Pakistani Kutta
پاکستانی کُتا

یہ برطانیہ میں مجھے پیش آنے والا واقعہ ہے۔ مگر اس سے پہلے ضروری تمہید۔
باپ عموماً اولاد کے لیے رول ماڈل ہوتا ہے۔ بیٹیاں باپ سے غیر مشروط عشق کرتی ہیں، بیٹے ماں کے زیادہ قریب ہونے کے باوجود ایک عُمر کو پہنچ کر باپ کے حوصلے اور قربانیوں کے قائل ہو جاتے ہیں۔ ہر بچہ اپنے باپ کو ناقابلِ تسخیر اور طاقتور دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے بچپن اور لڑکپن کا تحفظ باپ سے مشروط ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اولاد کا باپ کا تصور ایک سچے آدمی کا ہوتا ہے۔
اس میں استثنیات نہیں شامل، بہت برے باپ بھی ہوتے ہیں، مگر بات عمومی اکثریت کی ہے۔
میں اپنے بچوں سے پاکستان کی خوبیوں اور خامیوں پر بات کرتا رہتا ہوں۔ البتہ میرا زیادہ زور اپنے وطن کی خوبیوں پر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ فقط یہ نہیں کہ میں اپنے ملک سے سچی محبت کرتا ہوں جس کے گواہ میرے اہلِ خانہ ہیں جن سے زیادہ محرمِ حقیقت کوئی اور نہیں ہوتا اور اس بات کا قائل ہوں کہ اگر یہ ملک وجود میں نہ آتا تو ہم ایک بڑی اقلیت کے طور پر پِس کر سسکتے رہ جاتے، بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اُن میں مثبت سوچ پروان چڑھے، وہ مثبت پہلوؤں اور امید افزا امکانات پر زیادہ نظر رکھیں۔ آئندہ زندگی میں درپیش مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ دل گرفتہ نہ ہو جائیں۔
چند برس پہلے لندن میں قیام کے دوران میرا سفری بیگ ٹوٹ گیا۔ میرا بیٹا اسکول میں پڑھتا تھا۔ وہ اپنی ننھی سی زندگی میں پہلی بار پاکستان سے باہر آیا تھا۔ میں اپنے بیٹے کے ساتھ نسبتاً بڑا بیگ خریدنے نکلا۔ ہم پاکستانی عموماََ بیرون ملک جاتے ہوئے بیگ میں خالی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ واپسی پر وہاں سے خریدا ہوا سامان اس میں یوں آ سکے کہ اس کا وزن ائیرلائنز کی پالیسی کے اندر آجائے اور اس میں مسافر کا سامان کم ہوتا ہے اس کے اعزا واقارب کے تحائف زیادہ ہوتے ہیں۔
سو میری کوشش تھی کہ بڑا اور سستا بیگ مل جائے تاکہ وہ واپسی کے یک طرفہ سفر میں کام آجائے، بھلے بعد میں اس کی ضرورت نہ رہے۔ ایک شناسا نے بتایا کہ وکٹوریا اسٹیشن کے قریب ایک مارکیٹ کی دکانوں پر مطلوبہ سامان مل جائے گا۔ اتفاق سے وہ جگہ ہماری جائے قیام کے نزدیک تھی۔ سو میں اور میرا بیٹا چہل قدمی کرتے ہوئے اُدھر کو چل دیے۔ مطلوبہ مقام پر دیسی لوگوں اور چینیوں کی دکانیں تھیں۔ چھوٹی چھوٹی دکانوں میں سجاوٹ کا سامان، سفری اشیا اور روزمرہ ضرورت کا سامان بِک رہا تھا۔ ایک جگہ ہمیں دکان کے باہر سوٹ کیس اور بیگ وغیرہ سجے نظر آ گئے۔ ہم اس چھوٹی سی دکان میں داخل ہو گئے۔ وہ اٹیچی کیسوں، شولڈر بیگز وغیرہ سے بھری ہوئی تھی۔ اس کا مالک ایک ادھیڑ عُمر کا آدمی تھا جس کی قومیت غیر برطانوی نظر آ رہی تھی۔
میں دُکان میں کھڑا ہو کر اپنے بیٹے سے اردو میں بات کرنے لگا کہ کون سا رنگ اور حجم موزوں رہے گا۔ ابھی ہم آپس میں بات کر ہی رہے تھے کہ دکان دار نے اردو میں ہمیں ایک بیگ کے بارے میں مشورہ دیا کہ ہم وہ والا بیگ خرید لیں۔ اس کی زبان سے اردو سُن کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی اور میں نے بے اختیار اس سے پُوچھا "کیا آپ پاکستانی ہیں؟"
اُس نے بلاتوقف اسی لمحے جواب دیا "میں افغان ہوں، خدا کرے کہ میرا کُتا بھی پاکستانی نہ ہو"۔
اس کا جواب ایک زناٹے دار چانٹے کی طرح مُجھے لگا۔ میں نے بوکھلا کر اپنے اسکول جاتے بیٹے کی جانب دیکھا تو وہ سوالیہ نظروں سے مُجھے یوں دیکھ رہا تھا جیسے کہ رہا ہو"ابو آپ تو جھوٹے نکلے"۔
ایک جھوٹا باپ اولاد کے لیے باعث شرمندگی ہوتا ہے۔
بوکھلا کر میں اپنے بیٹے کو لے کر وہاں سے بغیر کُچھ خریدے ہی نکل گیا۔
آج بھی مجھے وہ واقعہ یاد آئے تو مجھے شرمندگی نہیں ہوتی، غصہ نہیں آتا، فقط دُکھ ہوتا ہے۔
افغانستان ہمارا ہمسایہ ہی نہیں برادر اسلامی ملک بھی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کی ثقافت اور زبان اور ہمارے شمال مغربی خطے کی تہذیب و لسان ایک ہے۔
ریاست کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں بنائے جن کی وجہ سے کسی باپ کو بیٹے کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

