر کا ایک جزو موت ضرور ہے مگر وہ ان کا کُل نہیں، وہ زندگی سے بھرواں ہیں موت سے مملو نہیں۔ ان میں مختلف طرز و انداز کے زندہ کردار ہیں، زندگی سے بھرپور کہانیاں ہیں، رنگا رنگ ماحول اور منفرد خیال ہیں۔ علامت و تجرید ان کہانیوں کو چھوکر گزر جاتی ہے، ان میں بسیرا نہیں کرتی۔
اقبال کے ہاں کہانی حزن و رنج کے ملبے تلے دب نہیں جاتی بلکہ زندگی سے بھرپور، مختلف و متنوع کرداروں سے مزین، گلی محلوں میں گونجنے والی آوازوں سے زندگی آمیز اور ہمارے اِردگرد شناسا و ناشنا سا چہروں سے سجی ہوئی سامنے آتی ہے۔ یہ کہانی ہی ہے جو نامعلوم کی جُست جُو، تجسّس کی اشتہا اور حقائق کی مختلف جہتوں سے عبارت ہے۔ حقیقت نگاری پر قابلِ رشک گرفت اس گمان کو یقین کی دہلیز تک لے آتی ہے کہ اقبال خورشید کی تحریر کردہ ہر کہانی، سچی کہانی ہے۔ سچ، بے شمار سچ ہمارے اِردگرد بکھرے دیدۂ بینا کے منتظر رہتے ہیں۔ قدرت نے اقبال کو وہ دیدۂ بینا عطا کی ہے۔
جو ادیب ایک سماج کی کہانی بیان کرتا ہے وہ تمام سماجوں کی کہانی بیان کرتا ہے، کیوں کہ بیش تر انسان اپنی جبلت و سرشت میں مماثل ہیں۔ البتہ ثقافتی ومعاشرتی رنگ بدل جاتے ہیں، فطرتِ آدم نہیں۔
موضوعاتی تنوع اقبال کے ہاں بہ کثرت ہے، البتہ ایک عنصر تمام افسانوں کی زیریں رو میں یکساں کارفرما نظر آتا ہے، وہ ہے شہری زندگی کا بیان، یہ شہری زندگی اقبال کے اپنے شہر کراچی کی زندگی ہے۔ یہ صرف کراچی ہی کی نہیں ہر شہر کی کہانی ہوسکتی ہے۔ یوں اقبال کراچی کے ذریعے ہر شہر کی کہانی بیان کرتا ہے۔
اقبال کے ہاں افسانوں کیک اور کُتّے، چاند ماموں، سردخانے کا ملازم اور قبل از تاریخ کی ایک رات، میں حزن، قنوطیت اور انترہوت اداسی کے عناصر نمایاں ہوتے ہیں تو دوسری جانب مکودادا کی اساطیر، میں شہری زندگی صوت و بو کے ساتھ مجسم ہوتی ہے۔ کیک اور کُتّے، کے فضل خان اور صابر آفریدی ہمارے اِردگرد ہی کے تو لوگ ہیں اور چاند ماموں، کے چاند ماموں، دادی، بڑے ابو، تائی اور ضمیر چچا ہمارے اپنے گھروں اور خاندانوں کے افراد ہیں، البتہ نیم اور کیکرکے درخت بھی ہمارے اپنے ہیں مگر ہم اُنھیں بھول چکے ہیں۔ ہم انھیں دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھتے۔ سَو یہ گھٹتے جارہے ہیں اور ان کے کم ہونے سے ان پر بیٹھنے، رہنے والی چِڑیاں بھی رخصت ہوگئی ہیں۔
شہر میں چڑیاں گھٹ گئی ہیں اور کوے بڑھ گئے ہیں۔
انسان کی جنسی جبلت پر منٹو کا افسانہ بُو، ایک معرکۃ الآرا فن پارہ ہے۔ چھنال، سے ذہن اُس جانب چلا جاتا ہے مگر یہ کہانی موضوعاتی برتاؤ اور ماحول میں بالکل مختلف ہے۔ یہ نسائی فطرت کو اپنا موضوع بناتی ہے۔ اس کہانی میں اقبال خورشید میں صحافی و وقائع نگار کا تجربہ کار فرما ہوکر اسے ایک منفرد اور اضافی ذائقہ دے دیتا ہے۔ پِٹے ہوئے راستے پر چلنے والے نئی راہیں دریافت کرنے سے معذور رہتے ہیں۔ یوں معاشرے کے متغیر رویوں اور اخلاقیات کے بدلتے پیمانوں اور سانچوں کا عمیق مشاہدہ کرنے کے بجائے کتابی و نصابی بوسیدہ متون کو نئے الفاظ کے پیراہن پہنانے والے اور قصّہ پارینہ ہوجانے والی اخلاق قدروں کی جگالی کرنے والے سادہ نظر بندے ادب عالیہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں ناکام ہوکر قاری اور کتاب کا رشتہ کم زور کردیتے ہیں۔
عہدِ گزشتہ کے اردو ادب میں عموماً مرد عورت سے رجوع کرتا تھا اور عورت خاندان اور معاشرے کی اخلاقی جکڑبندیوں میں بے بس ہوتی تھی۔ عہدِ حاضر میں رجوع ہر دو جانب سے ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں عورت کے اہلِ خانہ اس تعلق سے آگاہ ہونے کے باوجود قصداً اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ اس معاملے کو خوبی سے برتا گیا ہے۔ عورت اور جنس کے موضوع کو اسٹریٹ لائٹ کے نیچے کھڑی عورت، میں اقبال کے حساس قلم نے جس ناز کی سے تراشا ہے اُس نے اس مختصر نثر پارے کی تاثیر کو دو چند کر دیا ہے۔
مکودادا کی اساطیر، کو کراچی کے کینوس پر مصّور کیا گیا ہے۔ پرانے وقتوں کے بدمعاشوں کے بھی نظریات ہوتے تھے، وہ محلے کی بہن بیٹیوں کو عزت دیتے تھے اور اپنے معاملات میں بھی وہ حدود و قیود کے قائل تھے۔ کراچی کا منظرنامہ بدلتا ہے اور وہ بدمعاشی جو افراد سے انفرادی سطح پر منسلک تھی ایسی سیاسی جماعتوں اور مختلف گروہوں اور جتھوں نے اختیار کرلی جو ماورائے حدود تھے۔ لہٰذا گراری والا چاقو رکھنے والے اور ڈنڈا بردار بدمعاش پس منظر میں چلے گئے۔ کراچی کے علاوہ ملک بھر میں یہ مشاہدہ عام ہوا کہ ایک دیوقامت خوش بدن پہلوان ایک بوٹے قد کے منحنی پستول بردار کے سامنے بے بس ہوگیا۔ جدت قدامت پر حاوی ہوئی، جیسا کہ ہوتا آیا ہے اور آیندہ بھی ہوتا رہے گا۔ یقیناََ گولی فقط بندوق کی زبان سمجھتی ہے۔ وہ گھوڑا جو جری کی پیٹھ کے نیچے رفتار پکڑنے کو مچلتا تھا پستول میں آکر انگشت کی قامت کو بھی نہ پہنچ پایا مگر اِدھر زیادہ کارگر ہوا۔ سَو پستول کا گھوڑا بدخشانی گھوڑے سے زیادہ موثر ٹھیرا۔
سردخانے کا ملازم اور ایک کال سینٹر ایجنٹ کی سرگزشت، میں روزمرہ زندگی کے عمومی کرداروں کی کہانیوں میں موت کی باس رچی بسی ہے۔ ایک کال سینٹر ایجنٹ کی سرگزشت، میں محبت کی بھینی بھینی مہک ہے۔ یہ مہک محبت کی ہے یا پسندیدگی کی، اسے فنّی نزاکت سے بین السطور میں خفیف انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔
جب ایک اُردو ادیب کو نوبیل انعام ملا، خالص ادیب کی اپنی برادری میں بے وقعتی اور معاصرانہ چشمک کی روداد ہے۔ پاکستان کے احمد ندیم قاسمی سے لے کر کولمبیا کے گیبرئیل جوزے نے ڈی لاکنکورڈیا گارشیا مارکیز اس المیے کا شکار رہے، حسد و معاصرانہ رقابت اِدھر کچھ بڑھ کر ہے جو افسوس ناک امر ہے، زوال آمادہ معاشروں کا، جہاں خوبی ایک خامی سمجھی جاتی ہے، کا مکروہ چلن۔
میڈیا ورکرز کے المیے کے گرد بُنی گئی کہانی عامیانہ پن، اُن بے شمار کارکنوں کی زندگیوں کو الفاظ کی قید میں لاتی ہے جو میڈیا کی چکاچوند کے پس پردہ گپھاؤں اور گھپ اندھیروں میں بے نام و نشاں رزقِ فنا ہوتے ہیں۔ اس المیے پر کوئی تو بولے گا۔ سَو اقبال خورشید بول رہا ہے، تلخ حقائق کا شناور میڈیا کے ایک متحرک کارکن، ایک ادیب کا ضمیر بول رہا ہے۔ طوفان کی دستک، نامی انوکھی تمثیلی کہانی معروف جانے پہچانے کرداروں کی زبانی بیان ہوئی ہے تو ایک پاگل کہانی، محبت، جنس، بے وفائی اور انتقام سے مملُو روداد ہے۔ آفاقی جذبے ایک سے رہتے ہیں فقط نام، کردار، ماحول اور زمانہ بدل جاتا ہے۔
اسکاٹ فٹزجیرالڈ جیسا مہاکہانی کار کہتا تھا "پہلی سطر ایک مصافحہ کی طرح ہوتی ہے، تہنیتی اور متعارف کرواتی ہوئی"۔ مستنصر حسین تارڑ بھی سمجھتے ہیں کہ جب ادیب اپنے فن پارے کی پہلی سطر موثر انداز میں بہ خوبی تحریر کرلیتا ہے تو وہ اپنے سفر کی سب سے مشکل منزل عبور کرلیتا ہے۔ ان کے ناول "راکھ" کا آغاز"چار چیزیں ہیں جو ہر دسمبر مجھے بلاتی ہیں، ان میں ایک شکار ہے قادرِ آباد کے آس پاس اور وادیئی سوات کا ایک سلیٹی منظر ہے اور کامران کی بارہ دری سے لگ کر بہتا ہوا دریائے راوی ہے اور چوک چکلہ ہے" ایک عدیم المثل ابتدائیہ بن چکا ہے۔ متاثر کن، موثر، چونکا دینے اور فکر انگیز ابتدائی سطروں کا گُر اقبال نے بھی خوب آزمایا ہے۔ چاند ماموں، کی پہلی سطر ہے "یہ اُن دنوں کا قصّہ ہے، جب سارا چاند ہمارا تھا"، "سردخانے کا ملازم" کی ابتدا یوں ہوتی ہے "عبدالغفور نے جو لاش وصول کی اُس پر تپ چڑھا تھا"، عامیانہ پن، نامی کہانی یوں شروع ہوتی ہے"سوم وار کی ایک حبس زدہ شام میری اُس سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی" اور"قبل از تاریخ کی ایک رات" کا اِن الفاظ سے آغاز ہوتا ہے۔
"میں تیرے کاموں کو جانتا ہوں کہ توُ زندہ کہلاتا ہے اور ہے مردہ!"
(یوحنا کا مکاشفہ، 3/1۔ نیا عہد نامہ)
اِس حزنیہ افسانے کا اختتامیہ ابتدائیے سے بڑھ کر موثر ہے۔
"آسمان کے اوپری درجے خالی ہوچکے تھے۔ آج رات وہاں کوئی نہیں تھا"۔
"سُوجی ہوئی زندگی" میں درد سے کراہتی سوزش زدہ زندگی کا لطیف انداز میں موازنہ داڑھ کی سوجن سے کیا گیا ہے جس کا معالج تو بہرحال موجود ہوتا ہے۔ البتہ زندگی کی سوزش کا معالج غالباً زیادہ تر چھٹی پر رہتا ہے۔
جدید دَور میں انسان نے اپنی دل چسپی کے کئی حیلے ایجاد کیے، سوشل میڈیا ان میں نمایاں تر ہے اور سِتم پرور بھی۔ یہ امر باعثِ اطمینان و مسرت ہے کہ معاصر اردو ادب کو جدید دور کے مکروہات و محاسن سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے حاضر کا ادیب تمام تر عوامل کو بروئے کار لارہا ہے۔ سماجی مواصلت کے ذرائع (سوشل میڈیا) کے حوالے سے تابندہ کب مری؟ تحریر کیا گیا ہے تو من وتو، میں ٹکڑوں میں بٹی زندگی کو موضوعِ تخلیق بنایا گیا ہے۔
میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں وقت گزرنے کے ساتھ دَر آنے والی سرد مہری کو ایک جانب جھمپا لہری نے اپنے افسانوں کے لازوال مجموعے Interpreter of Maladies کے ایک نمایاں افسانے کا موضوع بنایا تو بین الاقوامی شہرت کی حامل کئی فلموں میں اس موضوع کو متنوع انداز میں برتا گیا۔ ہمارا ادیب بھی اس اہم اور حساس موضوع پر خامہ فرسائی میں سرگرم رہا۔ معاصر ادب میں اقبال خورشید کے افسانے "غارت گرلمحوں کی کہانی" کو نمایاں طور پر جگہ دی جاسکتی ہے۔ جس طرح شہر کی دگرگوں ہوتی حالت کو میاں بیوی کے باہمی متخیرہ روابط کے متوازی پیش کیا ہے وہ نزاکتِ بیاں اور تخیل و تخلیق کے تال میل کی عمدہ عکاسی ہے۔
"اسٹیج ڈانسر" میں ایک ایسے کردار کو مرکزِ تخلیق بنایا گیا ہے جو شاید اُردو افسانے میں ایک انوکھا تجربہ ہے۔ اسٹیج ڈانسر عموماً خواتین ہوتی ہیں۔ اِدھر ایک مرد کو یہ کردار سونپا گیا ہے۔ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ اُس کا پیشہ موضوعِ اظہار نہیں، اُس کا وجود جو مادرگیتی پر گویا ناوجود ہے اس افسانے کے وجود میں دھڑکتا، بند ہوتا دل ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ گُلِ و گُل زار، سراپا ایثار، یارباش، خلیق وملن سار اقبال خورشید اپنی آیندہ تخلیقات میں زندگی میں روشن چراغوں اور خوش گوار پہلوؤں کا بھی احاطہ کریں گے۔ شگفتہ مزاج و حسِ ظرافت سے شاد باد اقبال خورشید اپنی ذات کا کچھ رنگ اپنی تحریروں میں بھی لے کرآئیں گے۔
بہ غور دیکھا جائے، عمیق نظری کو بروئے کار لایا جائے تو اقبال کے افسانوں میں دورِ حاضر کے انسان کو درپیش تشخص کے بحران، اکیسویں صدی میں ڈیجیٹل انقلاب آنے کے بعد عروج پکڑنے والی نفسا نفسی، اندوہ ناک انسانی المیے، تنہائی، انتر ہوت اُداسی، معاشرتی رویوں میں سرعت سے آتی تبدیلیوں کے بطن سے جنم لیتی پیچیدگیاں اور وجودی کش مکش کہیں بین السطور تو کہیں واضح طور پر نظرآتی ہے۔
اقبال خورشید کا حرف حرف گواہی دیتا ہے کہ آج کے ادیب کے سینے میں ماں کا دل ہے، ایک ہاتھ میں درانتی ہے تو دوسرے میں کتاب ہے، اُس کی آنکھوں میں لفظ کے تقدس کو قائم رکھنے کا عزم ہے، واقعات اور متفرق آرا کے الجھاؤ میں دَبی گُھٹی حقیقت کو پالینے کی جُست جُو ہے اور جہالت، استبداد اور ظلم و تعدی کے اندھیروں میں قلم کو مشعل کی مانند اپنے ہاتھ میں تھام کر چلنے کا وعدہ ہے۔
خدا کا ہاتھ اقبال کے ہاتھ پر ہو۔ آمین، ثم آمین۔

