Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Ikhlaq Ahmed Ki Numainda Kahaniyan

Ikhlaq Ahmed Ki Numainda Kahaniyan

اخلاق احمد کی نمائندہ کہانیاں

[احباب، بالخصوص اعلٰی فکشن کے شائقین سے درخواست ہے کہ ہمارے عہد کے اس نمائندہ ادیب کے فن کی تفہیم کے لیے اس مضمون کو مکمل پڑھیں۔ اس دورِ ناشناساں، ایسا دور جس میں ادیب کے لیے ادب وسیلہ رزق رہ گیا ہے اور نہ ہی باعث شہرت، ہم ان چند جید، مُشاق اور قابل احترام افسانہ گاروں کو خراجِ تحسین تو پیش کر ہی سکتے ہیں جو سر نیہوڑائے تخلیق فن میں غرقاں ہیں]

پاکستان کے ممتاز ادیب اخلاق احمد اور جرمنی کے رجحان ساز مصور ہینز ہولبین میں کچھ خاص مشترک نہیں۔ ہولبین پندرہویں صدی عیسوی میں آگسبرگ، جرمنی میں پیدا ہوا جب کہ اخلاق احمد کی پیدائش بیسویں صدی کے پاکستان کی ہے۔ ہولبین کا باپ مصور تھا اور اُس کی فنّی تربیت بیسل، سوئٹزرلینڈ میں ہوئی، اخلاق احمد کے گھر کا ماحول علمی تھا اور کراچی کے ادبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی۔ ہولبین شاہ ہنری کا شاہی مصور تھا جب کہ اخلاق احمد کو دربار سرکار سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہولبین کی زندگی جرمنی سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کے مسلسل اسفار کی داستان ہے جب کہ اخلاق احمد کی بیش تر زندگی کراچی ہی کے کوچہ وبازار کو الفاظ سے مصوّر کرنے میں بیت گئی۔

البتہ ان دونوں تخلیق کاروں میں کچھ مشترک بھی ہے۔ ہولبین کا بھائی امبروسیس ہولبین ایک قابلِ قدر مصور تھا اور اخلاق احمد کے برادرِ بزرگ احمد اقبال بھی ایک جیّدادیب ہیں۔ ہولبین نے سیاسی وسماجی افراتفری اور بے چینی کے دور میں زندگی بسر کی اور اخلاق احمد نے بھی اپنی زندگی کے ماہ وسال سیاسی وسماجی ہنگامہ خیزی کی نذر کیے۔ البتہ ایک معاملہ دونوں میں اِس حد تک مشترک ہے کہ وہ دیگر تمام معاملات پر حاوی ہوجاتا ہے، وہ معاملہ ہے اپنے فن کے ذریعے حقیقی زندگی کی شان دار عکاسی۔ ہولبین اپنے کرداروں کی حقیقی اور بھرپور عکاسی کرنے میں بے مثال تھا اور اخلاق احمد بھی اپنے کرداروں کو قلم کی نوک سے چھو کرزندہ کردیتے ہیں۔

ہولبین کی مشہورِ زمانہ تصویر"سفرا" میں ایک انسانی کھوپڑی یوں نقش کی گئی ہے کہ اسے ایک مخصوص زاویے ہی سے دیکھا جائے تو اس سے منسلک فنا ونابود کی کیفیت اپنی جامعیت سے سامنے آتی ہے اور اخلاق احمد کے افسانوں کے بہ ظاہر عام اور سادہ کردار بھی اپنی تفہیم کے لیے عمیق نظری کے متقاضی ہیں۔ ہولبین کے بارے میں ایک روایت ہے کہ اُس نے ایک پھول کو یوں زندگی آمیز انداز میں مصور کیا تھا کہ شہد کی مکھیاں اُس پر آن بیٹھی تھیں اور اخلاق احمد نے اپنے افسانوں میں کردار یوں مبنی برحقیقت انداز میں تخلیق کیے ہیں کہ قاری کو گُمان گزرتا ہے کہ وہ اپنی حقیقی زندگی میں ان سے واسطہ و معاملہ رکھتا ہے۔

البتہ ہولبین شاید گیبرئیل گارشیا مارکیز کو نہ جانتا تھا کہ وہ اُس کے صاحبِ عدم ہونے کے چار صدی بعد عالمِ موجودات میں وارد ہوا تھا، ایک پندرہویں صدی کا آدمی تھا اور دوسرا بیسویں صدی کا شخص، لیکن اخلاق احمد یقیناََ مارکیز کو جانتے ہیں کہ وہ اُس کے ان الفاظ کے پیرو ہیں جو اُس پر شاید حالتِ سکر میں القا ہوئے تھے"سب سے خوب صورت کہانیاں، سچّی کہانیاں ہی ہوتی ہیں"۔ یوں وہ سچ جو ہولبین اپنے برش سے مصور کرتا تھا، ویسا ہی سچ، اخلاق احمد اپنے قلم سے نقش کرتے ہیں، گو ہولبین کا سچ حزن آگیں و مرگ آمیز تھا اور اخلاق کا سچ زندگی آموز وحیات آفرین ہے۔

اخلاق احمد جیسے اُجلی اور روایتی حُسن کی حامل عمدہ اور خالص کہانیاں لکھنے والے قدآور ادیب کو وہ پذیرائی نہ مِل پائی جس کے وہ مستحق ہیں۔ ان جیسی دل چسپ، فکر انگیز، راست بیانیے پر مشتمل، حقیقی زندگی سے معاملہ رکھتی کہانیوں کے لیے ادبِ عالیہ اپنے بازو واکیے منتظر رہتا ہے۔ شاید اُن کے انکسار، سادگی اور وضع داری نے اِس خود نمائی اور خود پرستی کے دَور میں اُن پر روک لگا رکھی ہے۔ خدا کی پناہ، افسانوں کے چھے مجموعے، ہر مجموعے کی بیش ترکہانیاں عمدہ، ہر کہانی میں مختلف وضع قطع کے کئی کردار، بہ یک وقت دل و دماغ پر اثر کرتے قصّے، ایک قصّے کی کئی پرتیں، ہر پرت منفرد رنگ کی اور ہر رنگ کی مہک یکتا۔

اخلاق احمد جیسے مرنجاں مرنج، سادہ مزاج اور نفیس آدمی کے بارے میں ایک سرسری ملاقات کے بعد نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے اندر ایک عمیق مشاہدے اور ذہنِ رساوالا ایسا ذہین ادیب گھات لگائے بیٹھا ہے جو انسانی نفسیات(بالخصوص نسائی نفسیات) کی جانچ کاری اور پڑتال میں اعلیٰ مہارت رکھتا ہے اور انسانی فطرت کا عمدہ نباض ہے۔ تاوقتیکہ آدمی ان کی گہری اور ذہین آنکھوں میں جھانک لے۔ وہ نہ تو ایوانِ ادب میں دیگر کئی ادیبوں کی طرح توجہ کے حصول کے لیے اپناسینہ پیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور نہ ہی اپنی "میں " کے عَلم کو سب سے بلند رکھنے کی کوئی سعی کی۔ ان میں میرِمحفل بننے کی کوئی تمنّا نظر آتی ہے اور نہ ہی ادب میں بلند ترین رتبہ حاصل کرنے کی خواہش کلپتی ہے۔ وہ اپنے کاندھے پرقصّوں کی زنبیل ڈالے گلیوں، سڑکوں، بازاروں، دفتروں اور دکانوں میں بے آواز داخل ہوتے ہیں، قصّے کہانیاں، کردار اور مکالمات چُنتے ہیں، اپنی زنبیل میں ڈالتے ہیں اور اگلی منزل کا رخ کرتے ہیں۔

عموماً وہ ایک ہی بستی کی مختلف گلیوں بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ بندر روڈ سے میکلوڈ روڈ تک، گولی مار سے جمشید ٹاؤن تک، ناگن چورنگی سے جیکسن ہائٹس تک وہ شہر کا چپا چپا چھان مارتے ہیں۔ گلیاں محلے بدلتے رہتے ہیں، البتہ شہر ایک ہی رہتا ہے، کراچی۔ بھوکوں کو کھانا کھلانے والا، بے دروں کو ٹھکانا دینے والا بڑے دل کا شہر کراچی، اور بڑے دل کے شہر کراچی میں پھسکڑا مار کربیٹھے گوشہ نشین، لذیذ حکایتیں سنانے والے قصّہ گو، بڑے دل کے ادیب اخلاق احمد! وہ وسیع القلبی جو وضع دار ادیبوں کا خاصہ ہے، اُس کی عمدہ تجسیم اخلاق احمد میں نظرآتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایک ادیب کے لیے اپنے ہم عصر ادیب کی خلوصِ نیت اور وسعتِ قلب سے توصیف کرنا کارِ دارد ہے۔ اخلاق احمد کو قدرت نے خلوص اور وسیع القلبی کے خزانے سے مالا مال کیا ہے۔ دوسروں کی خوبیوں کی مدح سرائی میں پیش پیش اور اپنی تخلیقی لیاقت کے تذکرے پرعجز سے سمٹ جانا روزمرہ بول چال اور نشست وبرخواست میں سادہ اطوار رکھنے والے، منکسرالمزاج اور شریف آدمی۔ ہمارے اخلاق احمد وضع دار بزرگوں کی روایات کے امین ہیں۔

علمائے ادب کے نزدیک ایک عمدہ افسانہ بعض صورتوں میں دیگر اصناف ادب پر یوں فوقیت رکھتا ہے کہ وہ اختصار کی حدود میں رہتے ہوئے انسانی زندگی کے لطیف وعمیق پہلوؤں سے فکر انگیز اور فکر افروز انداز میں معاملہ کرتا ہے۔ گو عموماً افسانہ زندگی کے ایک پہلو، ایک معین وقت یا بعض صورتوں میں ایک ہی آدمی سے واسطہ رکھتا ہے مگر ایک عمدہ کہانی کار قطرے میں دجلہ دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر اس معاملے کا انسان پر انطباق کیا جائے تو انسان کو پورے بدن پر حیاتیاتی تناسب سے دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں تحفہ کی جاتی ہیں جن سے وہ کائنات کی وسعتوں میں جھانکتا ہے اوراِس جہان رنگ و بو کے نظاروں سے اپنے لیے لطف کشید کرتا ہے۔ گویا دو کھڑکیاں اور بعض صورتوں میں ایک کھڑکی، عالمِ بسیط کے مشاہدے کے لیے کافی ہے۔ سو افسانے ایسی کھڑکیاں ہیں جن سے حیاتِ انسانی کے مختلف ومتنّوع عناصر کابہ غور اور بصیرت افروز مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

افسانہ ارتقا کے مراحل طے کرتا ہوا ایک مخصوص مقام پر پہنچا تو اُس کا سفر ایک پُھلجڑی کی مانند مختلف سمتوں میں پھوٹ نکلا، ہر سمت ضوفشاں۔ مختصر کہانی یا افسانہ انیسویں صدی تک معلوم ومعروف صنفِ ادب نہ تھی۔ جب انیسویں صدی کے مغرب میں متوسط طبقہ وسیع تر پیمانے پر خواندہ ہوا تو اُس کے ذوق کی آبیاری اور تسکینِ طبع کے لیے کثیر الاشاعتی رسالے اور اخبارات وجود میں آئے۔ سو ادبا نے افسانے میں طبع آزمائی کی ٹھانی اور انیسویں صدی کے وسط تک ہاتھورن، ایڈگرایلن پو اور ترگنیف جیسے نابغہئی روزگار کہانی کار منصہ شہود پر آچکے تھے۔ ان جیسے کہانی کاروں کے یکدم وجود میں آنے اور سراہے جانے نے اِس امر کو عیاں کردیا کہ مختصر کہانی (طویل داستان، رزمیہ ناول، طلسماتی روداد، ڈراما اور مذہبی حکایات سے ماسوا، مختصر فکشن) انسان کے تحت الشعور میں موجود تھی۔

اُسے شعور میں آکر اظہار کا لباس پہننا تھا۔ والٹر اسکاٹ کی 1827ء میں شائع ہونے والی کہانی"مویشیوں کے دوبیوپاری" کو پہلا افسانہ گردانا جاتا ہے۔ کسی رجحان ساز تخلیق کارکی مانند والٹراسکاٹ کی تخلیقات کے اثرات برطانیہ کے جارج ایلیٹ اور ٹامس ہارڈی، فرانس کے بالزک، روس کے پشکن اور ترگنیف اور امریکا کے ہاتھورن تک جاپہنچے۔ ان کے مابعد اثرات فلابیئر، موپساں، چیخوف، پو اور میلوائل تک مرتب ہوئے۔ ترگنیف نے جس انداز کو متعارف کرایا، چیخوف نے اُسے فن کارانہ مہارت سے پختہ کیا۔ چیخوف سمجھ گیا تھا کہ زندگی کسی خاص ترتیب اور منصوبے سے آگے کو نہیں بڑھتی بلکہ یہ ایسے منتشر عناصر کا مجموعہ ہے جن کی بنیاد میں ایک مخصوص نظم ہے۔

زندگی کی زیریں سطح پرایک رو میں چلتی ہے جو زندگی کے تمام تر غیر متوقع اور غیر ارادی حوادث کو منسلک کرتی ہے۔ وہ زندگی کی بے معنویت کو سمجھ گیا تھا۔ اُس نے اپنی کہانیوں کو کرب ناک حد تک حقیقی بنایا۔ یوں بہت سے موقر علمائے افسانہ کے نزدیک وہ جدید افسانے کا سرخیل ٹھیرا۔ چیخوف کے اندازِ تحریر سے انحراف بیسویں صدی کے وسط میں "دبے بیانیے" کی صورت میں سامنے آیا۔ اس اندازِ تحریر میں بہ ظاہر راست بیانیے میں درحقیقت پوشیدہ معانی کی تفہیم کی جاتی ہے۔ نوبوکوف، کالوینو اور بورخیس اس انداز کو برتنے والے نمایاں ادیب ہیں۔ جدید ترین کہانی حقیقت اور فکشن کا امتزاج ہوتی ہے جسے فیکٹ اور فکشن کے ملاپ کے بہ موجب "فیکشن" کہا جاتا ہے۔ اس اندازِ تحریر کوروایتی راست بیانیے کے شائق فکشن تسلیم کرنے میں تردّد کرتے ہیں۔

دنیائے ادب میں مختلف لہریں چلتی رہتی ہیں۔ ایک ادیب جو آج نہ صرف قارئین بلکہ ثقہ بند نقادوں کی نظر میں اہم ٹھیرتا ہے، فرداکے قاری اور دانش ور کی نظر میں غیر اہم ہو سکتا ہے۔ ایک دور موپساں اور پو کے راست بیانیے کا تھا، بعد ازاں چیخوفیئن انداز نمایاں ہوا، ماہم نے اپنے راست بیانیے کے ذریعے اس کے بعد جگہ بنائی، اُس کے متوازی جیمز جوائس سامنے آیا۔

ایک بات کا تذکرہ ناگزیر ہے کہ دانیو یارکر، داپیرس ریویو اور گرانٹا جیسے بین الاقوامی سطح کے معروف جرائد، ادبِ عالیہ کو عامۃ الناس تک پہنچانے کا سہرا جن کے سر جاتا ہے، بیسویں صدی کے اواخر تک چیخوفیئن انداز کے پیروکار اور پیش کار رہے۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ادب سماجی، معاشی وسیاسی تحریکوں اور تبدیلیوں کے زیر اثر اپنی ہیئت تبدیل کرتا ہے اور اپنے قاری کی ذہنی تربیت بھی کرتا ہے تاکہ وہ آیندہ آنے والے ادبی رجحان کو سمجھ سکے اور اُس کی پذیرائی کرسکے۔ یہ سب عمل بہ تدریج ہوتا ہے اور اپنے اندر سے ارتقا کی صورت برآمد کرتا ہے۔

اردو ادب کو دو بڑے سانحات کا سامنا رہا۔ متحدہ ہند کی تقسیم اور متحدہ پاکستان کی تقسیم۔ پہلے حادثے کا اثر اردو ادب پر ہنو ز باقی ہے، جب کہ دوسرے سانحے نے اسے گنگ کرکے رکھ دیا۔ البتہ سماجی سطح پر گزشتہ پون صدی میں ویسی اتھل پتھل نہ ہوئی جیسی کا یورپ کو سامنا تھا۔ البتہ اِدھر سیدھے سبھاؤ والی کہانی کی جگہ ایسی علامتی کہانی لائی گئی جو نہ تو صحیح معنوں میں چیخوفیئن کہانی تھی اور نہ ہی "دبے بیانیے" کی کہانی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ اس کے پیرو مخلص اور سچے فن کار نہ تھے، بلکہ وہ ایک زقند میں صدی بھر کا فاصلہ طے کر لینا چاہتے تھے جب کہ ان کو یورپ جیسی فضا و ماحول اور معاون عناصر میسر نہ تھے۔ جب پودا بھی موسم، زمین اور ماحول دیکھ کر لگایا جاتا ہے، تب اُدھر کی زمینوں سے قلمیں اُتار کر اِدھر لگا دی گئیں تو مطلوبہ سبزہ و گل ندارد رہے۔ چناں چہ روایتی انداز کی کہانی کی جانب رجوع کیا گیا۔ افسانے میں کہانی لَوٹ آئی(اگریہ کوئی دو علیحدہ اصناف ہیں)۔ اس دَور میں جو نام نمایاں ہوئے ان میں اخلاق احمد کا نامِ نامی نمایاں تر ہے۔ اُن کے ہاں ایک خوبی اضافی ہے کہ ان کی تحریر کردہ روایتی کہانی میں اِدھر اُدھر چیخوفئن انداز، قصّے کی رو کو متاثر کیے بغیر، اپنی جھلک دِکھلا جاتا ہے۔

اخلاق احمد کے افسانوں میں حقیقت نگاری اور راست بیانی ریل گاڑی کی شفاف کھڑکیوں کی مانند ہیں جن سے پٹڑی کے ہر دو جانب رواں دواں زندگی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کھڑکیوں کے پار کی دنیانہ تو علامت کی دھند میں ڈوبی ہوئی ہے اور نہ ہی مسلط کردہ تجرید اور تشبیہات منظر کو دھندلا کرتی ہیں۔ ان کے ہاں انسانی زندگی جیسی ہے ویسی ہی نظر آتی ہے۔ یقیناََ بڑے سچ زندگی کے عام معاملات ہی میں پنہاں ہوتے ہیں۔ یہ سچ بینڈ بجاتے، مارچ کرتے، ہوشیار کی صدائیں بلند کرتے نہیں آتے بلکہ انسانی زندگی میں سیدھے سبھاؤ اور غیر محسوس انداز میں داخل ہوجاتے ہیں۔

اخلاق احمد بنیادی طور پر شہری زندگی کے عکاس ہیں۔ ان کے کردار سڑکوں پر چلتے پھرتے عام کردار ہیں۔ موٹرسائکل پر بیٹھے ملازمت کو جاتے ہوئے، ہاتھ میں ٹوکری پکڑے کنجڑے سے بحث کرتی ہوئی، قیمتی کار کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے سوچ میں گُم، گاڑی کی کھڑکیوں پر سَن شیڈز لگا کر اپنی محبوبہ کو ساتھ بٹھائے ہوئے، چلتی ٹرین پر باہر سے کنکر مارتے ہوئے، غرض یہ کہ متنوع کردار ہیں۔ ان افسانوں کا ہر کردار انفرادیت لیے ہوئے ہے، اُس کے بولنے، نشست وبرخواست کا انداز مختلف ہے۔ بھلے وہ مارٹن کو ارٹرز کا ماسٹر اور اس کا دوست منظر ہو، دوسری عورت، کی طاہرہ اور انجلا ہوں، ایک، دو، تین، چار، کا سیٹھ لطیف کانجی ہو، کامی حرامی، کا کامران کامی ہو یا گٹکا، کا گُلریز عرف گٹکا ہو، یہ تمام کردار ہمیں زندگی کی بوالعجبیوں اور انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ چند صفحات میں اخلاق احمد انسانی تجربے کو تمام تر لطافتوں اور کثافتوں سمیت سمو دیتے ہیں۔ وہ ایک ماہر کہانی تراش کی مانند ایک کہانی میں قصّے کے ساتھ تفکر وتدبر کا سامان فراہم کر دیتے ہیں۔ چند سطروں میں جذبات قزح میں روشنی کے ان اجزا کی طرح بکھر جاتے ہیں جو، اپنے اپنے طول موج کے مطابق انشقاق سے جنم لیتی مختلف رنگوں کی پٹیوں کی طرح جو مختلف تدریجی بصارتی کیفیات لیے ہوتی ہیں، مختلف کیفیات کے حامل ہوتے ہیں۔

ان کے بیش تر افسانے عورت اور مرد کے مابین تعلق کی کھوج کرتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ تعلق محبت کا ہوتا ہے۔ تثلیث ان کی ترکیبِ خاص ہے۔ دو عورتیں اور ایک مرد، ایک مرد ایک عورت اور مرد کا دوست، دو مرد ایک عورت اور اسی طرز کے مختلف سانچے۔ ان موضوعات پر اُردو ادب میں خاصا لکھا گیا ہے، البتہ اخلاق احمد کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ دو کرداروں کے مابین تعلق میں ایسی جہت دریافت کرلیتے ہیں کہ وہ دیکھی بھالی لگنے کے باوجود انوکھی ہوتی ہے۔ ان کے کردار اتنے حقیقی ہوتے ہیں کہ وہ ورق پر اٹھ کر چلنے پھرنے اور باتیں کرنے لگتے ہیں۔

اخلاق احمد فرسودہ تصورات اور کلیشے کو چیلنج کرتے ہیں اور فطرتِ آدم و حواکوتمام تر کجیوں اور رعنائیوں کے ساتھ عیاں کرتے ہیں۔ ان کہانیوں کی سطح کے نیچے ایک رَو چلتی ہے، انسان کی فطرت اور نفسیات کو سمجھنے کی خواہش، اُس کی پڑتال کرنے کی تخلیقی تمنّا، ہم دردی سے مملوخواہش۔ وہ انسان کو ایک سرجن کی نظر سے آپریشن تھیٹرمیں لیٹے مریض کی طرح نہیں دیکھتے جو جراحت کا منتظر ہو بلکہ اُسے ایک پادری کی ہم درد نگاہوں سے دیکھتے ہیں، ایک ٹوٹے تھکے آدمی، عیسیٰ کی گم شدہ و گم راہ بھیڑ کی مانند دیکھتے ہیں جو اعتراف خانے میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے، لباسِ تکلف سے بے نیاز ہونے کے لیے آتا ہے۔

ایک لطیف نکتہ اہمیت کا حامل ہے کہ کہانی کار اپنے کرداروں کے خارج سے اُن کے داخل تک رسائی پاتے ہیں۔ یعنی کہ ایک مشاق وجید ادیب کی طرح وہ کرداروں کی حرکات وسکنات، گفت گو اور اطوار سے ان کا داخلی ماجرابیان کرتے ہیں۔ بیروں بینی سے دروں بینی کو رستہ مِلتا ہے۔ یہ دروں بینی فقط ایک کردار کی نفسیاتی پڑتال کا موجب نہیں بنتی بلکہ ایک کردار کے ذریعے انسانیت کی اجتماعی نفسیاتی جانچ کاری کا باعث بنتی ہے۔ ایک ماں کے دکھ کا بیان صرف ایک ماں کے غم کے اظہار تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ تمام ماؤں کے دُکھوں کا عکاس ہوتا ہے۔ ازل سے چند آفاقی موضوعات چلے آرہے ہیں جو تمام قصّوں، داستانوں اور ڈراموں کی بنیاد میں ہیں۔ محبت، نفرت، حسد، جنس، لالچ، رحم، عزت، ذلت، بقا کی خواہش وغیرہ وغیرہ۔ گینجی کی کہانی، سے لے کرشیکسپیئرکے ڈراموں تک اور امراؤجان ادا سے لے کر اخلاق احمد کے افسانوں تک، بنیادی انسانی آدرش اور احساسات وہی رہتے ہیں۔ زبان، لباس اور اشیائے روزمرہ بدل جاتی ہیں، آدمی وہی رہتا ہے۔

اب چند موضوعات اور ان کے برتاؤ کو دیکھ لیا جائے۔ افسانوں میں سے ایک بہت دل چسپ افسانے میں ایک کردار محلے میں رہنے والا ماسٹر ایک بہترین ناصح اور مشیر ہے۔ وہ متانت اور دانش مندی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس کے مشورے صائب اور حسبِ حال ہوتے ہیں۔ البتہ اُس کی اپنی زندگی مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔ اگر بہ نظرِغائر دیکھا جائے تو اُس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اُس کا دل اُس کے دماغ کے تابع نہیں۔ اسی طرح ایک اور خوب صورت افسانے میں ایک میّت پر دو عورتوں کا ردعمل نسائی سرشت کا نباض ہی اس طرح بیان کرسکتا ہے جس طرح کہانی کار نے خوب مہارت اور نزاکت سے بیان کیا ہے۔ خوابوں کی خرید و فروخت سے تعلق رکھتا ایک افسانہ چیخوفئین کے علاوہ بورخیس کا بھی رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہ افسانہ اپنے مزاج اور بیان میں دیگر افسانوں سے مختلف ہے۔ اس کا اختتام قاری کو نہ صرف چونکا دیتا ہے بلکہ اُس سامانِ غوروفکر بھی مہیا کرتا ہے۔ ایک اچھوتا افسانہ علم الاعداد کے گرد گھومتا اس کی بوالعجبیوں کو وا کرتا ہے۔ بہ ظاہر ایک لا اُبالی اور لاپرواہ شخص کیسا وضع دار ہوسکتا ہے، یہ حقیقی زندگی کے عکاس ایک دل کش افسانے میں بیان ہوا ہے۔ ان افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں مناظر بدلتے رہتے ہیں، واقعات آگے کو بڑھتے ہیں اور قاری کی توجہ اپنی جانب منعطف کیے رکھتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی جیسے اساتذۂ ادب کو ایک خوبی ممتاز کرتی تھی کہ وہ اپنے زمانے کی کہانی لکھتے تھے اور اپنے مانوس لوکیل کو برتتے تھے۔ ان کی کئی کہانیاں تو اخبار کی خبروں کی بنیاد پر تحریر کی گئی تھیں۔ چوں کہ یہ اپنے زمان و مکان سے علاقہ رکھتی تھیں سو قاری کی فوری دل چسپی کا باعث بنتی تھیں۔ اخلاق احمد بھی عموماً اپنے زمانے اور اپنے اِردگرد کے ماحول کو بیان کرتے ہیں۔ یوں ان کی کہانیاں دورِ حاضر کے احوال کا بیان ہے۔ یہ معاصر سماجی تاریخ کی آئینہ دار ہیں۔ ماہرینِ بشریات جب ماضی بعید کو کھنگالتے ہیں تو اُس دور کی پتھروں پر، غاروں میں اور دیگر مقامات پر نقش تصویری تحریروں سے معاونت حاصل کرتے ہیں سو جو آج کا دور بیان کررہا ہے وہ حاضر کی تاریخ رقم کررہا ہے۔

بلند آہنگ خاموشیاں ان کہانیوں میں بہت سے معانی آشکار کرتی ہیں۔ کئی مقامات پر پرُمعانی خاموشی ہی بہترین اسلوب کی عکاس ہوتی ہے جسے بہ خوبی برتا گیا ہے۔ علاوہ ازیں قصّہ گو مبلغ ومصلح بن کر سامنے نہیں آتے بلکہ طالسطائی کے نظریہئی فن کہ "حقیقت نگاری کا مقصد یہ ہے کہ زندگی اس طرح بیان کیا جائے کہ وہ حقیقت میں ہوتی ہے، نہ کہ جیسا ہم چاہتے ہیں ویسی ہو"کے سچے پیرو ہیں۔ اس کے نمونے ان کے عمدہ، دل چسپ اور من موہنے افسانوں میں ملتے ہیں۔ ہر افسانہ خوب سے خوب تر، ہر کردار ڈھلا ڈھلایا، ہر قصّہ جاذبِ نظر اور ہرمکالمہ بے ساختہ، حیاتِ انسانی کی لطافتوں اور کثافتوں، ہر دور کو اپنے قصّوں میں سموتے ہوئے، اِک ہجوم ناشناساں، اِس دورِ نامہرباں میں اِس امر سے بے نیاز کہ ادب کا کوئی شناور متوجہ ومدح سرا ہے یا نہیں فقط اظہارِ ذات اور تزکیہ نفس کے لیے الفاظ کے پیکر تراش رہے ہیں، ہمارے دور کے مہافن کار، مہاکہانی کار کا جذبہئی شوقِ تخلیق اپنی بھرپور جولانی سے رقصاں ہے، منم آں قطرہ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed