Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Indira Gandhi, Muhammad Rafi Aur Bolta Bhagwan

Indira Gandhi, Muhammad Rafi Aur Bolta Bhagwan

اندرا گاندھی، محمد رفیع اور بولتا بھگوان

محمد رفیع نے اندرا گاندھی سے درخواست کی تو وہ حیران رہ گئیں۔ واقعہ کُچھ یوں ہے کہ ستر کی دہائی میں بھارت میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ تب وہاں اندرا گاندھی کی حکومت تھی۔ ہندوستانی حکومت نے آل انڈیا ریڈیو (AIR) اور دوردرشن (DD) کو مکمل طور پر اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات (جس کے وزیر وی سی شکلہ تھے) نے شہرہ آفاق گلوکار کشور کمار سے کہا کہ وہ ایک سرکاری جلسے میں گانے گائیں اور حکومت کے حق میں چند نغمے ریکارڈ کروائیں۔ شنید ہے کہ تب سنجے گاندھی نے ان سے مردانہ نس بندی کے حق میں گانے گانے کا بھی کہا۔ آبادی (بالخصوص مسلمانوں کی آبادی) میں اضافہ روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر مہم جاری تھی۔ بےشک حکومت اندرا گاندھی کی تھی مگر حُکم سنجے گاندھی کا بھی چلتا تھا۔

کشور کمار آزاد طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے یہ درخواست نُما حُکم ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ ان کے الفاظ کچھ یوں تھے۔

"میں عوام کے لیے گاتا ہوں، کسی پارٹی یا سیاست کے لیے نہیں"۔

اس پر سنجے گاندھی اور حکومت ناراض ہوگئی اور بطور سزا کشور کمار کے گانے آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن پر نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ پابندی تقریباً ایک سال تک قائم رہی۔ البتہ عوام میں کشور کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ اور بڑھ گئی۔

محمد رفیع اور کشور کے بیچ معاصرانہ چپقلش چلتی رہتی تھی، دونوں ٹھہرے اس دور کے عظیم گلوکار۔ محمد رفیع تمام تر اختلافات کے باوجود کشور کمار کے ساتھ اس سلوک پر بہت دُکھی تھے۔

ایک فنکشن میں ان کی ملاقات اندرا گاندھی سے ہوئی تو انہوں نے وزیراعظم سے خاص طور پر درخواست کی کہ کشور پر سے پابندی ہٹائی جائے۔ حیران کُن طور پر اندرا کو اس پابندی کا علم نہ تھا۔ وہ دیگر مُلکی و بین الاقوامی معاملات میں اُلجھی ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ اندرا گاندھی کے والد جواہر لال نہرو کشمیری تھے اور اُردو سے لگاؤ رکھتے تھے، کشمیری خاندانوں میں اردو پڑھائی لکھائی جاتی تھی اور آج بھی مقبوضہ کشمیر کی سرکاری زبان اردو ہے۔ اردو اپنے ساتھ تہذیب لے کر آتی ہے۔ یہی تہذیب نہرو کو جوش ملیح آبادی کی ایسی قدر کرنے پر مجبور کرتی تھی کہ ان کی آمد کا سُن کر وہ ننگے پیر بھاگے چلے آتے تھے۔ قصہ اردو برطرف، اندرا گاندھی نے رفیع سے ملاقات کے دوران حُکم جاری کیا کہ کشور پر سے پابندی فی الفور ختم کی جائے۔ سو جلد کشور کے گانے ریڈیو اور ٹی وی پر ملک بھر میں سُنے جانے لگے۔ یوں ایک عظیم گلوکار کی وضع داری کا لازوال نقش کندہ ہوا۔

گزشتہ دِنوں میں ایک پاپ گلوکار کا انٹرویو دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہ رہا تھا "میں اِس دور کا عظیم گلوکار ہوں" تب مجھے محمد رفیع یاد آ گئے جو اپنی تعریف سُن کر شرما جایا کرتے تھے، رات کے ٹی وی شوز میں، جو ہر گھرانے میں دیکھے جاتے ہیں، میزبانوں کو ذومعانی گفت گو کرتے دیکھ کر اور ان میں سُنائے جانے والے لچر لطیفے اور سستی جُگتیں سُن کر مُجھے ضیا محی الدین اور عبیداللہ بیگ یاد آ جاتے ہیں، جب میں نئے گلوکاروں کو پرانے گانوں کو دوبارہ گا کر مقبولیت پا لینے کے بعد حالت تکبر میں دیکھتا ہوں تو مجھے عجز میں جُھک جُھک جانے والی بے مثال روشن آرا بیگم یاد آ جاتی ہیں جن کے گلے میں واقعی بھگوان بولتا تھا۔ جب میں ماضی کے محمد رفیع، عبیداللہ بیگ اور روشن آرا بیگم جیسے وضع دار اور بے مثل لوگوں کو یاد کرتا ہوں اور آج کے لاکھوں کی فین فالوئنگ رکھنے والے چھوٹے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل تاسف سے بھر جاتا ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ آدمی کی عُمر جوں جوں بڑھتی ہے توں توں اسے ماضی زیادہ اچھا اور حال غیر متاثر کُن لگنے لگتا ہے۔

شاید میں غلط سوچتا ہوں، شاید میں بوڑھا ہو رہا ہوں۔

Check Also

Caligula Dar Asal Aik Soch Ka Naam Hai

By Rao Manzar Hayat